من پسند افسروں پر مشتمل متنازعہ نیوز لیک کمیشن پر کون اعتبار کریگا؟

رحمت علی رازی  اتوار 13 نومبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

رواں سال ستمبر کے اولین ہفتے لائن آف کنٹرول اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سول اور ملٹری قیادت کے دو اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے جن کے بارے میں ایک مؤقر انگریزی اخبار نے 6 ستمبر کو ایک خبر نما رپورٹ شایع کی۔

وزیراعظم ہاؤس، سیکریٹری خارجہ اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تواس خبر کی تردید کی مگر ان تردیدوں کے باوجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ایک اہم اجلاس کیا جس میں خاص طور پر شہباز شریف کو مدعو کیا گیا تھا‘ اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا انگریزی اخبار کی خبر تھا‘ اجلاس کے بعد سول اور ملٹری قیادت کی جانب سے ایک بار پھر اس خبر کی تردید کی گئی‘ اس طرح یہ اعلامیہ ہر لحاظ سے غیرمعمولی تھا جس میں سارا الزام اخبار پر لگایا گیا تاہم تردید کے باوجود اخبار مُصر رہا کہ یہ خبر من گھڑت نہیں ہے۔

رپورٹر سرل المیڈا نے ایک نیوز اسٹوری چھاپی تھی جسکے مطابق ایک اعلیٰ سطح  کے  اجلاس میں سول و فوجی قیادت کے درمیان دہشتگرد تنظیموں سے نمٹنے کے معاملہ پر اختلافات سامنے آئے تھے۔

اخبار نے تردید کے ردِعمل میں لکھا کہ ان کی خبر (جسے ایوانِ وزیرِاعظم نے من گھڑت قرار دیا) کی متعد دبار تصدیق کی گئی تھی اور اس کے حقائق ہر طرح سے پرکھے گئے تھے، اور یہ کہ ایک سے زیادہ ذرایع نے اس خبر کی تصدیق کی تھی‘ یہ خبر اس لحاظ سے بیحد حساس تھی کہ اس سے کچھ ہی عرصہ قبل انڈیا نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں قائم شدت پسند تنظیموں کے اراکین نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی کیمپ پر حملہ کر کے 18 فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ پاکستان نے اس واقعہ کی تردید کی تھی‘ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات ازحد کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔

سول اور فوجی قیادت کے درمیان ہونیوالے تندوتیز مکالمے کے خبر کی شکل میں لیک ہونے پر مقتدرہ کی جانب سے حکومت کے ساتھ شکوہ کیا گیا تو حکومت نے اخبار کے رپورٹر کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیدیا‘ صحافی نے اپنی خبر میں لکھا کہ سب نے اس خبر کی تردید کی‘ اگر سب نے خبر کی تردید کی تو وہ جھوٹی خبر تھی‘ جھوٹی تھی تو شایع ہی کیوں ہوئی؟ اور اگر صحافی نے دھڑلے کے ساتھ اسے فرنٹ پیج اسٹوری بنایا تو ضرور اسے یہ اسٹوری کسی نے فیڈ کروائی ہو گی‘ ذریعہ ظاہر کر دیا جاتا تو یہ معاملہ وہیں ختم ہو جاتا لیکن المیڈا نے کہا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہے اور ذریعہ ظاہر نہیں کریگا جسکے بعد معاملے کی تحقیقات ضروری تھی کیونکہ اس خبر کی وجہ سے پوری دُنیا کو پاکستان کو چارج شیٹ کرنے کا موقع ملا۔

بھارتی اخبارات اور چینلز نے اس معاملے کو خوب اچھالا اور کہا کہ بھارت جو کہتا تھا وہ صحیح ثابت ہو گیا۔ اس سیکیورٹی بریچ سے غیرریاستی اداکاروں کے بارے میں دشمنوں کے مؤقف کی ہماری ہی طرف سے تشہیر ہوئی‘ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ کے بعد سول اور فوجی قیادت کے تعلقات کو انتہائی کشیدہ کون کرا رہا تھا؟

اہم ترین حکومتی منصب سے جس زبان و اندازمیں فوج پر حملہ کیا گیا اور جس طرح فیصل آباد سے نوازلیگ نے ایک ایسے رکن اسمبلی رانا افضل کو آگے کیا گیا جس نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ایک دو بار نہیں بلکہ اینکر کے بار بار دریافت کرنے پر تین چار دفعہ دہرایا کہ اگرنوازشریف کو ڈی ریل کیا گیا تو امریکا پاکستان کو تورا بورا بنا کر رکھ دیگا، اس سے قومی سلامتی سے متعلق بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔

رانا افضل نے 6 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اجلاس میں اسی تلخ کلامی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھاکہ دُنیا بھر کے تھنک ٹینک ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے حافظ سعید کو کھلا کیوں چھوڑا ہوا ہے‘ یہ دونوں اتفاقات امریکا، بھارت اور مغرب کو دکھانے کے لیے کیے گئے تا کہ دُنیا بھر کو باور کرایا جائے کہ سول حکمران تو حافظ سعید سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن فوج رکاوٹ بنتی ہے اور جب بھی نواز حکومت مسعود اظہر اور حافظ سعید کو ان کے ساتھیوں سمیت پکڑنے لگتی ہے تو یہ طاقتور لوگ ان کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں۔

پرویز رشید کی للکار اور رانا افضل کا خارجہ کمیٹی میں کیا گیا سوال سرل المیڈا کو بھیجی جانیوالی اس بریفنگ نیوزکی کڑیاں ہی تو تھیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور رانا افضل اس بات سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں کہ چند ماہ پیشتر کورکمانڈروں کے ایک اجلاس میں ملک بھرسے دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے لیے کومبنگ آپریشن کی منظوری دی گئی تھی۔

اس سلسلے میں کومبنگ آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے فیصل آباد پولیس نے مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے تین یونین کونسل چیئرمینوں کے گھروں اور فیکٹریوں میں چھاپے مار کر ناجائز اور خطرناک اسلحہ برآمد کیا تھا جسے ملک بھر کے میڈیا پر بھی سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن بعد میں نہ جانے کیا ہوا کہ فیصل آباد پولیس دہشتگرد تو دُور کی بات، طاقتور وزراء کے معاونین اور دست ہائے راست کے ڈیروں پر مشکوک حرکات کی اطلاعات کے باوجود ان کے گھروں کے باہر کھڑے ہونے سے بھی گھبرانے لگی بلکہ وہ پولیس افسران جنھوں نے یہ ناجائز اسلحہ برآمد کیا۔

نوازلیگ کے ان یونین کونسل چیئرمینوں سے ایک ایک کر کے معافیاں مانگتے دیکھے جاتے رہے مگر ان فرض شناس پولیس افسران کو تاہنوز معافی نہیں مل رہی بلکہ فیصل آباد میں پولیس کا کومبنگ آپریشن بھی تاحکمِ ثانی روکدیا گیا ہے۔ المیڈا خبر کی وجہ سے جو بدمزگی اور شکایت پیدا ہوئی‘ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا‘ چنانچہ اس کے محرکات ڈھونڈنا اور بھی ضروری ہو گیا تھا تا کہ سراغ لگایا جائے کہ کہیں موجودہ ماحول میں اداروں کے متعلق بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش تو نہیں کی گئی جس کے لیے سازشی عناصر نے صحافی کو استعمال کیا ہو‘ یہ پھاہی حکمرانوں کے ہی گلے پڑتی دکھائی دی۔

یہی وجہ ہے کہ مقتدرہ کے دباؤ کے باوجود حکومت نیوز گیٹ تحقیقاتی کمیشن بنانے میں ڈنگ ٹپاتی رہی اور جب آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں 20 دن رہ گئے تو اب قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا کی سربراہی میں اپاہج قسم کا کمیشن تشکیل دیدیا گیا ہے جس نے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 30 دن کا ٹائم فریم دیا ہے‘ یہ7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی صرف وقت حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی جو ایک ماہ کی ٹال مٹول کے بعد معروض ہو سکی‘ اس میں 5 ارکان سول جب کہ مسلح افواج کی نمائندگی آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ کر رہا ہے۔

کمیٹی کے دیگر ارکان میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، صوبائی محتسب پنجاب نجم سعید اور ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر عثمان انور شامل ہیں‘ جسٹس (ر) عامر رضا خان شریف فیملی کے پرانے نیازمند ہیں‘ وہ 1979ء سے 1991ء تک لاہور ہائیکورٹ کے جج رہے‘ 1979ء میں ان کے پاس ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا عہدہ بھی رہا‘ وہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر آف لاء اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بھی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے بھی جسٹس (ر) عامر رضا کا نام تجویز کیا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق نہ ہونے کے باعث انکو نگران وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بنایا گیا تھا‘ موصوف کی صاحبزادی جاتی امراء میں شریف اسکول کی وائس پرنسپل ہیں‘ اس طرح اس ناز ک کام کی ابتدا ہی ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے سے ہوئی ہے‘ سب سے حیران کن تعیناتی پنجاب کے صوبائی محتسب کی ہے‘ ویسے اگر اس مجوزہ کمیشن کی ہیئت ترکیبی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو سول حکام میں کوئی ایک بھی اس طرح کے نازک معاملات کی تحقیقات کا تجربہ نہیں رکھتا۔

عام فہم حقیقت تو یہ ہے کہ ایک غیرحاضر اخبارنویس سے پوچھ گچھ کے معاملے میں سب سے پہلے وزارتِ اطلاعات کے نرم و گرم چشیدہ افسران کو شامل کیا جانا چاہیے تھا جن کو اس نازک کام کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ ڈان لیکس کی تحقیقات میں وزارتِ اطلاعات کے بعد سب سے اہم کردار آئی ٹی ماہرین کا ہو سکتا تھا انھیں بھی کمیٹی سے باہر رکھا گیا ہے‘ اس دور جدید میں خفیہ سراغ رسانی کا سب سے بڑا ذریعہ مواصلاتی جاسوسی ہے جس میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ معلومات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔

کیا 6 اکتوبر سے 6 نومبر تک پاکستان کے تمام متعلقہ ادارے جنھیں قوم کے کان اور آنکھیں سمجھا جاتا ہے اندھے، گونگے اور بہرے بنے اس دلچسپ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا انتظار کرتے رہے؟ اب اس قابلِ اعتراض کمیشن نے کام شروع کر دیا ہے‘ تحقیقاتی ٹیم 15 دسمبر تک فائنڈنگ حکومت کو پیش کریگی۔

کمیٹی کے پہلے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ محولہ خبر لیک نہیں پلانٹ کی گئی تھی۔ 6 اکتوبر کی جس خبر نے قومی منظرنامے پر کچھ سوالات کھڑے کیے اس میں کئی حکومتی عہدیداروں کے نام لیے جاتے رہے ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے ان دونوں اجلاسوں یا کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی تھی، البتہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بادی النظر میں ذمے دار قرار دیا جنھیں وزیراعظم نے اپنی ناموس بچانے کے لیے مستعفی کروا دیا۔

متنازع خبر کا مقصد جان بوجھ کر سول ملٹری تعلقات میں عین اس وقت رخنہ اندازی تھا جب بھارتی اشتعال انگیزی نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بلکہ لائن آف کنٹرول پر بڑھ رہی تھی‘ شریفوں کی ذاتی ملازمت پر مامور کمیشن کے منتخب سربراہ کی طرف سے ایک آزاد اور موثر انکوائری ہونا ایک غور طلب اَمر ہے‘ یہ ایک تاریخ ہے کہ ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں بننے والے کمیشنوںکی رپورٹیں ہمیشہ سرد خانوں کی نذر ہوئی ہیں‘ مجرم کو بروقت کٹہرے میں لانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں انکوائری ہونی چاہیے۔

وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جانتے ہیں اس کے پیچھے کون ہے اور کس نے یہ کروایا ہے تو پھر کمیشن کی ضرورت باقی نہیں رہتی‘ وہ متعلقہ قانون کے تحت ان کی نشاندہی کر کے معاملے کو انجام تک پہنچا سکتے ہیں‘ حکومت کی پہلی ترجیح 29 نومبر تک بحفاظت پہنچنا ہے کیونکہ 20 نومبر کے بعد نئے فوجی سربراہ کے تقرر کا اعلان ناگزیر ہو جائے گا اس لیے جاری کھیل تماشے کا ممکنہ انجام اگلے دو ہفتوں میںسامنے آ جائے گا۔

معلوم ہوا ہے کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے اس کمیشن پر مقتدر حلقوں اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ اس حوالے سے اعلیٰ حکومتی شخصیت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس قومی سلامتی کے مسئلے پر ایسا سخت ایکشن لے گی جس سے یہ ظاہر ہو گا کہ حکومت اپنے قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے مگر اب یہ پیغام دیا گیا کہ اس کمیشن کے سربراہ کے اعلیٰ حکومتی شخصیات سے تعلقات ہیں اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ بھی ان کی خدمات ہیں‘ ان حالات میں ان سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

قومی سلامتی کے اداروں نے پہلے ہی تحقیقات مکمل کر رکھی ہیں اور اہم ترین ثبوت بھی اکٹھے کر لیے ہیں اور اس پر کسی بھی وقت سخت ردِعمل آ سکتا ہے‘ بہ ایں ہمہ ساری تفتیش بھی منظر عام پر آنے کے امکانات ہیں‘ وزیرداخلہ جو اس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے وہ بھی کمیشن کے سربراہ کی نامزدگی سے خوش نہیں اور انھوں نے نجی محفل میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔

تحریک ِ انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی تحریک اور ق لیگ نے بھی متنازعہ خبر کی تحقیقات ایک ریٹائرڈ جج سے کروانے کے حکومتی فیصلے پر شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے‘ بلاشبہ انکوائری وزیراعظم کے اسٹاف کے خلاف ہے تو یہ وزیراعظم کے خلاف ہی ہے لہٰذا وزیراعظم کو انکوائری کمیٹی بنانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے تھا‘ کمیٹی کا سربراہ تو چیف جسٹس کو ہونا چاہیے اور رپورٹ بھی ان کے پاس جانی چاہیے‘ ماڈل ٹاؤن واقعہ کی انکوائری ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ہوئی تھی جس کی رپورٹ حکومت نے دَبا لی‘ متنازعہ خبر پر حکومت نے انکوائری کمیٹی نہیں رفع دفع کمیٹی بنا ئی ہے‘ یہ بہت بڑا مذاق ہے۔

وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس کی سیکیورٹی بریچ پر ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی آزادانہ انکوائری کس طرح کریگی؟ قوم پہلے ہی ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل مشکوک کمیشنوں کی انکوائری رپورٹوں کا حشر دیکھ چکی ہے‘ لیک گیٹ تفتیشی کمیٹی اس انتہائی اہم اور حساس ایشو کو دفن کرنے کی کوشش ہے اور اس کے ایک انتہائی اہم کردار اور گواہ کو حکومت پہلے ہی بیرون ملک روانہ کر چکی ہے‘ اب وزیر داخلہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ نیوز لیک کے اس اہم کردار (رپورٹر) کو واپس بلانے کے لیے متعلقہ ایڈیٹر کو کہہ دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کو اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں‘ اگر پرویز رشید بے قصور ہیں توانہیں ہٹایا کیوں گیا؟ ملوث لوگوں کو بے نقاب کر کے سزا کیوں نہیں دی گئی؟ خبر لیکس کی انکوائری ریٹائرڈ جج سے کروانا قومی سلامتی کے ساتھ سنگین مذاق ہے‘ اس واردات میں وزیراعظم براہ ِراست ملوث ہیں اور اسے سرد خانے میں ڈالنے کے لیے گھر کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن بنا دیا گیا‘ اس مسئلہ پر حکومت کا کسی بڑے عہدیدار کے خلاف کارروائی کرنا تو دُور کی بات وہ اپنے کسی کلرک کو بھی شاملِ تفتیش نہیں ہونے دیگی‘ سب جانتے ہیں پلانٹڈ اسٹوری وزیراعظم ہاؤس کے اندر تیار ہوئی اور وہیں سے وائرل کی گئی۔

خبر کو خاص و عام تک پہنچانے کے لیے سرل المیڈا کو ای سی ایل پر ڈالا گیا تا کہ شور مچے اور سلامتی کے ادارے بدنام ہوں‘ یہ سب وزیراعظم کی مرضی اور حکم کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ کمیٹی کی سربراہی آئی ایس آئی کے پاس ہوتی تو دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔

طاہرالقادری نے تو ریٹائرڈ جسٹس عامر رضا کو ’’سرل لیکس کمیشن‘‘ کا سربراہ مقرر کیے جانے پر ایک بار پھر، ’’انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ سرل المیڈا کے بجائے میٹنگ میں شامل حکومتی ارکان بشمول وزیراعظم کا نام ای سی ایل میں ڈال کر ان سب سے تحقیقات کی جاتی تو خبر لیک کرنے کے ذمے دار کا تعین خودبخود ہو جاتا‘ حقیقت یہ ہے کہ صحافی روزانہ80 فیصد باتیں ہضم کر کے صرف 20 فیصد پر بات کر رہے ہوتے ہیں‘ اگر کسی دن ہم سے کوئی بے احتیاطی ہو جاتی ہے تو اس سے درگزر کرنا چاہیے مگر یہ واضح ہو چکا ہے کہ سرل المیڈا کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور جب وہ بکرا بھاگ گیا تو پرویز رشید کو قربانی گھاٹ بھیج دیا گیا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ صحافی مقدس گائے کا درجہ رکھتے ہیں اور وہ غیر صحافتی رویہ اپنانے کے باوجود قانون سے بالاتر ہیں‘ اگر کوئی صحافی اپنے پیشے کو داغدار کرتا ہے یا ملکی سلامتی کو داؤ پر لگاتا ہے یا حساس اداروں کے معاملات کو افشاء کرتا ہے تو یقینا اسے بھی عام مجرم کی طرح قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن سرل المیڈا تو اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور شاید اب بھی اس کا سٹانس وہی رہیگا‘ اگر اسے حکومت نے روپوش کروایا ہے تو وہ کبھی کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہو گا‘ وہ فقط ویڈیو بیان ریکارڈ کروائے گا جس میں وہ پہلے والا موقف ہی دہرائے گا۔

گزشتہ دنوں معروف اینکر سمیع ابراہیم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ متنازعہ صحافی اس خبر کا سورس فوج کو بنائیگا اور سیاسی پناہ لے کر وہاں بھی حکمرانوں کے ہاتھ میں کھیلے گا۔ وطنِ عزیز پے در پے مسائل اور بحرانوں کا شکار ہے اور پاکستان مخالف قوتیں ملک کے اندر اور باہر سرگرمِ عمل ہیں‘ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا قومی سلامتی کے دیگر اُمور، ان پر کسی سرکاری و غیرسرکاری ادارے کو بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، چنانچہ ایسے وقت میں کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اُٹھانا چاہیے جس سے دُنیا میں پاکستان کا منفی تشخص اُجاگر ہو یا عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کے ریاستی اداروں کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تاہم نیشنل سیکیورٹی اور آزادیٔ صحافت کے مابین ریڈلائن بھی واضح ہونی چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی صحافی برادری (بالخصوص پرنٹ میڈیا) ریاستی پالیسیوں کی مکمل پاسداری کی ضامن ہے‘ اس پر بھی قانون کا مکمل اطلاق ضروری ہے‘ ضرورت پڑنے پر ذرائع کے انکشاف کی روایت امریکا میں بھی موجود ہے جسکا حوالہ چوہدری نثار نے بھی دیا تھا، امریکی خاتون رپورٹر جو ڈٹھ ملر کو عدالت میں اپنا ذریعہ ظاہر کرنے سے انکار پر قید کی سزا ہوئی‘ عدالت ایک سی آئی اے افسر کی شناخت ظاہر ہو جانے کی تحقیقات کر رہی تھی‘ جوڈتھ ملر نے اس کے بارے میں کبھی نہیں لکھا تھا لیکن عدالت سمجھتی تھی کہ تحقیقات کے افشاء ہو جانے سے متعلق ثبوت مذکورہ رپورٹر کے پاس ہیں لہٰذا وہ عدالت میں گواہی دے اور اپنے ذریعہ سے آگاہ کرے مگر جوڈتھ ملر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

حالات کچھ بھی ہوں، میڈیا کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ایسا غلط اور گمراہ کن مواد جسکا قومی سلامتی و ملکی مفاد سے تعلق ہو اور جو محض قیاس آرائیوں و مفروضوں پر مبنی ہو، اسے خبر بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے‘ بلاتحقیق خبر افواہ بھی ہوتی ہے، الزام اور تہمت بھی اس سے صحافی اور صحافتی اداروں کا وقار متاثر ہوتا ہے‘ آج کئی صحافی حق سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اپنے مفادات اور اَنا کے لیے حق کو باطل اور باطل کو حق کا رنگ چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، نتیجہ ہمارے سامنے ہے‘ ہمارے بیشتر صحافتی ادارے اور صحافی حضرات عوامی اعتماد سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

بدقسمتی سے کچھ صحافیوں نے پاکستان میں پریس کی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے ملک کے بنیادی مفاد، اخلاقِ عامہ اور نظریے کے خلاف استعمال کیا‘ آج خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا آزادی کی آڑمیں اخلاقِ عامہ کی حدوں سے گزر چکا ہے‘ آزادیٔ صحافت کی آڑ میں بہت سے صحافی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے عام قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے صحافی ہیں یا کہیں اور کے۔ الیکٹرانک میڈیا ایک ایسی فضا قائم کر رہا ہے جس سے لوگوں میں محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے‘ اس کے نتیجے میں معاشرے میں مسائل کا ایک طوفان پیدا ہو رہا ہے۔

صحافت میں ایسے لوگ بھی دَر آئے ہیں جنہیں صحافت کی صحیح تربیت حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا‘ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے صحافت بدنام ہو رہی ہے جنکے مقاصد غیرصحافیانہ ہیں‘ میڈیا کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ہاؤس میں بھی سخت ضوابط لاگوکرے جہاں سے مفروضوں پر مبنی خبریں لیک ہوتی ہیں ورنہ تو یہ تصور کرنا پڑیگا کہ سرل المیڈا نے جو کچھ لکھا ہے، وہ اسے ملک کے اندر سے لکھوایاگیا یا سرحد پار سے، کیونکہ جب کشمیر کی آزادی کی جنگ ایک فیصلہ کن موڑ کی جانب بڑھ چکی تھی، ایسے میں وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالی افواجِ پاکستان کی کردارکشی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس کا مقصد کشمیریوں کو بددل کرنے کے لیے پیغام دینا تھا؟

پاک فوج کے امیج کو اقوامِ عالم کی نظروں میں یوں خود ساختہ طور پر داغدار کیا جائے گا تو قوم تو یہی سمجھے گی کہ جہاں ہمارا میڈیا ریاستی اداروں کی ناموس پر کیچڑ اچھال رہا ہے وہیں نواز حکومت اپنے ملک میں بیٹھ کر مودی سرکار کی جنگ لڑ رہی ہے۔

اس وقت نوازشریف کو اپنی طویل سیاسی زندگی کا سب سے بڑا بحران دَرپیش ہے‘ ان کی سیاست اور خاندانی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے‘ اس پلانٹڈ اسٹوری کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہ خبر پاکستان پر ایٹمی حملے کے مترادف ہے‘ اس خبر کی آڑ میں انڈیا، پاکستان کی مذہبی درسگاہوں پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آ چکا تھا‘ یاد دلاتے چلیں کہ اقوامِ متحدہ اور امریکا کی یہی پالیسی عراق اور افغانستان میں بھی رُوبہ عمل لائی گئی تھی اور قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کی خبر لیک نہیں بلکہ پلانٹڈ طریقے سے فیڈ کی گئی تھی۔

یہ خبر فیڈ کرنے کامقصد بھی عالمی برادری کو پیغام دینا تھا کہ جہادی گروپس اور غیرریاستی عناصر پر ہمارا موقف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہے اور ہم عسکری ادارے کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ پرویزرشید نے اس مضحکہ خیز خبر کو رکوانے میں بطور وفاقی وزیر اپنا کردار ادا نہیں کیا‘ انھوں نے آئین کے آرٹیکل90 کی شق3 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی‘ پاکستان کی افواج کا رویہ دُنیا میں اب بھی گونج رہا ہے‘ امریکی کانگریس پر اسرائیلی اور انڈین لابسٹ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا جائے۔

شریفوں نے اس بات کا پکا بندوبست کر لیا ہے کہ سرل المیڈا اپنے ذرائع نہیں بتائیں گے‘ کورکمانڈرز کانفرنس کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ اس بے بنیاد خبر کو فیڈ کر کے قومی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا مگر مہربان نیوزگیٹ معاملہ منطقی انجام تک لے کر جائینگے‘ پہلے تو یہ طے کرناہو گا کہ خبر لیک ہوئی یا جھوٹی خبر بنائی گئی، اس کے بعد ہی ذمے داروں کا تعین ہو سکے گا‘ یہ معاملہ بظاہر کسی منطقی انجام تک پہنچتا نظر نہیں آ رہا‘ اگر ایسا ہوا تو ہم اسے سہہ نہیں سکیں گے‘ گھر میں اماں ابا کی لڑائی کی خبر محلے والوں کو گھر کا کوئی فرد ہی دے سکتا ہے‘ اگر پرویز رشید نے خبر لیک نہ کی ہوتی تو سرل المیڈا تصدیق کے لیے ان سے رابطہ نہ کرتا۔

نیوز گیٹ میموگیٹ ٹو ہے، اس سے سول ملٹری تعلقات میں شدید تناؤ کا اظہار ہوتا ہے‘ تحقیقاتی ٹیم وزیراعظم سے کیسے تحقیقات کریگی جب اس میں وفاقی حکومت کے ملازم بیٹھے ہونگے‘ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ خبریں پلانٹ ہو رہی ہیں‘  ریٹائرڈ قسم کے کتنے ہی لفافہ برانڈ تجزیہ کار میدانِ صحافت میں بھیس بدل کر اُتر آئے ہیں جو مختلف اداروں بشمول وزارتِ اطلاعات اور پی ایم میڈیا آفس میں اپنا مخصوص مشن سرانجام دے رہے ہیں۔

اخبار کے اپنی خبر پر قائم رہنے کے بعد حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ معاملہ پریس کونسل کو بھجواتی یا پھر پی سی پی کو خود ہی نیوز لیک پر نوٹس لینا چاہیے تھا مگر وہ ایسا کیسے کرتی کیونکہ اسے تو بنایا ہی عضوِ معطل سمجھ کر گیا تھا‘ اب کمیشن قائم ہو جانے کے بعد پی سی پی نے نیوزلیک کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کو متعلقہ اخبار یا صحافی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کہا ہے‘ پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس میں اس قسم کے معاملات کو پی سی پی میں نمٹانے کا ذکر ضرور موجود ہے مگر پی سی پی نے خود کو اب تک ایک غیرفعال ادارہ ثابت کیا ہے۔

سرل المیڈا کی خبر اگر جھوٹی ہے تو اس کا کریمنل ٹرائل کیا جا سکتا ہے مگر حکومت یہ معاملہ پریس کونسل کے کندھوں پر ڈال کر اسے دفن کرنے کو زیادہ ترجیح دیگی۔ حکومت کے لیے پاناما لیکس سے زیادہ ’’خبرلیکس‘‘ خطرناک ہے‘ پرویزرشید کی قربانی سے دیگر قربانیوں کی راہ ہموار ہوئی ہے‘ پاناما لیکس اور خبرلیکس میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں کے حقائق کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے‘ پاناما لیکس ملک کے وسائل کا مسئلہ ہے جب کہ خبرلیکس ملک کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔

پاکستانی قوم کو آج ملک کے اندر اور باہر جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے ملک کی سیاسی قیادت کو خبر لیک کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کرنا پڑیگا اور ذمے داروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو گی‘ یہ کس طرح یقین کر لیا جائے کہ حکمرانوں کے ماتحت سرکاری ملازموں کی نگرانی میں کمیٹی جلد ہی اصل حقائق تک پہنچ جائے گی اور جہاں کہیں لاپرواہی یا جان بوجھ کر ملک کے اعلیٰ ترین اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ناپاک سازش کی گئی اس کے اسباب و وجوہ کا مستقل حل بھی نکالا جائے گا تاکہ آئندہ کے لیے یہ چور دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں؟

آج کل کے جدید الیکٹرانک دور میں کوئی چیزنہ مخفی ہے اور نہ ہی رہ سکتی ہے، اس کے باوجود بھی رپورٹ میں اصل حقائق چھپائے گئے تو حکومت کی بدنیتی کھل کر سامنے آ جائے گی مگر قوم کو اُمید ہے کہ ’’جسٹس عامر رضا کمیشن‘‘ کبھی اصل حقائق سے پردہ نہیں اٹھائے گا اور حکومتی گنہگاروں کو بچانے کے لیے خبرکو پلانٹڈ ظاہر کیا جائے گا‘ پھر ظاہرہے جس صحافی پر ملبہ ڈالا جائے گا وہ تو نجانے کس کے خرچے پر امریکا میں عیش کر رہا ہے اور کبھی واپسی کا راستہ اختیار کرنے کا رسک نہیں لے گا‘ پھر چھ مہینے سال بعد معاملے پر گرد جم جائے گی اور قوم اس خبر کو بھول کر کئی اور اسی قسم کی خبروں میں اُلجھ چکی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔