ہم نے ٹرمپ کو خط لکھا (پہلا حصہ)

نادر شاہ عادل  پير 14 نومبر 2016

صدر گرامی قدر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب!
پہلے لتا جی کے فلمی گانے کا مکھڑا سنیے۔

ہم نے صنم کو خط لکھا،
خط میں لکھا…
او دلربا، دل کی گلی، شہر وفا۔

آپ نے شاید یہ لاکھوں میں ایک فلمی گانا کبھی نہیں سنا ہوگا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ سن بھی لیتے تو سچویشن کے منفرد شاعر آنند بخشی کا لکھا اور سروں کی مہارانی لتا جی کے گائے ہوئے اس امر گیت کا کیا بگڑتا۔ اچھا ہوا کہ اس گیت کو آپ نے سنا اور نہ سمجھنے کا موقع ملا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو تو امریکی قوم، اسٹیبلشمنٹ، ہلیری کلنٹن، ان کے ووٹر بھی سمجھنے سے قاصر رہے کہ آپ کیا بلا ہیں؟

آپ دراصل امریکی انتخابی سومناتھ میں جنگلی بھینسے ’’بل ان دی چائنا شاپ‘‘ کی طرح داخل ہوئے، اپنی دنیا میں گم امریکی ووٹرز کو 18 ماہ کی انتخابی مہم میں یہ پتا ہی نہ چل سکا کہ ان کی آیندہ شکست اسی بدزبان بابا، بے لگام ارب پتی بزنس مین کے ہاتھوں لکھی گئی ہے۔

بابا جی، پتے کی بات یہ تھی کہ آپ کا افتادگان خاک سے پیوستہ پاپولر ووٹر خاموشی سے آپ سے یہی راز کی بات تو کہہ رہا تھا کہ دل چیز کیا ہے، آپ میری جان لیجیے، بس ایک بار اپنی ’’فتح‘‘ مان لیجیے۔ امریکی قوم لایعلمون تھی کہ ایک سخت جان بانکا سجیلا جولیس سیزر ان کے درمیان کھڑا تھا، وہ آیا، اس نے دیکھا اور اس نے فتح کرلیا۔ سچ کہوں، آپ نے پہلا معرکہ انتخابی مہم کے دوران اپنے غیر سیاسی و انوکھے انداز گفتگو سے جیتا، ہلیری کیمپ طعنہ زن تھا، جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو، اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا۔

مگر کتنے سادہ لوح تھے آپ کے مقابل کے پانچ کروڑ ووٹر۔ بڑا محشر بپا کیا بابا آپ نے۔ ان ریپبلکنز کو بھی شرمندہ و حیران کردیا جو آپ کی نامزدگی کے فوراً بعد معترض ہوئے کہ ظالمو کس مجذوب کاروباری کو نامزد کیا اور اب اس بدزبان کو کیسے میکدہ سے نکال دیں۔ مگر جنگ کے دوران گھوڑے کیسے تبدیل کریں، ممکن ہی نہ تھا۔ ہلیری کے ووٹر اور مہم ساز اسی انتظار میں تھے کہ آپ اپنے دام میں صیاد آئے گا، خود ہی خودکش حملہ کی نذر ہوجائے گا۔ بلغاریہ کی ایک نابینا مجذوب خاتون نے اپنے باطنی علم سے میڈیا کو آگاہ کیا ہے کہ اوباما امریکا کے آخری صدر ہوں گے، ٹرمپ کی تو باری ہی نہیں آئے گی۔

جرمنی کے ایک میگزین کا بھی یہی کہنا ہے کہ آپ کی حکمرانی دنیا کے خاتمے کا اعلان ہے۔ سازشی نظریات پیش کرنے والوں نے بابا جی آپ کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سولہویں صدی کے نجومی ناسٹر ڈیمس کا کہنا ہے کہ ایک عظیم گستاخ، بے شرم اور منہ پھٹ شخص فوج کا گورنر منتخب ہوگا، جس کے انتخاب سے سارے پل ٹوٹ جائیں گے اور شہر خوف سے بے ہوش ہوجائے گا۔ ادھر امریکا کے طول و عرض میں مخالفین ہنگامہ آرائی کررہے ہیں، آپ کے پتلے جلائے جارہے ہیں۔

آپ کو خط لکھنے کی آرزو اس لیے بھی تھی کہ آپ کو ڈاکومنٹری فلمیں بنانے والے ہنگامہ پرور فلم پروڈیوسر مائیکل مور اور جان مون بیوٹ جیسے جہاں دیدہ اور منجھے ہوئے تجزیہ کار کی رائے سے آگاہ کریں۔ مائیکل مور نے جولائی 2016 میں آپ کی جیت کا غلغلہ بلند کیا اور 5 اسباب ایسے گنوائے جو آپ کی کھڑکی توڑ کامیابی کی ناقابل تردید پیشگوئی تھی۔ مور کو سنسنی پھیلانے والا الارمسٹ قرار دیا گیا، ان کا مذاق اڑایا گیا۔ تاہم مور کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی اور پورے کیریئر میں کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا جس پر مجھے بعد میں شرمندہ ہونا پڑا ہو۔ چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ لکھ لو ٹرمپ کی فتح یقینی ہے، وہ جاہل گنوار ہے، فحش گو ہے، خطرناک ہے، مگر میرا اور سب امریکیوں کا ہونے والا صدر ہے۔

مور کی تھیوری یہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کسی ریاست کے ووٹوں کی مجبوری نہیں، اسے مشی گن، پنسلوانیا، اوہائیو اور وسکانسن کے الیکٹورل ووٹ ملنے چاہئیں، باقی ووٹ اس کے گلشن میں خود بہ خود مہک اٹھیں گے۔ بابا جی! واقعی آپ نے ان ہی ریاستوں میں مرلی بجائی اور جارجیا سے لے کر ایڈاہو تک ووٹروں کو سحر میں جکڑے رکھا۔ ان ریاستوں نے کبھی ہلیری کو ووٹ نہیں دیا، آپ کو فلوریڈا، کولوراڈو اور ورجینیا کی ضرورت نہیں تھی۔ بابا جی، اسی مائیکل مور نے بتایا کہ اوباما کے مخالف وٹ رومنی کو گزشتہ صدارتی انتخاب میں 64 الیکٹورل ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ یہ ووٹ پنسلوانیا، مشی گن، ایڈاہو اور وسکانسن کے تھے، کیونکہ ان ہی ریاستوں کے جمع شدہ ووٹوں کی تعداد 64 تھی۔

کیا قیامت خیز تجزیہ اور پیش بینی تھی۔ ہاں البتہ ایک اور پیشگوئی انھوں نے آپ کے بارے میں کی ہے، جو آپ کی کامیابی سے زیادہ ہولناک ہے۔ مور کہتے ہیں کہ جس طرح ٹرمپ کی کامیابی کا پانچ نکاتی راز میرے پاس تھا، اسی طرح ان کی ایڑھی کے زخم (Achilles Heel) کا طلسم ہوشربا بھی میرے سینے میں پوشیدہ ہے، جس کا میں آیندہ اپنے کسی بلاگ میں بتاؤں گا کہ کیا چیز اور کون سا فیصلہ ٹرمپ کے صدارتی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کے امریکا بیزار ممالک شاید یہی دعا مانگ رہے ہوں گے کہ وہ فیصلہ کن اقدام بابا جی آپ جلد از جلد کرلیں۔

کتنا ظلم ہے کہ لوگ آپ کی صدارتی فلم کا ’دی اینڈ‘ جلد چاہتے ہیں۔ دنیا بڑی سنگدل ہے، مگر ہم آپ کے خیر خواہوں میں ہیں بابا۔ چاہتے ہیں کہ امریکا کے مردہ سیاسی ضمیر میں آپ ہی کوئی تیر نیم کش جیسی خلش پیدا کریں، اس کا سامراجی مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، دنیا کو چین ملے، حلیف ملکوں کو غلام سمجھنے کی روش بدلے، امریکی انتخابی نظام کے کھوکھلے پن، اس کی عالمی چیرہ دستیوں کا باب بند ہو۔ آپ گورباچوف بنیں گے تو ٹرمپ ازم کا کیا بنے گا؟ بلکہ کوشش کریں کہ نیلسن منڈیلا کا دوسرا جنم ثابت ہوں۔

ایسی مصالحت اور مفاہمت آپ کی پالیسیوں کی بین الاقوامی اساس بنے جس سے غربت ختم ہو، دہشتگردی کا جنازہ اٹھے۔ بابا جی آپ ہی اسے کاندھا دیں۔ نسل پرستی اور جنگوں کا خاتمہ ہو، لاکھوں پناہ گزینوں کو امن کے ماحول میں اپنے گھروں اور لٹے پٹے ملکوں میں واپس لوٹنے کا موقع نصیب ہو۔ امریکا کی دہشتگردی صرف جنگوں، اسلحہ کی تجارت، دنیا بھر کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، استحصال، ڈپلومیسی اور سفارتکاری تک محدود نہیں، ہالی ووڈ کی لاکھوں بیہودہ و ننگ فن فلموں نے 40 کی دہائی سے بلیک اینڈ وائٹ اور بعد میں رنگین کلر اسکوپ، 70 ایم ایم اسکوپ پردہ سیمیں پر دہشت انگیز اور تشدد و جنس پر مبنی فلموں کے دریا بہائے۔ بابا جی، معاف فرمائیں، ہالی ووڈ نے فلم میڈیم کو عروج و زوال سے دوچار کیا، مگر دہشتگردی کے فلمی تصور کو اسکرپٹ کے عالمی سنہری طشت میں رکھ کر ہم نے اہل دنیا کو پیش کیا۔ نیٹ کے خالقوں کو سلام، مگر اسی نیٹ نے بنت حوا کو رسوا کیا ہے، پورنوگرافی کی انڈسٹری امریکا و یورپ کا تشخص تھی، اسے ہماری تہذیبی شاخ کو کاٹنے پر لگا دیا۔

مان لیجیے، آپ سے پہلے سابق صدر بش نے ہالی ووڈ کے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر حضرات کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کرکے بچوں کی کارٹون فلموں میں تشدد وجنس پر تشویش اور برہمی ظاہر کی تھی۔ جنگ وجدل، خونریزی، اذیت، ہارر موویز، اور پھر وی سی آر، نیٹ، ڈی وی ڈیز نے عالمی معاشرے کو ہالی ووڈآئزیشن کے سیلاب میں غرق کردیا، رہی سہی کسر بھارتی ثقافتی یلغار نے پوری کردی۔ صدر محترم، آپ کچھ کریں یا نہ کریں، کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ منصفانہ طور پر حل کرا دیں، عالم اسلام کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا، آپکے گناہ معاف ہوجائیں گے، اگر آپ گناہوں پر ایمان رکھتے ہوں۔

پھر بھی آپ کے آباؤ اجداد اور پیشرو صدور اور مشاہیر نے جس آزادی ضمیر، انسانیت، مساوات، میرٹ، جمہوری اقدار و روایات اور رواداری کا سبق دیا تھا اس کی تاریخ کا نیا باب آپ لکھیں۔ امریکا پر غلامی کے روح فرسا اور شرمناک ادارہ جاتی مظالم کے ان گنت الزامات عائد کیے گئے، جن کی حقیقت اب ثابت ہوچکی ہے، غلامی ختم ہوچکی، آج امریکا کی سیاہ فام آبادی کے لاکھوں بلیک ڈائمنڈز افریقہ، افروایشیا اور امریکا و یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں۔

بابا جی! غلامی پر ہیریٹ بیچر سٹو کے عہد آفریں اور ضمیر کو جھنجوڑنے والے ناول ’’انکل ٹامز کیبن‘‘ کو میں بڑی اسکرین پر 1960 میں دیکھ چکا ہوں۔ ہربرٹ لوم اس فلم کے ولن تھے، جیسے آپ کو جیت کی خوشی میں ہیرو آف امریکا کے بجائے ولن ثابت کیا جارہا ہے، اسی فلم میں او ڈبلیو فشر کی درد انگیز اداکاری مجھے آج تک یاد ہے، جس نے آزادی کی تڑپ سینہ میں چھپائے تیر کر مسی سپی دریا پار کرنا چاہا تھا، مگر اسی سفاک مگرمچھ کا نوالہ بن گیا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔