کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے عالمی منظر نامہ تبدیل ہوگا؟

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 14 نومبر 2016
’’امریکی صدارتی انتخابات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔  فوٹو : ایکسپریس

’’امریکی صدارتی انتخابات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : ایکسپریس

8نومبر کو ہونے والے امریکی صدراتی انتخابات میں ری پبلکن کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے مابین کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آیا ۔ بالآخر جیت ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں آئی اور ہیلری کلنٹن نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں بہت بڑے بڑے دعوے کیے ، ان لب و لہجہ جارحانہ تھا لیکن جیت کے بعد پہلی تقریر قدرے متوازن تھی۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ٹرمپ کے خلاف ہے اور اب انہوں نے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اپنالیا ہے ۔ ان حالات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’امریکی صدارتی انتخابات اور ٹرمپ کی جیت‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات
(ماہر امور خارجہ)
امریکا کسی ایک قوم، نسل یا گروہ کا ملک نہیں ہے بلکہ وہ بہت ساری قوموں اور مہاجروں کا ملک ہے۔ امریکا کی ترقی میں وہاں رہنے والی ہر قوم کا کردار ہے، اس میں ہمارے پاکستانیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹرمپ نے نسل پرستی کی مہم چلائی، نفرت کی دیواریں کھڑی کیں اور کم تعلیم یافتہ طبقے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سفید فاموں کو مضبوط کرنے کا اعتماد دے کر جن بوتل سے باہر نکال دیا ہے جس سے معاملات خراب ہوں گے اور نسلی تضادات کو ہوا ملے گی۔ اسی طبقے نے دوسری قوموں کی نفرت میں ٹرمپ کو ناممکن انتخاب جتوایا ہے۔

میرے نزدیک ٹرمپ کی جیت سے امریکا میں انقلاب بھی آیا ہے اور حادثہ بھی رونما ہوا ہے۔ انقلاب اس لیے ایک بہت بڑی غیر متوقع تبدیلی آئی ہے اور حادثہ اس لیے کہ امریکی قدریں پاش پاش ہوگئی ہیں۔ امریکیوں نے اپنے بانیان کی نصیحتوں کو بھلا کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکا ابھی کسی خاتون کو صدر بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ کی جیت میں ہیلر ی کا خاتون ہونا بھی ایک محرک ہے۔

سفید فاموں کو یہ بھی غصہ تھا کہ ایک سیاہ فام امریکا کا صدر بنا، اب انہوں نے اس چیز کا بھی بدلہ لیا ہے ۔ ٹرمپ نے اس مخصوص طبقے کو مخاطب کیا، اسلام کے خلاف بات کی اور پھر اسی طبقے نے اسے کامیاب کروایا۔ ہیلری چونکہ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیتی تھی اس لیے ایک مخصوص طبقہ اس کے خلاف نظر آیا۔ سینیٹ اور ہاؤس بھی ری پبلکن نے جیت لیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے جن نعروں پر الیکشن جیتا ہے وہ کیسے پورے کریں گے؟کیا ادارے انہیںقابو کرسکیں گے؟

میرے نزدیک ٹرمپ کی پالیسی متوازن ہوگی لیکن ان پر سفید فاموں کا دباؤ بھی ہوگا جن سے انہوں نے وعدے کررکھے ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ امریکیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ووٹ دیا، وہاںسب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ تو کانگریس ہے،آٹھ سال سے ری پبلکن ،ہاؤس اور سینیٹ میں بیٹھے ہیں اور وہ اوباما کی حکومت چلنے نہیں دے رہے تھے۔ اس انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ نہیں ہاری بلکہ وہ دوبارہ آگئی ہے لہٰذا لوگوں نے کسے شکست دی؟ میرے نزدیک لوگوں نے نسلی تضاد اور جینڈر کی بنیاد پر ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ٹرمپ، ایران نیوکلیئر معاہدے کا سب سے بڑا مخالف تھااور کہتا تھا کہ میں اس معاہدے کو ختم کردوں گا ۔

اب اگر یہ ایسا ہوتا ہے تو پہلے یورپی ممالک اس کے خلاف جائیں گے کیونکہ ان ممالک نے بڑی مشکل کے ساتھ ایران کو نیوکلیئر پروگرام نہ بڑھانے پر رضامند کیا ہے۔ اگر ایران پر پابندیاں لگائی جائیں گی تو معاملہ خراب ہوگا اور اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ ٹرمپ کی پالیسی آئیسولیشن کی ہے، ٹرمپ نیٹو کے خلاف بھی باتیں کرتے رہے ہیں، تجارت کے حوالے سے بھی انہوں نے کہا کہ وہ صرف اپنی مرضی سے تجارت کریں گے، کسی ملک کو مفت سیکورٹی نہیں دیں گے لہٰذا ان ساری باتوں سے امریکا کا عالمی امیج خراب ہوگا اور اگر یہی صورتحال رہی تو امریکا نہ صرف غیر مستحکم ہوگا بلکہ تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔

امریکا ایک اہم پلیئر ہے، مضبوط ممالک اور معاشی طاقتوں پر ٹرمپ کی پالیسیوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن امداد اور قرضوں پر چلنے والے ممالک ان سے متاثر ہوں گے لہٰذا ہمیں خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کی بنیادی سوچ تبدیل نہیں ہوسکتی، وہ اپنے ہی لوگوں کی تذلیل کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اسلام مخالف باتیں بھی کی ہیں۔ہیلری پاکستان اور مسلمانوں کے لیے سافٹ کارنر رکھتی ہیں، انہوں نے ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں دہشت گردی و دیگر الزامات کے مخالف مضبوط موقف اپنایا ۔

ٹرمپ ہمارے لیے بالکل نئے ہیں، ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کا رویہ پاکستان کے بارے میں کیا ہوگا۔ ٹرمپ کی پالیسی نسل پرست، مذہب دشمن اور تنہائی کی ہے لہٰذا ہمیں امریکا کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے اور اس چیز کا ادراک کرنا چاہیے کہ امریکا نے بھارت کو اس خطے میں اپنے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہمارا سٹرٹیجک پارٹنر چین ہے اور ہمیں اب اسی حوالے سے ہی چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔

ٹرمپ کی شکل میں ایک اور مودی آگیا ہے اور دونوں کی پالیسی انتہا پسندی ہے۔ ایک بات اہم ہے کہ ٹرمپ اپنے نعروں پر عمل کرسکیں یا نہیں لیکن ان کے نعروں سے امریکی معاشرے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور جس نفرت کو انہوں نے ہوا دے دی ہے اس سے امریکا کا نقصان ہوگا۔ امریکا میں مہاجروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، انہیں وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ ٹرمپ سب کو باہر نکالنا چاہتا ہے، میکسیکنز کے بارے میں اوباما کی حکومت پالیسی بنا رہی تھی لیکن ٹرمپ کہتا ہے کہ وہ میکسیکو کے طرف دیوار بنا دے گا اور انہیں فوراََ نکال دیا جائے گا۔

میکسیکو نے گزشتہ کچھ سالوں میں ترقی کی ہے، مہاجرین پہلے ہی واپس جانا شروع ہوگئے ہیں، اگر سب واپس چلے گئے تو امریکا کی معیشت تباہ ہوجائے گی اور وہاں لیبر بھی نہیں ملے گی۔ ٹرمپ صرف سفید فاموں کا گریٹر امریکا بنانا چاہتا ہے جو امریکا کے مفاد میں نہیں ہے۔

محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
انتخابات سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات زیادہ نظر آرہے تھے ۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ امریکا کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم تشریف لائے ۔ ٹرمپ اور ہیلری کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔اس کے علاوہ وال سٹریٹ بھی ٹرمپ کے پیچھے دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس سے لگ رہا تھا کہ ٹرمپ الیکشن جیت سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اوباما کے دنیا اور اپنی قوم کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پورا نہ ہونا، ٹرمپ کا جارحانہ لہجہ، قومیت پرستی اور انتہا پسندی بھی ٹرمپ کی جیت کی وجوہات میں شامل ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عرصے سے دنیا میں یہ ٹرینڈ آیا ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی قسم کی گفتگو کرتے رہے مگر وہ انتخاب جیت گئے۔ ہیلری ایک عورت ہیں، یہ خیال کیا جارہا تھا کہ خواتین انہیں زیادہ ووٹ دیں گی لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ٹرمپ کو ووٹ دیے۔ یہ وہ تمام محرکات ہیں جن میں یہ امریکی صدراتی انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہوئی۔

اب وہ برسر اقتدار آگئے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم میں جو دعوے کیے، ان پر عملی طور پر کیا کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ نریندر مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پالیسی میں توازن رکھا لیکن بعد میں وہ اسی طرف چلے گئے جو وعدے یا دعوے انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے لوگوں سے کیے تھے لہٰذا ٹرمپ بھی کچھ ایسا ہی کرسکتے ہیں۔

دوسری طرف پیوٹن موجود ہیں، شام کی صورتحال ہے، یورپی ممالک اور ایران کے درمیان معاہدے کا معاملہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے سعودی عرب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں وثوق کے ساتھ کہنا کہ ٹرمپ کیا کریں گے ممکن نہیں ہوگا لیکن شاید دنیا اب مزید برے حالات کی طرف جائے گی۔ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر کی مدت ملازمت ختم ہونے والی ہے جبکہ اب نیا سفیر تعینات کیا جائے گا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارتی سفارتکاروں کے مقابلے میں ہمارے سفارتکاروں کے کپیٹل ہِل کے دورے کم رہے ہیں، بھارت نے وہاں لابنگ بھی کی ہے۔

میرے نزدیک اب ہمیں ایسا سفیر تعینات کرنا چاہیے جو متحرک ہو۔ امریکا میں ابھی انتخابات ہوئے ہیں اور 20جنوری تک حکومت سازی کا عمل مکمل ہوگا لہٰذا تب تک ہمیںاپنا بہتر ہوم ورک کرنا چاہیے۔

اس کے لیے ایک قابل اور متحرک ٹیم بنائی جائے اور ایسے لوگ تعینات کرنے چاہئیں جو وہاں کے حالات کو سمجھتے ہوں۔ ری پبلکن کے ساتھ ہمارے تعلقات کا کچھ عرصے سے فقدان ہے لہٰذا ہمیں اب تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں جماعتوں سے بالا تر ہوکر قابل شخص کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو صورتحال خرابی کی طرف جائے گی کیونکہ یہ کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات مزید خرابی کی طرف جائیں۔

بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن
(دفاعی تجزیہ نگار)
امریکا کبھی پاکستان کا دوست بنا نہ مستقبل میں بنے گا بلکہ ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنا گھر درست نہیں کیا۔ 1960ء تک ہم لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، منصوبہ بندی کرکے دیتے تھے۔ ڈاکٹر محبوب نے کوریا کومنصوبہ دیا اور وہ قومیں جو ہمارے سے منصوبہ بندی کرواتی تھیں آج وہ ترقی کر چکی ہیں جبکہ ہم مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں۔

جب تک ہم اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے، ملک مضبوط نہیں ہوگا اور کوئی بھی ملک تعلقات قائم کرنے کے لیے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے صرف اپنی ذات کا سوچا۔ ہم نے من حیث القوم اپنی ذات کو آگے رکھا ہوا ہے، ہماری سوچ غلامانہ ہے اور ہم مدد کے لیے کبھی امریکا کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی کسی اور ملک سے امید لگا لیتے ہیں۔اللہ نے اس ملک کو وسائل سے مالا مال کیا ہے لیکن ہم اپنے وسائل کو برووئے کار لاکر ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرسکے۔

امریکا کی بات کریں تو ٹرمپ کے صدر بننے سے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اگر ان کی جگہ ہیلری بھی صدر منتخب ہوتیں تو معاملات ایسے ہی چلتے کیونکہ امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور خود ٹرمپ نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ امریکا کے مفادات کو ترجیح دیں گے۔9/11کے بعد امریکا نے خود کو مضبوط کرلیا جبکہ بدقسمتی سے ہم نے خود کو تباہ کرلیا۔ ہم اپنے ساتھ مخلص نہیں ہیں، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم کشکول پکڑے رکھیں گے دنیا میں نہ ہماری پذیرائی ہوگی اور نہ ہی کوئی اچھے تعلقات رکھے گا۔

بھارت 30بلین ڈالر کا اسلحہ امریکا سے خرید رہا ہے جبکہ ہم اس سے قرض مانگ رہے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں ہمیں امریکا سے بہتری کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے، ہمیں اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے۔ خارجہ پالیسی صدر اکیلا نہیں بناتا، اس کے لیے ملک کے تمام اداروں کی رائے لی جاتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اداروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہمیں بہتر خارجہ پالیسی بنانی چاہیے۔ ٹرمپ کے جیتنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کے عوام امن اور معاشی بہتری چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ امریکا دوسرے ممالک کی جنگ لڑے کیونکہ اوباما کے دور میں امریکا معاشی طور پر پستی میں گیا ، اسی لیے انہوں نے ٹرمپ کو منتخب کیا ۔ میرے نزدیک انہوں نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور حکومت میں اپوزیشن کے قابل رکن کو اہم ذمہ داری سونپی، ہمیں بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہوکر قابل لوگوں کو ذمہ داریاں سونپنی چاہئیں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ جب ملک ترقی کرجائے گا تو دنیا کے ممالک خود ہمارے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کریں گے۔

حکمران ، قوم کی تقدیر بدلتے ہیں لہٰذا حکمرانوں کو اپنے مفادات کے بجائے ملک کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ 3سال سے وزیر خارجہ ہی نہیں ہے حالانکہ یہ ایک مضبوط ، متحرک اور اہم رکن ہوتا ہے۔ کیا وزیراعظم اتنا کام کرسکتے ہیں؟ انہیں اور بھی معاملات دیکھنا ہوتے ہیں لہٰذا فوری طور پر وزیر خارجہ تعینات کیا جائے تاکہ معاملات بہتر طریقے سے چلائے جاسکیں۔ ہمارا دشمن ملک میں انتشار پھیلا رہا ہے، امریکا، اسرائیل اور بھارت پاکستان کے خلاف ہیں اور سازشیں کرتے رہتے ہیں جبکہ اب ٹرمپ کی شکل میں ایک اور مودی برسر اقتدار آگیا ہے۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار)
خارجہ پالیسی بناتے وقت جذبات نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو مسائل حل نہیں ہوتے لہٰذا جب تک ہم زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کی جہتیں وضع نہیں کریں گے تب تک معاملات درست نہیں ہوں گے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امریکا نہ تو بھارت کا مستقل دوست ہے اور نہ ہی پاکستان کا، نہ ہی اس کی ان دونوں ممالک سے کوئی دوشمنی ہے بلکہ اس کی پالیسی ہمیشہ اس کے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی وہ دوست اور دشمن کا تعین کرتا ہے۔

حالیہ تناظر میں بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات کا فروغ اور ہمارے ساتھ تعلقات میں کمی کی وجہ چین کے حوالے سے امریکی تحفظات ہیں کیونکہ وہ چین کے کردار کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ مودی کی معاشی پالیسی کا بھی امریکا کو راغب کرنے میں اہم کردار ہے۔ مودی نے ’’اوپن انوسٹمنٹ‘‘ کی پالیسی اپنائی ہے ۔ وہ نہ صرف امریکی سرمایہ داروں کو ایک ارب کی آبادی کی ایک بڑی مارکیٹ دے رہا بلکہ انہیں سستی لیبر بھی فراہم کررہا ہے لہٰذا امریکا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے، اس کے لیے صرف امریکا کے مفادات کو دیکھ لینا کافی ہے۔

اس لیے میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے پاک، امریکا تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ یہ یونہی پستی کی طرف چلتے جائیں گے۔ہمارے سے بھی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے امریکا نے ہمیشہ ہم پر سوالیہ نشان لگایا۔ افسوس ہے کہ ہم نے خود کو مضبو ط کرنے کے بجائے قرضوں کی طرف رجحان رکھا اور ابھی بھی اسی طرف جارہے ہیں۔ امریکا میں فرد واحد کے پاس فیصلہ سازی کازیادہ حق نہیں ہوتا بلکہ وہاں ادارہ جاتی فیصلہ سازی کا رجحان ہے اورا س کے حساب سے چیزیں آگے چلتی ہیں۔ ٹرمپ نے ووٹ حاصل کرنے کے اپنی انتخابی مہم میں نعرے تو بہت لگائے لیکن جب ان کے سامنے حقائق رکھیں جائیں گے تو صورتحال مختلف ہوگی۔

اقتدار میں آنے کے بعد اب ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ پر ذمہ داری بڑھ جائے گی کہ وہ دنیا کے مسائل حل کرکے امن قائم کریں ۔اس لیے ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کرنا ہے اور اس کے لیے تمام ادارے، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر بہترین خارجہ پالیسی بنائیں تاکہ معاملات کو درست سمت میں چلایا جاسکے۔

اگر ٹرمپ کی جیت کے حوالے سے بات کریں تو انہوں نے سفید فاموں کو اعتماد دیا ہے اور ان کی آواز بنے کیونکہ یہ لوگ کافی عرصے سے پریشان تھے اور انہیں دوسری قوموں کے یہاں آباد ہونے پر شدید تحفظات تھے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے دیہاتوں پر توجہ مرکوز کی اور عوام کی اندرونی باتوں کو جہت دی جو اس کی کامیابی کی وجہ بنی ہے۔ اس کے برعکس ہیلری نے شہری علاقوں پر توجہ مرکوز کی اور دیہاتوں کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔

ٹرمپ نے جب مسلمان اور خواتین کے خلاف بات کی، قومیت پرستی کو فروغ دیا تو لوگوں نے اس بات کو ناپسند کیا لیکن وہ سمجھتے تھے کہ ٹرمپ کی بہت ساری باتیں ٹھیک ہیں اس لیے انہوں نے منفی باتوں کو نظر انداز کرکے انہیں منتخب کرلیا۔ ٹرمپ نے جب امریکا کو مضبوط کرنے کی بات کی، دوسروں کی جنگ میں نہ پڑنے کا کہا اس کے علاوہ ایسی مزید باتیں تھیں جو امریکی اپنے حق میں بہتر سمجھتے تھے جبکہ ہیلری نے اسی پالیسی کو آگے لے کر چلنا تھا جو اوباما دور سے چل رہی ہیں۔میرے نزدیک ٹرمپ کے لیے اب معاملات زیادہ آسان نہیں ہوں گے۔

انہیں افغانستان سے اپنی افواج نکالنا ہوگی، مشرق وسطیٰ کا معاملہ حل کرنا ہوگا، امریکا کے مسائل کا تدارک کرنا ہوگا، امن قائم کرنا ہوگا اور جو وعدے یا دعوے انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کیے ہیں ان کے حوالے سے ان پر عوام کا دباؤ بڑھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔