ملکی و غیر ملکی حالات

نسیم انجم  اتوار 13 نومبر 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

قارئین کرام! ملکی و غیر ملکی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث فی الفور کالم لکھنا پڑا ہے، گزشتہ کالم کا دوسرا حصہ اگلے اتوار کو ملاحظہ فرمائیے گا۔

9 نومبر علامہ اقبال کی پیدائش کے حوالے سے اہم ترین دن ہے لیکن تبدیلی حالات نے اس دن کو مزید اہم دن بنادیا ہے، 9 نومبر کو عشرت العباد کا چودہ سالہ دور کا خاتمہ خلاف توقع ہوا اور نئے گورنر سعید الزماں صدیقی جوکہ سابق چیف جسٹس ہیں، کی بحیثیت گورنر تقرری ہوئی۔ واضح رہے کہ جو حقیقت سامنے آئی ہے اس کے تحت وفاقی حکومت نے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو کسی الزام کے تحت ہرگز نہیں ہٹایا ہے بلکہ اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط ترین کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے جہاں تجزیہ نگاروں و دانشوروں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں، وہاں پیپلز پارٹی بھی خوش نظر نہیں آرہی ہے، پیپلز پارٹی کے سیاسی رہنماؤں کے بقول حکومت نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا، جب کہ لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد کو اپنے عہدے سے فارغ کرنے کی وجہ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال اور سابقہ گورنر کی آپس میں ہونے والی تلخ کلامی اور الزام تراشی ہے۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو صاحب اقتدار اپنے ہی بھلے کی سوچتے ہیں، انھیں عوام کے مسائل سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں ہے۔

امریکا کی تاریخ میں بھی 9 نومبر کا دن اہمیت کا حامل بن گیا کہ امید کے برخلاف ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ کی فتح نے پوری دنیا میں مایوسی کی فضا کو ہموار کیا ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخاب میں دو سیاسی پارٹیوں Democratic اور ری پبلکن Republican پارٹی نے حصہ لیا تھا، ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹک کی طرف سے امیدوار تھیں اور امید کی جا رہی تھی کہ ہیلری کلنٹن قلعہ فتح کرلیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، جیت ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوئی، جنھیں بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم مودی ہم خیال ہیں، دونوں ہی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ بات کہنا مناسب ہوگی کہ انسانیت کے دشمن ہیں، وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے بھی بغض و عناد رکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے تو انتخابی مہم کے دوران اسلامی دنیا اور پاکستان کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ مسلم دنیا اور پاکستان کو زیادہ نقصان ری پبلکن پارٹی کے دور میں زیادہ ہوا ہے، تفصیل اس کی کچھ اس طرح ہے 1971 کے پاکستان سانحہ کے موقع پر امریکا میں ری پبلک پارٹی کے صدر نکسن کی حکومت تھی، اسی دوران امریکا نے اپنا بحری بیڑا بحیرہ ہند میں کھڑا کردیا لیکن اپنی نفرت و تعصب کی بنا پر مدد کرنے سے قاصر رہے، اسی طرح 1979 میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو امریکا نے اس کو نکالنے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بڑی آسانی سے بنادیا اور بکرے کی قربانی سابق صدر ضیا الحق کے حصے میں آئی اور ان دنوں بھی حکومت ری پبلکن پارٹی کے رکن رونالڈ ریگن کی تھی۔ یقیناً اس وقت ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو کہ امریکا اور روس کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا فریضہ انجام دیتا۔

دراصل افغان جنگ امریکا اور روس کے مفاد کی جنگ تھی۔ امریکا نے دہری چال چلی کہ پاکستان کو ’’جہاد‘‘ کرنے کے لیے ایک نیا سبق پڑھایا، اس جنگ میں بدنصیبی سے افغانستان، پاکستان کا دشمن بن کر سامنے آیا، وہ امریکا کی دہری پالیسی کو سمجھ نہ سکا، جب کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ برصغیر پر 700 سال تک افغان مسلم حکمرانوں نے حکومت کی ہے۔

1991 میں جارج بش (بڑے بش) کی حکومت تھی، ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی ہی سے تھا، اس وقت امریکا نے اپنے مذموم مقاصد کے عراق کو اعتماد میں لے کر کویت پر حملہ کروا دیا اور اس کے بعد وہی ہوا جو اسے کرنا چاہیے تھا، وہ یہ کہ خود کویت کا ہمدرد بن کر اس کی مدد کرنے لگا، اسی طرح جب 11 ستمبر 2001 میں جب نیویارک میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اس وقت بھی جارج بش (چھوٹے بش) کی حکومت تھی، اس واقعے کی آڑ لے کر اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان میں داخل ہوا، اس پورے واقعے میں پاکستان کا ذرہ برابر ہاتھ نہیں تھا، لیکن پاکستان کو ملوث کیا ، ایک طرف ان حالات کے تناظر میں پاکستان کو اتحادی کہتا ہے اور ساتھ میں اقتصادی فوجی اور ہر قسم کی پابندیاں بھی پاکستان پر لگانے میں عار نہیں سمجھتا ہے۔

اور اس وقت بھی ری پبلکن پارٹی کی حکومت تھی، جارج بش حکومت میں تھے، عراق پر حملہ کرنے کے لیے کیمیائی مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر عراق کو تہہ و تیغ کیا گیا اور جب مکمل طور پر عراق تباہ ہوگیا، ہزاروں بے قصور مسلمان شہید ہوئے تب جارج بش نے بے حد لاپرواہی سے کہا غلطی ہوگئی۔ اصل مقصد تیل کی دولت پر قابض ہونا تھا اور آج کل پھر (مسلم امہ کے معصوم بچوں) شام کے شہریوں پر محض اپنے مفادات کی جنگ، روس اور امریکا مل کر لڑ رہے ہیں اور شام میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔

ماضی کے پرتشدد حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ری پبلکن پارٹی مسلم دنیا اور پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہے، دوران انتخابات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کے داخلے کے لیے سخت قوانین بنانے کا اعلان کیا، ٹرمپ سالہا سال سے بلکہ پیدائشی ہی بنیاد پرست ہیں اگر ہم 1998 کا People Magazine پڑھیں جس میں موصوف کا انٹرویو شامل ہے انھوں نے دوران گفتگو فرمایا کہ ’’اگر میں کبھی الیکشن لڑوں گا تو ری پبلکن کی طرف سے کیونکہ وہ سب سے زیادہ بے وقوف ووٹر ہیں، وہ ہر اس چیز پر یقین کرلیتے ہیں جو Fox News پر دکھائی جاتی ہے، اگر میں جھوٹ بھی بولوں گا تو وہ آسانی سے مان لیں گے۔‘‘

اگر ہم امریکا کی تاریخ کے ابتدائی صفحات پلٹیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ نسل پرستی کے جنون میں مبتلا ہیں، جہاں گورے کو کالے پر سبقت حاصل ہے اور Black Slavery عام تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور آیا کہ تمام انسانوں کے حقوق برابر ہوتے ہیں جس کی مثال اوباما کا صدر بننا تھا، اوباما پہلے منتخب افریقن امریکی صدر تھے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکن نسلی تعصب سے آگے نکل چکے ہیں۔

موجودہ الیکشن میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہیلری پسندیدہ شخصیت بن کر ابھری تھیں لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب عراق جنگ اور لیبیا میں فسادات ہو رہے تھے وہ حکومتی امور انجام دے رہی تھیں اور مسلم ممالک پر ہونے والے مظالم میں وہ برابر کی شریک تھیں اور اب وہ موجودہ الیکشن کی campaign میں سب لوگوں کے حقوق کی حامی نظر آئیں، انھوں نے بلیک امریکن ووٹرز کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا اور خواتین کو بھی احساس تحفظ دیا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں، جب کہ ٹرمپ اور ان کے ووٹرز اپنی تقریروں میں مسلمانوں اور سیاہ امریکن کے خلاف زہر اگلتے رہے۔

ایک موقع پر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں صاف الفاظ میں کہا کہ وہ emigrants کو نکال دیں گے، میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کردیں گے اور تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، انھوں نے مسلمانوں کا داخلہ بھی بند کرنے کی بات کی ٹرمپ کے حمایتیوں کی ایک ریلی کو یوٹیوب پر دیکھنے کا موقع ملا اس میں ان کا ووٹر واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کر رہا ہے we hate Muslims, we hate blacks, we want our great country back۔

ایک بڑا حلقہ جس میں شوبز کی چوٹی کی اداکارائیں شامل تھیں ہیلری کلنٹن کے حق میں تھیں اور انھوں نے امریکا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں امریکا چھوڑنے کی بات کی جن میں لیڈی گاگا اور کیٹی پیری Snoop dogg شامل ہیں۔ آج تک کی اطلاعات کے مطابق یورو کے مقابلے میں ڈالر لڑکھڑا گیا ہے، خام تیل کی قیمت کم ہوگئی اور سونا مہنگا ہوگیا ہے اور دنیا حیران و پریشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔