ترک حکومت نے نیوی کے291 اہلکار معطل کر دیے، آپریشن میں100دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ

خبر ایجنسیاں / نیٹ نیوز  پير 14 نومبر 2016
ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک صدر اردوان کی حکومت ایک لاکھ 10ہزار ججوں، اساتذہ، پولیس اور سرکاری اہلکارووں کو معطل یا فارغ کر چکی ہے جبکہ 36 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے
 فوٹو:فائل

ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک صدر اردوان کی حکومت ایک لاکھ 10ہزار ججوں، اساتذہ، پولیس اور سرکاری اہلکارووں کو معطل یا فارغ کر چکی ہے جبکہ 36 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے فوٹو:فائل

 انقرہ / برلن: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد گولن تحریک سے وابستہ افراد اور اداروں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن جاری ہے، گزشتہ روز ترک حکومت نے نیوی سے تعلق رکھنے والے168 باقاعدہ اور123 بے قاعدہ افسران کو ان کے عہدوں سے معطل کر دیا ہے۔

ان افراد پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کا جولائی کے مہینے میں صدر رجب طیب اردوان کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت سے تعلق تھا، ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک صدر اردوان کی حکومت ایک لاکھ 10ہزار ججوں، اساتذہ، پولیس اور سرکاری اہلکارووں کو معطل یا فارغ کر چکی ہے جبکہ 36 ہزار افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، ادھر جرمنی کے شہر کولون میں کردوں اور علوی عقیدے سے تعلق رکھنے والے10 ہزار افراد نے ترک صدر کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی، اس موقع پر مظاہرین نے ایسے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے رہنما عبداللہ اوجلان کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، یہ کرد رہنما اس وقت ترکی میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

دریں اثنا ترک فورسز نے ضلع تنجیلی میں فوجی کارروائیوں کے دوران100دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور بھاری تعداد میں اسلحے کو قبضے میں لے لیا گیا ہے، حالیہ دنوں ترکی میں 370 غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، اب ان این جی اوز کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے، ترک حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں سیکڑوں غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر سیل کر دیے گئے ہیں، ان میں انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والے ادارے اور بچوں کی بہبود کی تنظیمیں بھی شامل ہیں، قبل ازیں جمعے کے روز ترک وزارت داخلہ کی طرف سے سیکڑوں تنظیموں کے دفاتر سیل کیے جانے کی تصدیق کی گئی تھی، نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تنظیموں پر مکمل پابندی عائد نہیں کی گئی البتہ ان کی سرگرمیوں کو بند کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔