یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے

عابد محمود عزام  جمعرات 10 نومبر 2016

سیاست کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ سیاستدانوں کو دوسروں کی چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی واضح نظر آتی ہیں، لیکن اپنے بڑے بڑے ’’کارناموں‘‘ پر بھی سدا دھند ہی چھائی رہتی ہے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر بھی کسی کو نظر نہیں دیتا۔ حالانکہ تقریباً تمام سیاست دان ایک سے ہیں۔ ان میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے، لیکن سب کا محور اقتدار اور مفادات کا حصول ہے۔ تمام سیاستدانوں کا مقصد ایک، لیکن نعرہ ہر ایک جدا لگاتا ہے۔ جھوٹے نعروں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عرب ادیب مصطفیٰ لطفی منفلوطی نے تو یہاں تک لکھا ہے ’’جلاد تو چند افراد کو قتل کرتا ہے مگر سیاستدان ساری قوم کی جانوں کا سودا کرتا ہے، جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاستدان۔‘‘ اگرچہ کچھ سیاست دان اس سے مستثنیٰ بھی ہوتے ہیں، لیکن آج تو سیاست نام ہی دھوکا دہی اور جھوٹے نعروں کا بن گیا ہے۔ جو جتنا زیادہ جھوٹ بول سکتا ہے، اتنی ہی تیزی سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ عوام بھی اسی سیاست دان کوکامیاب کروانا ضروری خیال کرتے ہیں، جوسب سے زیادہ ان کو بے وقوف بنا سکتا ہو۔ غریب عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے سیاستدان نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں۔ ہر آنے والا سیاستدان ایک نیا ہی تماشا سجاتا ہے اور پٹاری سے کچھ نہ کچھ نکال کر عوام کو بے وقوف بناتا ہے۔

سیاست دان عوام کی طاقت سے ہی اقتدار میں آتے ہیں، لیکن اقتدار ملنے کے بعد عوام کو سرے سے بھول ہی جاتے ہیں۔ سیاست کے نام پر ہردغا روا ہے۔ یہاں سیاست کے نام پر عوام پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو کر خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ دہشتگردی، قتل وغارت اور لوٹ مار اِن کا مقدر بن چکا ہے۔ عوام بجلی، سوئی گیس اور پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ بیروزگاری تعلیم یافتہ طبقے کو بھی چور ڈاکو بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔

نسلی، علاقائی، لسانی تعصبات نے ملک کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے، جن سے تنگ آ کر عوام پانچ سال تک برسراقتدار لوگوں کے خلاف اپنی نفرتوں کو پالتے رہتے ہیں، تاکہ آیندہ ان سے نجات حاصل کریں، مگر بدقسمتی سے پانچ سال بعد پھر وہی لوگ عوام پر مسلط ہوتے ہیں۔ کروڑوں اربوں روپے خرچ کر کے پھر وہی خانوادے، ان کے بیٹے، بیٹیاں، بھتیجیاں اورکبھی بھانجے بھانجیاں اقتدار میں ہوتے ہیں۔ جو الیکشن میں منتخب ہو کر کہتے ہیں کہ عوام ہی ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں، حالانکہ یہاں جمہوریت کا عوام سے صرف اتنا سا تعلق ہے کہ انھیں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کے ان وارثوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔

سیاست دانوں نے ہمیشہ خوشنما نعروں کی مدد سے لوگوں میں جذباتی کیفیت پیدا کرکے محض اقتدار کے کھیل کو تقویت دی ہے۔ سیاست دانوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سیاسی نعروں کو بنیاد بناکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں، لیکن ہماری سیاست میں ہمیشہ سے حکمرانوں کے سیاسی دعوؤں اور عوام کی خواہشات میں تضاد کی سیاست کا پہلو نمایاں رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے دعوؤں کے سائے تلے بے انتہا سنگین مسائل کا ایک بڑا سیاسی جن عوام پر مسلط ہے، حالانکہ سیاست دان پیسے کا جتنا بے دریغ استعمال اپنے جلسوں پرکرتے ہیں، اگر صرف اسی کو عوام پر خرچ کردیں تو اس سے عوام کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کتنے غریبوں کے چولہے جل سکتے ہیں۔ کتنے ہی طلبہ و طالبات کے تعلیمی اخراجات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کتنے ہی بے روزگاروں کے روزگار کا انتظام ہوسکتا ہے، لیکن کسی کو غریبوں کے مسائل سے کیا لینا، ان کو تو کسی طرح زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔

سیاست دان قوم کی قیادت اور نمایندگی کے اعلیٰ مقام پر سرفراز ہوتا ہے۔ عقل وشعور اور اخلاق میں بھی اس کو اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق بلند ہونا چاہیے، لیکن افسوس ہماری سیاست میں بہت سے انتہائی سطحی سوچ کے لوگ بھی شامل ہیں، جن کے اخلاق و اطوار دیکھ کر لگتا ہے کہ اخلاقیات کا ان کو ’ککھ‘ پتہ نہیں ہے۔ ہم لوگ اہل مغرب کو اخلاقی پستیوں کا طعنہ دیتے ہیں، یقیناً ان کی کم حیا تہذیب نے آدمیت کے شرف کو مدہم کیا ہے، مگر وہاں قوم کی دولت کو اپنی دولت سمجھ کر یوں بے دریغ استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی کرتا ہے تو اس کا نقد احتساب کیا جاتا ہے۔ وہاں حکمران اور عوام کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ بہت سے معاملات میں تو حکمرانوں کے لیے قوانین عوام سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔

مغرب میں منشیات کا استعمال اور بغیر نکاح کے جنسی تعلقات قائم کرنا کوئی معیوب بات نہیں، لیکن یہ ’’غیر معیوب‘‘ باتیں اگر ان کے سیاست دانوں میں پائی جائیں تو وہ نااہل ٹھہرتے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ قول تو بچپن سے پڑھتے آئے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لیکن سیاست دانوں کے بیانات اور سیاسی کارکنوں کے اخلاق دیکھ کر لگتا ہے کہ سیاست کا اخلاقیات سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ فلاسفر اس بات کی بارہا نشاندہی کرتے ہیں کہ اخلاقیات اور سیاست کے درمیان موجود ربط انتہائی پیچیدہ ہے، لیکن سیاست دان اس کی باریکی پر توجہ نہیں دیتے۔

بے اْصولی، مصلحت کوشی اور مفاد پرستی کے اِس سیاسی نظام میں ہمارے سیاستداں کب اور کس وقت اْس فرد اور جماعت کے خلاف زہر اْگلنے لگیں، جس کی مدح سرائی میں وہ کبھی رات دن ایک کر دیا کرتے تھے یا پھر اچانک کسی کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیں جن کی مخالفت میں وہ پہلے دلائل و استدلال کے انبار لگا دیا کرتے تھے۔ اپنے مفادات کی خاطر سیاست دان اپنے بیان سے کب اور کس وقت مکر جائیں، یہ بھی کچھ پتا نہیں۔ اصول، اخلاقیات، تہذیب اور جمہوری اقدار کی بات کرنے والے ہر روز اپنے عمل سے اپنے ہی کہے کو جھوٹ ثابت کرتے ہیں اور یہ سب کچھ بلا جھجک اور انتہائی ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے۔

لیڈروں سے لے کر کارکنوں تک سب روز کھلے عام اخلاقیات کو پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ قومی سطح کے لیڈر بھی بڑے بڑے جلسوں اور ٹی وی پروگرامز میں مخالف لیڈر کے خلاف انتہائی سطحی باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہی سطحی سوچ کارکنوں میں بھی منتقل ہوتی جاتی ہے۔ اب تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم کارکنوں کے ہاتھ آ گیا ہے۔جس کا جو دل چاہے مخالف جماعت کے خلاف جھوٹ سچ لکھے، شیئر کرے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

سیاست کی منڈی کا سستا ترین مال کارکن ہوتے ہیں، جو بغیر سوچے سمجھے اپنے لیڈر کی بات پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے لیڈر کا موقف کس حد تک ٹھیک ہے یا غلط۔ان کا لیڈر ملک و قوم، عوام، مذہب اور خود کارکنوں کو استعمال کر کے ان کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے، لیکن کارکن آنکھوں پر کالی پٹی باندھے ان کی ہر غلط صحیح بات کا دفاع کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔اول تو سیاست دانوں کو اپنے رویوں کو تبدیل کرنا چاہیے، لیکن اگر سیاست دان اپنے رویے نہیںبدلتے تو پاکستانی قوم کو سیاستدانوں اور اور بالادست طبقے کے جھوٹ پر مبنی نعروں اور دعووں سے خبردار رہنا ہوگا، بصورت دیگر قوم ہمیشہ ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہے گی۔

یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں

(ابن صفی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔