انگریزی شاعری میں ماہِ نومبر کا استعارہ

انوار فطرت  جمعـء 11 نومبر 2016
اپنے سابق ناکام عشق اور بڑھتی ہوئی تنہائی کے باعث اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ فوٹو: فائل

اپنے سابق ناکام عشق اور بڑھتی ہوئی تنہائی کے باعث اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ فوٹو: فائل

ہمارے ہاں اردو شاعری میں دسمبر کا مہینہ اداس رومانس کی علامت بن گیا ہے۔ بہت ہی اچھے شاعر اور افسانہ نگار عرش صدیقی مرحوم نے 1970  کی دہائی میں اپنی بیٹی کے انتقال پر ایک نوحہ ’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘ لکھی تھی، یہ نظم اردو کی کشید نظموں میں شامل ہے۔

اس نظم سے پہلے بھی دسمبر کے حوالے سے شاعری کی گئی ہوگی تاہم اس نظم کی اثرانگیزی نے بہت نظمیں کہلوائیں۔ ہمارے ہاں نومبر کو وہ مقبولیت حاصل نہیں جو انگریزی شاعری میں موجود ہے۔ ذیل میں تین نظموں کا ترجمہ، بغیر تبصرہ دیا جا رہا ہے، ان نظموں میں اداسی اور افسردگی آپ ضرور محسوس کریں گے:

ساراٹیزڈیل

سارا ٹریور ٹیزڈیل، سینٹ لوئس (میسوری) میں 8 جنوری 1884 کو پیدا ہوئی۔ بچپن ہی سے بیمار تھی۔ دس سال کی عمر میں اسکول جانے کے قابل ہوئی اور 1903 میں گریجوایٹ ہوئی۔ اس کی پہلی نظم 1907 میں Reedy Mirror میں اور پہلا مجموعہ  Sonnets to duse and other Poems  کے نام سے اسی سال شائع ہوا تاہم اس کے دوسرے مجموعے  Helon of Troy and Other Poems  کی پذیرائی انتہائی رہی۔ اس کی شاعری میں نغمگی بہت ہے۔ سارا نے  1914 میں اپنے ایک مداح ارنسٹ رفل سنگر سے شادی کی۔

1918 میں اسے اس کے مجموعے  Love  Songs  پر پلیزر پرائز پیش کیا گیا۔ اس کا شوہر اپنی کاروباری مصروفیات کے باعث اسے وقت نہیں دے پاتا تھا۔ اپنے سابق ناکام عشق اور بڑھتی ہوئی تنہائی کے باعث اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ اس کی نظم ملاحظہ ہو:

نومبر کی ایک رات

وہاں دیکھو! روشنیوں کی لکیر
سڑک کے دونوں کناروں پر نیچے ستاروں کی زنجیر،
کیوں تم یہ زنجیر لا کر مجھے نہیں دے سکتے؟
میں اسے نیکلس بناؤں
اور تم اس سے کھیل سکو
تم مجھ پر مسکرا رہے ہو
جیسے میں ایک چھوٹی سی خواب دیکھنے والی بچی ہوں
جس کی آنکھوں کے پیچھے پریاں بسیرا کرتی ہیں

اور دیکھو! سڑک پر آتے جاتے لوگ ہمیں رشک سے دیکھ رہے ہیں
ہم بادشاہ اور ملکہ ہیں،
ہماری شاہی سواری یہ موٹر بس ہے،
ہم اپنے غلاموں کو تمکنت سے دیکھ رہے ہیں
تم کیسے ساکت ہو! کیا تم مشقت کرتے رہے ہو
اور آج رات تھکے ہوئے ہو؟ کتنے طویل عرصے
کے بعد میں نے تمہیں دیکھا ہے، میرا خیال ہے تقریباً چار پورے دنوں کے بعد

میرے دل پر احمقانہ خیالات کا ہجوم ہے
اپریل کے اوائل کے پھولوں کی طرح
میں وہ تمہیں دوں گی، سب
اس سے پہلے کہ وہ مرجھا جائیں
وہ لوگ، جن سے میں ملی ہوں
کھیل جو میں نے دیکھا، معمولی، منتقل ہونے والی چیزیں،
جو بہت زیادہ پھیل جاتی ہیں یا بہت زیادہ سکڑ جاتی ہیں، سائے
جو کسی دیوار کے پہلو میں تیزی سے گزرتے ہیں،
ٹھہرتے ٹھہراتے یا شوخی کرتے۔۔اور پھر بھی سب حقیقت بن جاتے ہیں

اور یہاں میرے دل میں اپنے لیے مناسب جگہ بنا لیتے ہیں
جب تم انہیں دیکھ چکے

وہاں ایک پلازہ ہے
روشنیوں کی ایک جھیل! آج کی رات لگتا ہے
کسی طور تمام روشنیاں کھنچ کر تمہاری آنکھوں میں جمع ہو گئی ہیں
دیکھو! ہمارے نیچے وہ کھلا پارک
جس میں لا کھوں دیے روشن ہیں
ایک ماہرانہ ترتیب سے بکھرے ہوئے ستاروں کی طرح

ہم نیچے انہیں دیکھ رہے ہیں، جیسے خدا
اپنے نیچے بہتے ہوئے ستاروں کے جھرمٹ کو
بادلوں میں الجھے ہوئے دیکھتا ہے

آؤ چہل قدمی کریں
ہم پارک تک پہنچ چکے ہیں
یہ ہمارا گلستاں ہے،
یہ تاریک اور ناشگفتہ نومبر کی رات،
لیکن ہم اپنے ساتھ اپریل لائے ہیں، میں اور تم؛
ہم جہان بھر کو بہار کی پگڈنڈی پر لے چلتے ہیں

میرا خیال ہے وہ راستے، جو ہم چل کر آئے ہیں
ان پر پراسرار آگ نے ہمارے قدموں کے نشان ثبت کر د یے ہیں،
(یہ وہ) نفیس سونا (ہے)، جسے صرف پریاں دیکھ سکتی ہیں

صبح جب وہ درختوں کے کھوکھلے تنوں میں جاگے
اور اونگھتے پارک میں آئے، تو
سونے سونے رمنوں کے ساتھ چلتے دیکھا اور کہا ’’لو دیکھو!‘‘
وہ یہاں گئے، یہاں، یہاں اور یہاں! آؤ دیکھو،
یہاں ان کا بنچ ہے، میرے ہاتھ تھامو، ہم رقص کریں گے
اس کے گرد، ہوا کے چھلے میں اور بنائیں گے
اس کے گرد ایک دائرہ، جس میں سے صرف،
وہی گزر سکیں گے، جب لوٹ کر آئیں گے

جھیل کو دیکھو
اکتوبر کے اواخر کی اس رات کو،
تمہیں یاد ہے ہم سوئے راج ہنسوں کو کیسے دیکھ رہے تھے؟
میرا خیال ہے، راج ہنس ضرور عالیشان خواب دیکھتے ہوں گے
لیکن آج
جھیل میں روشنیوں کے مہین عکس پڑے ہیں
جو ہلکے ہلکے لرز رہے ہیں
میری تمنا ہے کہ میں اس ٹھنڈے تاریک پانی میں سے تازہ سونے سے بنی ایک (روشنی)
اٹھا کر تمہارے ہاتھ پررکھ دوں، اور دیکھو، دیکھو!
جھیل کے پاتال میں ایک ستارہ پڑا ہے، ایک ستارہ!
اور کتنا مدھم، موتی سے بھی زیادہ، تم اپنا
ہاتھ جھکا کر اسے میرے لیے نکال سکتے ہو؟
وہاں آج کی رات ایک  ناتواں زرد چاند تھا
میں چاہتی ہوں تم اسے پیالے کی طرح
شبنم کے قطروں جیسے ستاروں سے بھر دو،
یہ کتنا ٹھنڈا ہے، روشنیاں تک ٹھنڈی ہیں
انہوں نے اپنے گرد کہرے کی شالیں اوڑھ رکھی ہیں دیکھو!
کیا ہو؟ اگر ہوا اس قدر مدہم سفید ہو گئی
کہ ہم ان راہوں میں اپنی راہ گم کر بیٹھے
جنہیں دھند کی دیواروں نے بنا ڈالا ہے،
جو اتنا ہی سکڑتی ہے، جتنا ہم اس پر چلتے ہیں
کیسی نقرئی تھی وہ رات!
وہ پڑا ہے ہمارا وہ بنچ، جہاں ایک دن تم نے
مجھے نئی طویل نظم سنائی تھی لیکن اب کتنا بدلاؤ آ چکا ہے
عجیب بات ہے کہ کہرے کے پردے میں یہ دوست درخت اجنبی دکھائی دیتے ہیں
ہوا نہیں چل رہی اور پھر بھی دھند میں
عظیم خم چکر کھا رہے ہیں اور ہر پل تبدیل ہو رہے ہیں
تم ذرا چلو، مجھے یہاں رک کر (تمہیں) دیکھنے دو
تم بھی مجھے اجنبی اور دور دکھائی دیتے ہو
میں حیران ہوا کرتی ہوں کہ یہ پارک کیسا لگے گا
اگر ایک رات ہم اسے بالکل خالی پا سکیں۔۔۔
(جب) یہاں کمر کے گرد بازو ڈالے کوئی جوڑا نہ ہوگا
(اور) ہمارے خوابوں میں نقب لگاتی سرگوشیاں نہ ہوںگی۔
اور ایسا ہو گیا، ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے
ہم اب اس پشمینہ عالم میں اکیلے ہیں؛
ستارے تک نہیں رہے۔

ہم دو اکیلے!

رابرٹ فراسٹ

رابرٹ فراسٹ، سان فرانسسکو (کیلیفورنیا) میں 26 مارچ 1874 کو ایک صحافی ولیم پریسکوٹ فراسٹ جونیئر کے ہاں پیدا ہوا۔ رابرٹ کو شہری ہونے کے باوجود دیہی زندگی سے عشق تھا۔ اس کی پہلی نظم اس کے اسکول کے رسالے میں چھپی تھی۔ وہ صرف دو مہینے ڈرماؤتھ کالج میں پڑھا، اس کے بعد مختلف کام کرتا رہا لیکن شاعرانہ مزاج کے باعث کسی کام میں دل نہ لگا سکا۔ اس کی پہلی نظم نیو یارک انڈی پینڈنٹ کے 8 نومبر 1894 کے ایڈیشن میں شائع ہوئی جس کا اسے 15 ڈالر (آج کے مطابق 411 ڈالر) معاوضہ ملا تھا۔ 19 مارچ 1895 کو اس نے ایلی نور میریئم سے شادی کی۔

ہارورڈ یونی ورسٹی میں دو سال تعلیم حاصل کی۔ اس کے سسر نے ان کو نیو ہیمشائر میں ایک فارم خرید کر دیا، جس پر وہ نو برس تک کام کرتا رہا اور نظمیں لکھتا رہا، جنہیں بعد میں بے تحاشا پذیرائی ملی۔ فارمنگ سے بھی ایک وقت میں آ کر اس کا جی اوبھ گیا۔ اس کے بعد اس نے پنکرٹن اکیڈمی میں انگریزی پڑھانا شروع کردی۔ 1912 میں وہ بیوی کو لے کر لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں بس گیا۔ اس کا پہلا مجموعۂ کلام  “A Boy’s Will”  1913 میں چھپی۔ ایذرا پاؤنڈ نے اس کے کام کی تعریف کی تھی۔ 1914 میں اس کی کتاب North Boston  شائع ہوئی۔ 1915 میں وہ واپس امریکا چلا گیا اور پھر ایک فارم خرید لیا تاہم پڑھنے پڑھانے کا مشغلہ اپنائے رکھا۔ اسے مشی گان یونی ورسٹی میں تا حیات تقررکا پروانہ پیش کیا گیا اور اعزازی ڈگری بھی دی۔

اس کے علاوہ بھی اسے پرنسٹن، کیمرج، آکسفورڈ اور دیگر جامعات سے لگ بھگ 40 اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ رابرٹ فراسٹ کی زندگی بھی دکھوں سے معمور رہی۔ گیارہ برس کی عمر ہی میں اس کا باپ خاندان کے لیے صرف 8 ڈالر چھوڑ کر انتقال کر گیا تھا۔ اس کے 5 سال بعد اس کی والدہ بھی فوت ہو گئی۔ چھوٹی بہن پاگل تھی، اسپتال میں مر گئی۔ وہ خود بھی اور ماں بھی ڈی پریشن کے مریض تھے، بیوی بھی اسی بیماری میں مبتلا رہی۔ ان کی چھے اولادیں ہوئیں۔ ایک لڑکے کیرل نے 38 سال کی عمر میں خود کشی کر لی۔ ایک بیٹی مارجوری 27 سال کی عمر میں بچی کی پیدائش کے دوران دنیا چھوڑ گئی، بچی بھی تین دن بعد چل بسی اور 1938 میں بیوی ایلی نور بھی چھاتی کے سرطان میں کوچ کر گئی۔ اسے 1924، 1931، 1937 اور 1943 میں پلیزر پرائز پیش کیے گئے۔ 1922 میں اسے پوئیٹ لاری ایٹ آف ورمونٹ بھی منتخب کیا گیا تھا۔

میری نومبر کی مہمان

میری اداسی، جب وہ یہاں میرے ساتھ ہوتی ہے
وہ سوچتی ہے، خزاں کے ان تاریک دنوں کی بارشیں
اتنی ہی حسین لگتی ہیں جتنا کوئی بھی دن ہو سکتاہے؛
اسے پات جھڑے، مرجھائے ہوئے درخت اچھے لگتے ہیں
وہ نم آلود گھاس کی پگڈنڈی پر خرام کرتی ہے۔
اس کی سرشاری مجھے نچلا نہیں بیٹھنے دیتی
وہ بولتی چلی جاتی ہے اور میں بصد شوق سنتا ہوں:
وہ خوش ہوتی ہے کہ پرندے چلے گئے
وہ خوش ہے کہ اس کا فاختئی ملبوس
لپٹ جانے والی دھند میں نقرئی ہو گیا ہے
ویران، سنسان درخت
بے رنگ زمین، بوجھل آسمان،
وہ خوبصورتیوں کو صدق دل سے دیکھتی ہے
سمجھتی ہے کہ میں بے ذوق ہوں،
اور مجھے چھیڑتی ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے،
تب یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی
عریاں نومبر کے دنوں کی محبت
برف گرنے سے پہلے
لیکن اب یہ اسے بتانا فضول ہے
اور یہ سب (منظر) اس کی تعریف کے لیے مناسب ہیں

جیمز وٹکومب ریلی

جیمز وٹکومب ریلی 7 اکتوبر 1849 کو گرین فیلڈ (انڈیانا) میں ریوبن اینڈریو اور الیزبتھ ریلی کے ہاں پیدا ہوا۔ اس کا ڈیموکریٹ باپ ریوبن اس کی پیدائش سے ایک سال پہلے انڈیانا کے ایوانِ نمائندگان کا رکن منتخب ہوا۔ ریلی کا چچا مارٹن ریلی کبھی کبھار مقامی اخبارات کے لیے نظمیں لکھا کرتا تھا، اسی نے اس کے اندر شاعری کا ذوق ابھارا۔ ریلی ایک خاموش طبع لڑکا تھا۔ وہ چلتے ہوئے اکثر اپنی ایک آنکھ بند رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم اس نے ماں سے حاصل کی تھی، 1852 میں اسکول میں داخل کرایا گیا لیکن وہ اسکول میں دل نہ لگا پاتا تھا، اکثر پٹتا تھا۔ وہ استادوں کے بارے میں خوش گمان نہیں رہا، البتہ ایک استاد لی او ہارس کا دلدادہ تھا، جس نے شاعری میں اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

اپنے ایک مضمون میں وہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ ریاضی، جغرافیہ، سائنس میں کم زور تھا اور گرامر  بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ ایک موقع پر اس کا باپ مفلوج ہو گیا تو اسے روزگار کے لیے باہر نکلنا پڑا۔ وہ مکانوں کی رنگائی کا کام کرنے لگا۔ بائبل کے سیلزمینوں میں بھی بھرتی ہوا۔ 1871 میں وہ کچھ پس انداز کرکے ایک پینٹر کے پاس اپرنٹس کے طور پر بھرتی ہوا اور فارغ التحصیل ہو کر گرین فیلڈ میں اپنا کام کرنے لگا۔ مقامی تھیٹر پروڈکشن میں بھی کام کیا، جہاں سے کچھ اضافی یافت ہو جاتی تھی۔ آغاز میں وہ اپنے گاہکوں کے لیے تشہیری نظمیں لکھا کرتا تھا۔

باقاعدہ شاعری اس نے بعد میں شروع کی۔ وہ نظمیں لکھ کر اپنے بھائی کو بھیج دیا کرتا تھا، جو انڈیانا پولس میں مقیم تھا۔ اس کے بھائی نے اس کا ایجنٹ بن کر انڈیا پولس مرر نامی اخبار کو اس کی نظمیں مفت میں دینا شروع کیں۔ اس کی پہلی نظم 30 مارچ 1872 کو شائع ہوئی، جو اس نے فرضی نام جے وٹ کے نام سے لکھی تھی۔ اس میں اخبار میں اس کی بیس نظمیں چھپیں، ان میں سے ایک صفحۂ اول پر بھی چھپی تھی۔ اس نے ایک دوا ساز کمپنی میں بھی کام کیا۔

اس کمپنی کے شوز میں وہ ’’پینٹر پوئٹ‘‘ کا کردار ادا کیا کرتا اور تشہیری نظمیں لکھا کرتا۔ اس معاملے میں وہ نوسربازی بھی کر لیا کرتا تھا مثلاً، ایک بار اس نے ایک ٹانک بیچنے کے لیے کہانی گھڑی کہ وہ اس مقوی دوا کے استعمال سے پہلے اندھا تھا۔ اس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی بھی کھولی۔ یہ کمپنی کامیاب رہی لیکن ریلی شاعر کا شاعر ہی رہا۔ وہ کچھ عرصے کے بعد ساؤتھ بِنڈ چلا گیا اور وہاں سٹاک فورڈ اینڈ بلونی میں اشعار اور سائن بورڈ بنانے لگ گیا لیکن شراب کی لت پڑنے کی وجہ سے جلد ہی کام یہ چھوڑنا پڑا۔

1874 میں اس نے گرین لینڈ واپس آ کر کل وقتی لکھاری کے طور پر کام شروع کر دیا۔ مختلف واقعات اور اسکینڈلز سے گزرتے ہوئے 1895 میں وہ خاصا خوش حال ہو گیا اور ہزار ڈالر ہفتہ کمانے لگ گیا جو اس زمانے میں ایک بہت بڑی آمدنی تھی۔ اسی زمانے میں اس نے خود کو ’’قومی شاعر‘‘ منوایا، ’’دی پوئٹ لاری ایٹ آف امریکا‘‘ اور ’’دی پیپلز پوئٹ لاری ایٹ‘‘ کا درجہ بھی پایا۔ اسے ایک محب وطن شاعر قرار دیا جاتا ہے۔

سال کی سرمستی

جب آسمان گہری نیلی روشنی سے دمکتے ہیں
ان بادلوں میں سے، جو کھیتوں اور شہروں سے تیزی سے گزرتے ہیں،
پتے دائیں بائیں رقص کرتے ہیں،
اور باغ کے سیب لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں؛
جب اسکول کی شیریں لڑکیاں گلیوں، سڑکوں میں،
ہوا کے آگے جھک جاتی ہیں، اور اپنے دلِ شاد کو
محسوس کرتی، سنتی ہیں، اپنے عشاق کی دھڑکن کی طرح…
یوں سال کی سرمستی حکمرانی کرتی ہے۔
ہو۔۔۔ہے۔۔۔ ہوپ ہُرّے

گو سرما کے بادل بُنے جا رہے ہیں،
یاد کرو نومبر کا ایک دن،
جو مئی کے نرم ترین دن سے، اس کی تمام تر شگفتگی کے باوجود زیادہ خوش کن ہے،

جب پرندے بکھری بکھری اڑانیں بھرتے ہیں
بلندی پر اور سرمئی دھند میں گم،
اورصابر لڑکے گھروں کی طرف اکیلے دوڑتے ہیں
سونے اور گہرے یاقوتی آسمانوں کے نیچے؛
جب دھندلکا پڑتا ہے اور بازگشت آواز دیتی ہے
آسیب زدہ ماحول کے پار سے۔۔۔
یوں سال کی سرمستی حکمرانی کرتی ہے۔

ہو۔۔۔ ہے۔۔۔ ہوپ ہُرّے
گو سرما کے بادل بُنے جا رہے ہیں،
یاد کرو نومبر کا ایک دن،
جو مئی کے گرم ترین دن سے اس کی تمام تر شگفتگی کے باوجود زیادہ خوش کن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔