ایک اہم ادبی کتاب

مقتدا منصور  جمعرات 26 جولائی 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت میرے سامنے معروف ادیبہ پروفیسر رئیس فاطمہ کی نئی کتاب ارتکاز رکھی ہوئی ہے جو انھوں نے انتہائی خلوص اور محبت سے مجھے بھجوائی ہے۔ جب یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئی تو یہ سوچ کر کہ اس کا اطمینان سے مطالعہ کروں گا سرسری طور پر فہرست مضامین پر نظر ڈالنے لگا لیکن موضوعات کے تنوع اور مضامین میں پروئے گئے علم و آگہی کے موتیوں نے موقع ہی نہیں دیا کہ کتاب کو کچھ دیر کے لیے بھی رکھ دیا جائے یوں یہ کتاب دن دو بجے شروع کی اور رات کے کھانے تک ایک ہی نشست میں مکمل ہو گئی لیکن اس کے بعض مضامین اس قدر دلچسپ ہیں کہ انھیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین اور شخصیت نگاری کو خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں خود مصنفہ پر مختلف اہل قلم کی آراء کو شامل کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کے ابتدائی تین مضامین یعنی پریم دیونی میرا بائی، کلامِ غالب اور تلمیحات، کہاوتیں، محاورے اور تلمیحات خالص ادبی تحقیقی مضامین ہیں جو خاصی محنت سے لکھے گئے ہیں۔ حسرت کی غزل، فیض کا ادبی شعور، اردو فکشن میں نسائی تصور اور مولوی صاحب سے ایک مکالمہ تنقیدی مضامین ہیں جبکہ شعلہ جوالہ رشید جہاں، ایک عہد کا خاتمہ، ہجرت پر مامور تھے ہم، جناب عالی، مشفق خواجہ ایک ہمہ جہت شخصیت، شعلہ مستعجل حسن ظہیر اور اے حمید ایک منفرد افسانہ نگار شخصیت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ان میں سے بعض مضامین شخصیت نگاری کے ساتھ ادبی تنقید کا بھی حصہ ہیں، جیسے اے حمید ایک منفرد افسانہ نگار وغیرہ۔

اس کتاب کا پہلا مضمون پریم دیوانی میرا بائی ایک ادبی تحقیقی مضمون ہے۔ اس مضمون میں سولہویں صدی کی عظیم بھگتی شاعرہ میرا بائی کی شخصیت اور ان کی شاعری کا انتہائی خوبصورت انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ میرا بائی کے فن اور شخصیت پر مختلف اہل قلم نے خیال آرائی کی ہے۔ کچھ نے انھیں دیومالائی کردار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو کچھ نے اس کی شاعرانہ حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ لیکن رئیس فاطمہ نے ہندی اور اردو ادب کے عمیق مطالعے کے بعد میرا بائی پر جو تحقیقی مضمون رقم کیا ہے وہ اس لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے کہ انھوں نے میرابائی کی شخصیت اور اس کی شاعری کا عالمانہ انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہندی ادب سے انتخاب کو شجر ممنوع قرار دے کر ان گنت علمی اور ادبی شہ پاروں تک قاری کی رسائی کو مسدود کر دیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان بھگت کبیر اور میرابائی جیسے سچے، کھرے اور صوفیانہ تنوع رکھنے والے شاعروں کا کلام تو دور کی بات ان کے نام تک سے واقف نہیں ہے۔ انھوں نے اس مضمون کا آغاز فلمی گانوں کے مکھڑوں سے شروع کرکے نوجوان قاری کے لیے اس مضمون کو سمجھنے میں سہولت پیدا کر دی کیونکہ یہ وہ گیت ہیں جو آج تک زبان زدِعام ہیں۔ اس مضمون میں میرابائی کی شخصیت، اس کے کلام کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس دور کے سماجی حالات کو پیش کرکے اسے مزید وقیع بنا دیا ہے۔

کلام غالب میں تلمیحات اور کہاوتیں، محاورے اور تلمیحات کے عنوان سے لکھے گئے دو مضامین نثرنگاری میں گراں قدر تحقیقی اضافہ ہیں۔ متذکرہ بالا مضمون میں انھوں نے کہاوتوں، محاوروں اور تلمیحات کا فرق ایک لائق معلم کی طرح سمجھایا ہے جبکہ کلام غالب میں تلمیحات خالصتاً ایک تحقیقی مضمون ہے جس میں غالب کے ان اشعار کا انتخاب پیش کیا گیا ہے جن میں تلمیحات استعمال ہوئی ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مضمون کو کہاوتوں، محاروں اور تلمیحات کے بعد آنا چاہیے تھا تاکہ قاری ان تینوں کے فرق سے آشنا ہونے کے بعد جب غالب کے کلام میں تلمیحات کے استعمال کے بارے میں معلومات حاصل کرتا تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا۔ بہرحال یہ ان کی اپنی ترتیب ہے جو انھوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی دی ہو گی۔

حسرت کی غزل اور دیار شوق میں ماتم بپا ہے مرگ حسرتِ کا‘ دو اور فکرانگیز مضامین ہیں۔ جن میں پہلا مضمون خالصتاً حسرت کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ ہے جبکہ دوسرے مضمون کا مرکزی خیال گو کہ حسرت کی برسی پر ذرایع ابلاغ کی بے حسی ہے مگر اس میں بھی انھوں نے حسرت کی شخصیت اور ان کی سیاسی اور ادبی حیثیت پر تحقیقی مقالہ تحریر کر دیا ہے۔ اس مضمون میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں ’’حسرت کی رنگارنگ اور متنوع شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے کالم میں ممکن نہیں۔ وہ ایک ہشت پہلو شخصیت تھے اور ہر پہلو مکمل اور تابناک۔ وہ بیک وقت شاعر، صحافی، مستند ایڈیٹر، سیاست دان اور مدبر تھے اور انسانی حقوق کے محافظ بھی لیکن زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ انھیں فراموش کر دیا گیا کیونکہ وہ نہ صنعتکار تھے، نہ سرمایہ دار‘ انھوں نے تو اپنی جوانی جیل کی نذر کر دی۔ حسرت موہانی جو مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے، انھیں خود مسلم لیگ نے فراموش کر دیا۔ پتا نہیں کتنی مسلم لیگیں ہیں مگر کسی کو حسرت موہانی یاد نہیں۔‘‘

ان کے مضامین شعلہ جوالہ: ڈاکٹر رشید جہاں، شعلہ مستعجل: حسن ظہیر، ہجرت پر مامور تھے ہم اور جناب عالی، شخصیت نگاری کا منفرد نمونہ ہیں۔ ان چاروں مضامین میں انھوں نے زیر مطالعہ شخصیات کی ادبی، سماجی اور ثقافتی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انھیں انتہائی خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رشید جہاں کے بارے میں مضمون صرف ان کی شخصیت اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں ہی کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ ان کی ادبی خدمات کا بھی ناقدانہ جائزہ پیش کرتا ہے۔ اس مضمون کے اختتامی پیراگراف میں لکھتی ہیں ’’ڈاکٹر رشید جہاں جیسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔

انھوں نے عورتوں کے حوالے سے اپنی تحریروں کے ذریعے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ہم نے انھیں جلد بُھلا دیا۔ فیض میلے میں بھی ان کا کوئی ذکر کسی نے نہیں کیا جبکہ فیض صاحب کی زندگی میں ڈاکٹر رشید جہاں ایک اتالیق کا درجہ رکھتی تھیں۔ کم از کم اکادمی ادبیات پاکستان، مقتدرہ قومی زبان، آرٹس کونسل، کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ اپنے اداروں میں کم از کم ایک ہال ان کے نام سے منسوب کر دیں۔‘‘ غرض اس کتا ب میں ہر مضمون انگوٹھی میں نگینے کی طرح ہے جو طالبانِ علم و ادب کی پیاس بجھانے اور ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کا سبب ہے۔

رئیس فاطمہ ہماری ساتھی کالم نگار ہیں، جن کے مختلف موضوعات پر ہر ہفتے دو کالم نظر سے گزرتے ہیں۔ اردو ادب کی استاد ہونے کے ناتے ان کی ادب اور ادبی موضوعات پر تو گہری نظر ہے ہی سماجی موضوعات پر بھی خاصی مہارت سے کالم نویسی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی رسائل میں شایع ہونے والے ان کے مضامین پڑھنے کا بھی اکثر و بیشتر موقع ملا ہے جو بلاشبہ ان کے گہرے مطالعہ اور علمیت کے عکاس ہیں لیکن ان کے منتخب مضامین کا مجموعہ جو ارتکاز کے نام سے ہمارے سامنے رکھا ہے ان کے علم کی وسعت اور ادب پر ان کی گہری نظر کا مظہر ہے۔ زیر نظر کتاب میں متنوع مضامین کو انتہائی چابکدستی کے ساتھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ قاری کا تسلسل ٹوٹنے نہیں پاتا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ رئیس فاطمہ اسی طرح ادبی و سماجی مسائل پر کالم اور مضامین لکھتے ہوئے اس ملک میں بڑھتی ہوئی جہل آمادگی کا راستہ روکنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالتی رہیں گی۔ آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ خرد دشمنی ہے، جس نے جنونیت کی حد تک بڑھی ہوئی جذباتیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اگر اس ملک کے دانشور، قلمکار اور کالم نگار اپنی توانائیاں فروغ علم پر مرکوز کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس معاشرے سے علم دشمن ماحول کے خاتمے کا امکان پیدا ہو جائے۔ لیکن ساتھ ہی قارئین کو بھی قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی جو ان کی تحاریر اور تحقیقات کے مطالعے سے ممکن ہے۔ اس لیے ہماری ان تمام پاکستانیوں کو مشورہ ہے کہ کتب بینی کے لیے اپنی مصروف زندگی سے تھوڑا بہت وقت ضرور نکالیں۔ مطالعہ ہی انسان کے ذہن پر لگے جالے صاف کرتا ہے اور فکری وسعت عطا کرتا ہے۔ زیر تذکرہ کتاب میں سوچنے سمجھنے اور جاننے کا بہت مواد موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔