برکتوں کا مہینہ یا فوڈ فیسٹیول؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 26 جولائی 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

کیا واقعی رمضان کا مہینہ برکتوں کا مہینہ ہے؟ ہاں ہے تو! خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے یعنی کاروباری حضرات کے لیے، تاجروں کے لیے، ہول سیلر کے لیے، خوردہ فروشوں کے لیے، ذخیرہ اندوزوں کے لیے، زکوٰۃ اور فطرہ مانگنے والوں کے لیے، مختلف ناموں سے زکوٰۃ و عطیات فائونڈیشن قائم کرنے والوں کے لیے، ٹیلی ویژن پہ رقت آمیز دعائیں کروانے والوں کے لیے تاکہ ان کا اصلی چہرہ لوگوں سے پوشیدہ رہے۔ (البتہ کچھ چہروں پر سے یو ٹیوب نے نقابیں ہٹا دی ہیں)۔ پاکستان میں رمضان کا مہینہ محض کمائی کرنے کا مہینہ ہے۔ جتنی کمائی کسی بھی کاروباری شخص کی پورے سال میں نہیں ہوتی اتنی صرف ایک ماہ میں ہو جاتی ہے کیونکہ سال بھر کی بدترین اشیاء خواہ وہ چاول ہوں، خشک میوہ جات ہوں، کپڑا ہو، جوتے ہوں یا عام استعمال کی دیگر اشیاء، سب کچھ رمضان میںتین گنا قیمت پہ بک جاتا ہے، کیونکہ رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا ہے۔

اس ماہ کے دوران انسان کو اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ اپنے ضمیر کا جائزہ لینے کا وقت بھی مل جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ محض ایک ’’فوڈ فیسٹیول‘‘ ہے۔ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی رمضان بچت آفرز آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ پیزا اب بچت آفر میں 295/- کا ہے۔ کولڈ ڈرنک میں فی بوتل 5 روپے کا ڈسکائونٹ ہے۔ کھجلہ پھینی پہ کہاں بچت آفر ہے۔ دہی بڑوں اور چھولے کہاں سستے داموں دستیاب ہیں۔ سموسے اور رول کس محلے میں کون اچھے بناتا ہے۔ روزے کو ایک ایسا دن بنا دیا گیا ہے جس میں رات کو یہ سوچا جاتا ہے کہ سحری میں قیمہ پراٹھے، شامی کباب، دودھ جلیبیوں کے علاوہ اور کیا کیا ہو گا۔ اور سہ پہر سے خواتین یہ سوچنا شروع کر دیتی ہیں کہ افطار میں آج کیا کیا بنے گا۔ بیسن کے پکوڑوں کے بغیر تو افطار، افطار لگتا ہی نہیں۔

اس میں کئی کئی اقسام، وہ جو کہا جاتا ہے کہ پورے سال میں ایک ماہ کے روزے امّت پہ اس لیے فرض کیے گئے کہ ایک تو طبی نقطۂ نگاہ سے معدے کو تین وقت کے کھانے سے آرام ملے اور دوم خود بھوکا رہ کر کسی مظلوم اور نادار کی بھوک کا احساس کیا جا سکے تو یہ دونوں مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ گلے گلے سحری معدے میں ٹھونس کر سوائے سارا دن ڈکاریں لینے کے اور کیا کیا جاتا ہے۔ رہ گیا کسی غریب اور مفلوک الحال کی بھوک کا احساس تو جس قوم کا لوگو (Logo) یہ ہو کہ ’’میں بھی کھائوں تو بھی کھا۔‘‘

بعض مساجد میں جب افطاری کے تھال آتے ہیں تو اس کی انتظامیہ ان میں سے اپنی من پسند اشیاء اٹھا کر الگ رکھ لیتے ہیں جو وہ اطمینان سے بعد میں کھاتے ہیں اور جب ان کے جنّاتی معدے انواع و اقسام کی اشیاء سے اِتنے بھر جاتے ہیں کہ چورن کھانے کی بھی گنجایش نہیں رہتی تو وہ باقی اشیاء اسی طرح ضایع کر دیتے ہیں جیسے شادی بیاہ کی دعوتوں میں ضرورت سے زیادہ کھانا نکال کر بقیہ بچا ہوا کھانا ضایع کر دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ قوم صرف اور صرف کھانے کے لیے زندہ ہے۔ جس طرح بھی ہو کھائو اور ہڑپ کرو، قومی خزانوں کو لوٹو اور ڈکار بھی نہ لو، کام کیے بغیر تنخواہیں وصول کرو، گھوسٹ اسکولوں کی سرپرستی کرو اور اپھارے کا مرض بھی لاحق نہ ہو۔ کھائو کھائو اور صرف کھائو۔

میں اکثر سوچتی بھی ہوں اور سوال بھی کرتی ہوں اپنے جیّد اور قابل علماء سے کہ وہ جو کبھی نیٹو سپلائی کھلنے پر، کبھی ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے پر، کبھی عظمتِ اسلام کے نام پر بڑی بڑی ریلیاں نکالتے ہیں‘ اپنے سرپرستوں کے کہنے پر تو وہ لانگ مارچ تک بھی کر ڈالتے ہیں۔ کیا کبھی انھوں نے کسی عام آدمی پہ گزرنے والے عذابوں سے نجات کے لیے بھی کوئی ریلی نکالی ہے؟ چلیے اور سب چھوڑ دیجیے، صرف ایک رمضان میں اچانک جعلی طریقے سے بڑھائی جانے والی مہنگائی کے خلاف انھوں نے کوئی احتجاج کیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ بھلا کیوں کریں گے؟ انھیں کیا پتہ کہ رمضان سے پہلے گوشت، سبزی، کھجور، گرما، آم، سیب، پپیتا، انگور، آڑو اور خوبانی کے بھائو کیا تھے اور رمضان سے دو دن پہلے ان کی قیمتوں میں کس قدر ہوش ربا اضافہ ہوا ہے؟

یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ انھیں تو بھرے دسترخوانوں پہ چوٹی تک لبالب بھری ڈشوں کو دیکھ کر یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ اسی ملک میں ایک کثیر آبادی نہ سحری سے واقف ہے نہ افطار سے۔ اس کے مقدر میں تو وہ بچا کھچا رزق بھی نہیں جو ضایع کر دیا جاتا ہے اور ڈسٹ بن کا مقدر بنتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی ذیلی طلبا تنظیمیں جو 31 دسمبر کی شام سے ہی اپنے اپنے ڈنڈا بردار مسلح جتھوں کے ساتھ فائیواسٹار ہوٹلوں اور ساحل سمندر پر اپنا مذہبی جوش و جلوہ دِکھانے پہنچ جاتے ہیں وہ کبھی سال میں ایک مرتبہ رمضان میں گراں فروشوں کے سروں پہ بھی پہنچ جائیں۔

صنعت کاروں، تاجروں، ہول سیلرز اور خوردہ فروشوں کو راہ راست پر لا کر نہ صرف اپنا جذبۂ ایمانی تازہ کریں بلکہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلا کر اپنا ووٹ بینک بھی بڑھائیں کیونکہ عام آدمی کا مسئلہ صرف مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ جذبۂ اسلامی سے سرشار یہ مسلح نوجوان اگر چاہیں تو کم از کم رمضان میں گرانی کو روک سکتے ہیں لیکن یہ بھی ایسا نہیں کریں گے ۔یہ تو گرانی اور مہنگائی کا مسئلہ ہے جو کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

لیکن اس سب کے باوجود اب بھی کچھ نیک لوگ ہیں دنیا میں جو یہ جانتے ہیں کہ کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی اور ایک روز حشر بھی ہوگا جب اپنے اپنے کیے گئے گناہوں اور زیادتیوں کا حساب بھی دینا ہوگا۔ کس نے کس کا حق مارا‘ کس نے کسی کے اکلوتے بیٹے کو چھینا اور اسے ایک طلسم میں بند کرکے ماں باپ سے متنفر کر دیا گیا؟ کس عورت نے اپنے شوہر کو اس کے ماں باپ سے جدا کیا، انھیں پوتا پوتی کی صورت دیکھنے سے محروم کر دیا گیا۔

والدین کو بیٹے کے گھر میں داخلے کی اجازت نہیں۔ وہ اپنی محرومیوں اور تنہائیوں کے ساتھ بیٹے کے لیے خیر کی دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کا ہیرے جیسا بیٹا ہائی جیک ہو گیا اور ہائی جیک کرنے والے پنج وقتہ نمازی کہ وہ اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ پانچوں وقت نماز پڑھ کے اور تیس روزے رکھ کے انھیں یہ اختیار مل گیا ہے کہ جس کے ساتھ جو زیادتی چاہیں کریں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور جو اس بات کو یاد رکھتے ہیں وہ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے۔

ایسے ہی لوگوں سے یہ دنیا قائم ہے۔ رمضان میں جہاں ہر طرف گرانی نے قدم جمائے ہوئے ہیں، وہیں کراچی میں کچھ ایسے مخیر حضرات بھی ہیں جو برسوں سے لوگوں کو روزہ افطار کرا رہے ہیں۔ کبھی برنس روڈ سے کسی نیک انسان نے صرف چالیس روپے سے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ آج یہ حال ہے کہ لنچ بکس کے علاوہ جگہ جگہ میزیں لگی ہیں، ان پر افطاری سجی ہے، جس میں اعلیٰ درجے کی اشیاء ہیں، جس کا جی چاہے آئے اور روزہ افطار کرے۔

گزشتہ چند برسوں سے یہ نیکی خوشبو کی طرح پھیلی اور اب جگہ جگہ بے شمار دستر خوان ہیں، جہاں نہ جانے کتنوں کی عزت رہ جاتی ہے، کتنوں کا پردہ ڈھکا رہ جاتا ہے کہ دن بھر کے بھوکے ان چیزوں سے روزہ افطار کرتے ہیں جو وہ خود کبھی اپنے لیے مہیا نہیں کرسکتے۔ یہ انتظام کرنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے روزِ قیامت اور حساب کو یاد رکھا ہے کہ انھی کے دم سے یہ دنیا قائم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔