چند حکایتیں

رئیس فاطمہ  اتوار 13 نومبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج کے کالم میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہیں کہ زندگی ویسے ہی بہت تلخ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ وحشت ناک اور اذیت ناک خبروں کے لیے ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہی کافی ہے۔ لہٰذا کبھی منہ کا مزہ بدلنے کے لیے مختلف موضوعات کو بھی موضوع سخن بنانا چاہیے۔

سب سے پہلے ایک حکایت آپ کو سناتی ہوں۔ ایک دن امیرالمومنین معتصم نے قاضی احمد ابی داؤد سے پوچھا کہ ’’کیا بات ہے کہ میرا بھائی مامون جس اہلکار کو پڑھاتا تھا وہ خود کو اس کے لائق ثابت کر کے بتاتا تھا اور مامون بھی ان پر فخر کرتا تھا کہ اس کی محنت ضایع نہیں گئی اور پھر ایسے اہل اور محنتی لوگوں کی وجہ سے نہ صرف خلق خدا کو فائدہ پہنچتا تھا بلکہ حکومت کا کام بھی خوب چلتا تھا اور ساکھ بھی قائم رہتی تھی۔

طاہر الحسین، عبداللہ طاہر اور احمد ابی خالد کیسے معقول اور قابل لوگ تھے، عوام الناس میں بھی مقبول تھے اور اہل دربار بھی ان کی معقولیت اور علم کے معترف تھے۔ برخلاف اس کے میں اس معاملے میں خوش نصیب نہیں ہوں۔ مجھے کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو حکومت کے کاروبار میں میری مدد کر سکے اور ساکھ قائم کرے، ساتھ ہی رعایا میں بھی مقبول ہو، لوگ اس پر بھروسہ اور اعتماد کر سکیں۔‘‘

قاضی احمد ابی داؤد نے جواب دیا ’’یا امیرالمومنین! بات یہ ہے کہ آپ کا بھائی مامون جڑ کا خیال رکھتا تھا اور آپ پتوں اور شاخوں پہ توجہ دیتے ہیں۔ شاخ اور پتوں کو کتنا ہی پانی دیجیے، وہ پھل نہیں دے سکتیں۔ اسی طرح نااہلوں اور نکمے لوگوں کو محض قرابت داری یا سفارش کی بنا پر بڑے بڑے عہدے دینا، انھیں اعلیٰ منصب پہ بٹھانا، دستار فضیلت سے نوازنا بھی ایسا ہی ہے جیسے جڑ کو نظرانداز کر کے محض شاخوں کو پانی دینا، نااہلوں کو ترقی دینا شور زمین میں بیج بونا ہے۔

اگر آپ ایک کامیاب اور مقبول حکمران بننا چاہتے ہیں تو جن دوست احباب اور رشتے داروں کو آپ نے بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں، ان کی جگہ رعایا میں سے اور اہل علم میں سے ایمان دار، محنتی اور قناعت پسند ایسے اہل لوگوں کا انتخاب کیجیے جنھیں رعایا پسند کرتی ہو اور وہ نیک نام بھی ہوں۔‘‘

فضل بن مروان کا بیان ہے کہ امیرالمومنین مامون کی خلافت کے زمانے میں مختلف ملکوں کے سفیر دربار خلافت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور ان سفیروں کی خاطر مدارات کا سارا انتظام میرے سپرد تھا۔ ایک مرتبہ روم اور حبش کے سفیر آئے تو میں نے رومی ترجمان سے کہا۔ ’’ذرا رومی سفیر سے پوچھو کہ تمہارے بادشاہ کی سیرت کیسی ہے؟‘‘ رومی سفیر نے جواب دیا ’’ہمارا بادشاہ مال و دولت سے نفرت اور لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ انعام و خلعت بے ضرورت بھی بخش دیتا ہے لیکن سزا صرف ضرورت کے وقت دیتا ہے۔ لشکر اور رعایا اس سے امیدیں رکھتے ہیں اور خوف بھی کھاتے ہیں، اس لیے کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔‘‘

فضل بن مروان نے پوچھا ’’تمہارے بادشاہ کے احکام کا طریقہ کیا ہے؟‘‘

سفیر نے جواب دیا ’’مظلوموں کی فریاد فوراً سنتا ہے اور ان کی دادرسی کرتا ہے، اسی لیے رعایا اس کی ذات پہ بھروسہ کرتی ہے اور قوت محسوس کرتی ہے۔‘‘

فضل نے پھر پوچھا کہ ’’اس کی ہیبت کا کیا عالم ہے؟‘‘

رومی سفیر نے جواب دیا ’’ہیبت اور جاہ و جلال کا یہ عالم ہے کہ جس شخص کے دل میں اس کی طرف سے اندیشہ ہو اس کے خواب و خور اور تسکین و قرار کا خدا ہی حافظ ہے۔‘‘

ابھی یہ دونوں باتوں میں مشغول ہی تھے کہ حبشہ کے سفیر نے اپنے ترجمان سے پوچھا کہ یہ دونوں کیا باتیں کر رہے ہیں۔ ترجمان نے دونوں کی باتیں دہرا دیں تو حبشہ کے سفیر نے کہا ’’ہمارے بادشاہ قدرت کے وقت معاف کرتے ہیں اور غصے کے وقت بردباری سے کام لیتے ہیں۔ امید کے وقت پیاسوں کے حق میں میٹھا پانی بن جاتے ہیں اور غصے کے وقت گناہ گاروں کے لیے دہکتی آگ ثابت ہوتے ہیں۔ جب کوئی پسندیدہ خدمت انجام دیتا ہے تو بے شمار انعام دیتے ہیں اور جب کوئی شخص بہت بڑا گناہ کرتا ہے، رعایا کو دکھ پہنچاتا ہے تو سخت سزا دیتے ہیں۔ ان کو دو قسم کی جماعتوں سے کام پڑتا ہے۔ ایک امیدواروں کی جماعت دوسری خطاواروں کی۔ امیدوار ہمیشہ اپنی مراد پاتے ہیں اور خطاوار ان کے عفو و درگزر سے ناامید نہیں ہوتے۔‘‘

فضل نے پھر سوال کیا کہ ’’تمہارے بادشاہ کی ہیبت کا کیا حال ہے؟‘‘

حبشی سفیر نے جواب دیا ’’ہیبت کا یہ حال ہے کہ جب وہ سامنے آتے ہیں تو حاضرین کی نظریں زمین میں گڑ جاتی ہیں، وہ ادھر ادھر نہیں دیکھ سکتے۔‘‘

فضل نے جب یہ باتیں خلیفہ مامون کے گوش گزار کیں تو اس نے فضل سے پوچھا کہ ’’اے فضل! بتا کہ تیری نظروں میں ان باتوں کی کیا قدر و قیمت ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا کہ ’’یا امیرالمومنین! یہ باتیں سونے میں تولنے کے قابل ہیں اور جو حاکم ان باتوں پہ عمل کر لے وہ رعایا اور خدا دونوں کی نظروں میں سرخرو ٹھہرے۔‘‘ مامون نے نہ صرف فضل بن مروان کو انعام و اکرام سے نوازا بلکہ روم اور حبشہ کے دونوں سفیروں کو بھی دو دو ہزار دینار بطور انعام دیے۔کہتے ہیں کہ ’’حاکم کی اگاڑی سے اور گھوڑے کی پچھاڑی سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے‘‘ لیکن داناؤں کا کہنا ہے کہ ’’حاکم کی اگاڑی اور پچھاڑی دونوں سے ہی ڈرنا چاہیے‘‘۔

اسی حوالے سے ایک حکایت نظر سے گزری کہ امیرالمومنین معتصم کا بوڑھا وزیر مروان بہت تجربہ کار اور جہاں دیدہ تھا، اس کے باوجود جب وہ دربار خلافت میں جاتا تو خلیفہ کی دہشت اس پر اس درجے سوار ہوتی کہ تھر تھر کانپتا رہتا اور کونے میں بیٹھا رہتا۔ ایسا لگتا کہ جیسے بوڑھے وزیر کو اب پھانسی لگنے والی ہے۔ ایک دن اس کے بیٹے نے پوچھا کہ ’’بابا جان ہمارا خلیفہ تو بڑا نیک، منصف مزاج اور رحم دل ہے، پھر آپ اس سے اتنا کیوں ڈرتے ہیں؟‘‘

باپ نے جواب دیا ’’بیٹا! تم سچ کہتے ہو کہ میں خلیفہ سے بہت ڈرتا ہوں، اتنا کہ جب اس کے پاس جاتا ہوں تو یہ سوچ کر جاتا ہوں کہ اب زندہ واپس نہیں آؤں گا، اس کا سبب میں تمہیں ایک حکایت کے ذریعے بتاؤں گا۔ سنو! وہ حکایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک باز میں اور گھر کے پلے ہوئے مرغ میں بحث ہو گئی۔

باز نے کہا ’تو بڑا بے وفا پرندہ ہے کہ آدمی تیرے دانے پانی کا انتظام کرتا ہے، تیرے آرام کے لیے دڑبہ بناتا ہے، بلی سے بچاتا ہے، الغرض سو سو طرح سے تیری خاطر مدارات کرتا ہے، مگر تو ہے کہ اس سلوک کے باوجود اس سے دور دور رہتا ہے اور جب کبھی وہ تجھ کو پکڑنا چاہتا ہے تو ادھر سے ادھر یہاں سے وہاں بھاگا پھرتا ہے اور ہاتھ نہیں آتا۔ مجھے دیکھ… بالکل وحشی اور جنگلی پرندہ ہوں، لیکن چند ہی روز میں ان سے اتنا مانوس ہو جاتا ہوں کہ گویا میری سات پشتوں نے اپنی عمریں انھی کے گھروں میں گزاری ہوں۔ شکار کے لیے مجھے بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور میرے بس میں ہوتا ہے کہ واپس آؤں یا نہ آؤں، مگر میں پھر بھی لوٹ کر انھی کے پاس آتا ہوں۔‘

مرغ نے جواب دیا ’تم سچ کہتے ہو، تم نے دس دس اور بیس بیس بازوں کو کبابوں کی طرح سیخ میں چھدے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے سیکڑوں پالتو مرغوں کی گردن پہ چھری پھرتے دیکھی ہے۔ اگر تو اپنے کسی بھائی کو ذبح ہوتے دیکھ لیتا تو کبھی آدم زاد کی وفاداری کا دم نہ بھرتا۔‘

تو بیٹا! بات یہ ہے کہ بادشاہوں سے وہی لوگ بے خطر ہیں جو ان کی سزاؤں سے بے خبر ہیں۔ لیکن میں ان کی رگ رگ سے واقف ہوں اور اسی لیے ہروقت ان سے خائف رہتا ہوں، زبان کو قابو میں رکھتا ہوں اور اپنی حقیقت جانتا ہوں۔ یہ ذرا سی دیر میں شعلہ بیں اور ذرا سی دیر میں شبنم ۔ جب چاہیں جاہ و منصب اور خلعت فاخرہ عطا کر دیں اور جب ناراض ہوں تو زن بچہ کولھو میں پلوا دیں۔ اسی لیے عقل مند ہمیشہ حکمرانوں سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ جو مونچھ کا بال بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اکثر ان کا انجام بڑا دردناک ہوتا ہے۔‘‘

یہ حکایت پڑھ کر مجھے انشاء اللہ خاں انشاء یاد آ گئے۔ ذرا سی بات پہ بلکہ حاضر جوابی پہ چراغ پا ہو کر نواب نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ کہاں یہ حال تھا کہ نواب انشاء کے بغیر لقمہ نہ توڑتے تھے، کہاں یہ حال کہ تفصیل پڑھ کر رونا آ جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انشاء کی شاعری، ذہانت اور فصاحت کو نواب صاحب کی مصاحبت نے تباہ کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔