سوشل میڈیا کے لاعلم جنونی

نصرت جاوید  منگل 18 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

نیویارک ٹائمز کا تھامس فریڈمین (Thomas Friedman) محض ایک کالم نگار ہی نہیں امریکی پالیسی ساز اداروں میں بڑا اثر رکھنے والا مفکر بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد اور اس کے طوفانی رفتار سے پورے کرہ ارض میں  استعمال کے بعد اس نے اعلان کیا کہ دنیا اب گول نہیں  رہی چپٹی ہو گئی ہے۔ ملکوں اور براعظموں کے درمیان فاصلے برقرار نہیں ر ہے۔ امریکی اسٹوروں پر بکنے والا سامان چین میں بنایا جا رہا ہے۔ شکاگو میں بیٹھ کر اپنے جہاز کی سیٹ کنفرم کرنے کے  لیے آپ فون ملاتے ہیں تو جواب بھارت کے کسی شہر میں بنائے گئے کال سینٹر سے دیا جاتا ہے۔ دن اور رات کا فرق بھی برقرار نہیں رہا۔

نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کے نمودار ہونے سے کئی برس پہلے اس نے تواتر کے ساتھ ایسے کالم  لکھے جن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عرب عوام کی اکثریت امریکا سے نفرت صرف اس وجہ سے نہیں کرتی کہ وہ مسلمان  ہے اور  امریکی حکومت کی اسرائیل کی پشت پناہی سے بیزار۔ ان کی نفرت کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو ظالم اور عیاش ہیں۔ امریکا مگر ان حکمرانوں کی چاپلوسی پر مجبور ہے کیوں کہ وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فریڈ مین مسلسل یہ لکھتا چلا گیا کہ جب تک امریکا مشرق وسطیٰ کے تیل پر اپنا انحصار ختم نہیں کرتا، عرب دنیا میں جمہوری سماج کے قیام میں رکاوٹیں دور نہیں ہوں گی اور غلام بنائے گئے عرب نوجوانوں کی اکثریت شدید غصے اور نفرت سے مجبور ہو کر امریکا اور اس کے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتی رہے گی۔

فریڈ مین جیسے لکھاریوں کی وجہ سے امریکی یونیورسٹیوں میں تیل کے متبادل ذرایع ڈھونڈنے کے لیے تحقیق کے نئے راستے کھلے۔ ساتھ ہی ساتھ ان طریقوں کی تلاش بھی شروع ہو گئی جن کے ذریعے امریکا اپنے ملک میں ہی موجود تیل کے ذخائر کو نسبتاََ سستی سرمایہ کاری کے ذریعے قابل استعمال بنا سکے۔ بالآخر Fracking نام کی ایک نئی ٹیکنالوجی آ گئی ہے۔ اوباما نے اپنے پہلے چار سالوں میں اس کے فروغ کی بھرپور سرپرستی کی۔ اسی کی بدولت اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صرف آٹھ سال بعد یعنی 2020 میں امریکا تیل درآمد کرنے والا ملک نہیں رہے گا۔ روشن امکانات تو اس بات کے نظر آ رہے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں تیل پیدا کر کے برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن جائے گا۔

میں نے یہ ساری باتیں اس لیے لکھی ہیں کہ پاکستانی نوجوانوں کی ایک  بڑی تعداد ’’انٹرنیٹ جہادیوں‘‘ میں تبدل ہو چکی ہے۔ غیر مسلم اور خاص کر امریکی لکھاریوں کے حوالے دو تو وہ تلملا کر میرے جیسے ’’مغربی سوچ کے غلاموں‘‘ کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ میں تو انھیں خاطر میں نہیں لاتا۔ مگر بہت سارے لوگوں نے صرف اسی گروہ کے خوف سے سوچ بچار کے بعد غور و فکر پر اکسانے والی  باتیں لکھنا چھوڑ دیں ہیں۔ خوف کے مارے دبکے رہتے ہیں یا اِدھر اُدھر کی ہانک کر وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فریڈ مین کا تذکرہ میں اس وجہ سے کرنے پر بھی مجبور ہوا کہ اس نے گزشتہ ہفتے ایک بہت پڑھا جانے والا کالم بھی لکھا۔ اس کا موضوع تو مصر کے موجودہ حالات تھے مگر اس کی سرخی میں سوال کیا گیا کہ آیا مصر مستقبل کا پاکستان بن رہا ہے یا بھارت۔ مجھے شاید یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ فریڈ مین کی خواہش تھی کہ مصر بھارت کے راستے پر چلے۔ اس نے اپنی خواہش کے جواز میں جو وجوہات گنوائیں وہ کافی مقبول تھیں۔ مگر بطور ایک پاکستانی کے مجھے وہ سب پڑھ کر بہت دُکھ ہوا۔ محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے اقبال اور قائد اعظم کے بارے میں جو کچھ پڑھا اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ وہ دونوں برصغیر میں مسلمانوں کا ایک الگ ملک بنا کر اسے ایک ایسا جدید، روشن خیال اور جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے جو دنیا کے دوسرے اسلامی ملکوں کے لیے ایک زندہ مثال بن سکے۔

فریڈ مین کے مضمون سے مجھے بڑے دُکھ کے ساتھ ایک بار پھر یاد آ گیا کہ ہم وہ مثال نہ بن پائے۔ ارادہ باندھ لیا کہ اپنے اس کالم میں آپ کے ساتھ اپنا دکھ بانٹتے ہوئے یہ سوال اٹھائوں کہ ہم اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تکمیل کیوں نہ کر پائے۔ مگر پیر کی صبح یہ کالم لکھنے سے پہلے اپنے اخبارات دیکھے، انٹرنیٹ پر آئے پیغامات پڑھے تو اس سوچ میں ڈوب گیا کہ میں جو سوالات کرنا چاہتا ہوں اسے کون لوگ پڑھنا اور ان پر غور کرنا چاہیں گے۔ میں نے جو اخبارات پڑھے اور جو پیغامات ملے ان کی پوری توجہ تو یہ پتہ لگانے پر مرکوز تھی کہ پشاور میں جو ایک غیر ملکی دہشت گرد مارا گیا ہے اس کی پشت پر بنے Tattooسے کیا ثابت ہوتا ہے۔

لال ٹوپی والے رنگیلے اور ’’تبدیلی کے نشان‘‘ کے بہت سارے پروانوں اور متوالوں نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ مر جانے والے دہشت گرد کی پشت پر کھدا نشان ثابت کرتا ہے کہ وہ ’’مسلمان‘‘ نہیں تھا۔ اگر مسلمان گھرانے سے تھا بھی تو ’’اچھا‘‘ مسلمان نہیں تھا کیونکہ اچھے مسلمان کو پوری طرح پتہ ہے کہ اپنے جسم پر نشانات کھدوانے کے بعد آپ کا غسل وضو اور نماز جائز نہیں رہتے۔ اپنی پشت پر کھدے نشان سے دہشت گرد نے ثابت کر دیا کہ وہ بھارت، اسرائیل یا امریکا کے لیے کام کرنے والا ایک تخریب کار تھا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تباہی اور غارت گری پھیلانے پر مامور کیا گیا تھا۔

ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بار بار بتائے جا رہے ہیں کہ پشاور میں مارے جانے والے دہشت گردوں میں ازبکستان اور داغستان سے آئے غیر ملکی بھی شامل تھے۔ مگر ہم ان کی بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔ انٹرنیٹ پر گھنٹوں بیٹھ کر ’’جہاد‘‘ برپا کرنے والوں کی اکثریت کو یہ علم ہی نہیں کہ افغانستان میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے والی لہر نے ازبکستان کا رخ بھی کر لیا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام  کے بعد وہاں سے نوجوانوں  کی ایک بڑی تعداد افغانستان آئی اور ’’اسلامی موومنٹ فار ازبکستان(IMU)‘‘ کی بنیاد ڈال دی۔ نائن الیون  کے بعد امریکنوں نے ا فغانستان پر حملہ کیا تو یہ لوگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آن بسے۔ ان میں سے کافی لوگوں نے وہاں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ ان کے بچے وہیں  بڑے ہوئے ہیں۔ روانی سے پشتو بولتے ہیں۔ انھیں مقامی معاشروں سے الگ سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔

2002 کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، وہ ہمارے ہر وقت مستعد بنے صحافیوں نے اپنے لوگوں کو سمجھائی ہی نہیں۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ امریکی ڈرون آتے ہیں اور ہمارے قبائلی علاقوں میں رہنے والے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور ہماری ’’غلام حکومت‘‘ اُف تک نہیں کرتی۔ سارا  زور ’’قومی خود مختاری‘‘ کی بحالی پر صرف ہو رہا ہے۔ جنون کے اس موسم میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ تھامس فریڈ مین جیسے امریکیوں کی تحریریں پڑھ کر ان پر غور کرے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔