ہم نے ٹرمپ کو خط لکھا (آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  پير 14 نومبر 2016

بھولا نہیں مجھے وہ غلام قیدی (اور نہ جہاز پر سوار وہ سیاہ فام غلاموں کے اداس چہرے ) جو جہاز سے چھلانگ مار کر دریا میں کودتے ہوئے ، الوداع ساتھیو کہتے ہوئے موت کے منہ میں چلا گیا۔ ٹرمپ بابا ، موت و بربادی کو امریکا کی تجارتی سیاست و سماج اور بین الاقوامی سفارت کاری اور تزویراتی لغت سے نکال دو، موت کو مار دو۔ زندگی کا پیغام عام کرو، عنایت ہوگی۔

پھر آپ ’’روٹس‘‘ کی سیریل دیکھیں، ایلکس ہیلے کی چالیس سالہ تحقیق آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی۔ میں منتظر ہوں کہ آپ کو دنیا بش سے بڑا دہشتگرد نہ سمجھے، آپ نیلسن منڈیلا کی انسان دوست روایت پر چلیں، اسی میں عزت ہے، اپنے کو تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن، کینیڈی، روزویلٹ، ڈیگال، جمال ناصر، سوئیکارنو، ماؤزے تنگ اور چرچل جیسی سیاسی شخصیت کے قالب میں ڈھالیں۔ مشورہ بلامعاوضہ ہے، بزرگوں سے کیا پیسے لینا۔

اب آئیے برطانیہ کے موقر اخبار ’’گارجین‘‘ میں شایع ہونے والے مون بیوٹ کے مضمون کی چشم کشا باتیں پڑھتے ہیں، جو آپ کی جیت سے پہلے وہ لکھتے رہے۔ کہتے ہیں کہ ٹرمپ آؤٹ سائیڈر (اجنبی) نہیں تھا، بلکہ اس نے ہمیں ہمارا اصلی چہرہ دکھا دیا، وہ اس امریکی نوجوان سے مخاطب ہوا جسے سسٹم نے پیس کر رکھ دیا ہے، کیا چیز ٹرمپ کو دوسرے سیاست دانوں سے مختلف بناتی ہے، اس کی دروغ گوئی، نسلی تعصب، بے تحاشہ دولت، خواتین سے اس کی بدسلوکی، اور یہ دھمکی کہ الیکشن ہار گیا تو نتائج نہیں مانوں گا۔ یہاں کچھ کچھ اپنے کپتان عمران خان یاد آئے، وہ بھی ہمارے لیے ٹرمپ ہیں۔

جان مون بیوٹ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ نے ان ہی اقدار کو اپنے پیکر کا حصہ بنایا جو میڈیا اور کارپوریٹ کلچر کا طرۂ امتیازہے، جو ایک طرف امریکا میں نظر آتا، دوسری جانب دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔ بابا جی، ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں دنیا بھر کا فلمی کلچر اور کچرا ملتا ہے مگر اپنا نفیس و شفاف پاکستانی فلم کلچر ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے، کی تکرار میں دب جاتا ہے۔

کہا گیا کہ اسی طرز سخن کو جو معیوب سمجھا گیا، ٹرمپ نے اپنی شعلہ بیانی اور بیہودہ گوئی یا تہذیب سے عاری گفتگو میں نمایاں کیا۔ یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ٹرمپ نے نسلی منافرت اور بدکلامی یا فحش گوئی پر مبنی طرز سخن کی تکلیف دہ مہم خود ایجاد کی؟ اسے میرا اضافی سوال سمجھئے کہ کیا وہ امریکا کے نئے کولمبس ہیں جنھوں نے ووٹرز کی نئی دنیا دریافت کی؟ مون بیوٹ کا پوچھنا ہے کہ کیا انھوں نے الیکشن کی چوری اور مقابل امیدواروں کی کردار کشی اور ان کے مجرمانہ بیک گراؤنڈ کی سازشی تھیوریاں اپنے زور تخیل سے پیش کیں؟ وہ کہتے ہیں، جی نہیں! یہ سارا سیاسی کلچر پہلے سے چل رہا تھا، امریکی جمہوریت اب اتنی کرپٹ ہے کہ اسے جمہوریت کہتے ہوئے ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔

امریکی سیاسی نظام مریضانہ ہے۔ وہ امریکا کے چوتھے صدر جیمز میڈیسن کا حوالہ دیتے ہیں کہ 1787 میں دسویں فیڈرل پیپرز کے حوالہ سے دلائل دیتے ہوئے میڈیسن نے کہا تھا کہ بڑی جمہوریائیں بہ نسبت چھوٹی جمہوریہ کے کرپشن کے خلاف بچاؤ اور اس کے انسداد کے لیے موثر ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں شہریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہونے کے باعث غلط اور بدقماش و نااہل افراد انتخابات میں امیدوار بن کر ناشائستہ اور بدعنوانی جیسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرسکتے جو عموماً سیاست کا رواج ہے، ایک بڑا الیکٹوریٹ چھوٹے اقلیتی گروہوں کے حقوق کا تحفظ کرتا اور سسٹم ان کی مدد کرتا ہے، اگر سیاسی نظام وسیع پیمانے پر ہو تو اس کی چھلنی سے اہل فکر ونظر نکھر کر سامنے آتے ہیں، وہ سسٹم کا حصہ بنتے ہیں۔

مگر بابا جی، مون بیوٹ آنسو بہاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج امریکی جمہوریہ کے بڑے الیکٹوریٹ پر چھوٹا سا گروہ قبضہ کیے ہوئے ہے۔ اور جیمز میڈیسن کے بقول جمہوریت نامنصفانہ اور مفاد پرست اکثریتی جماعت کی خفیہ خواہشات کے ذریعے حکمرانی کرتی ہے۔ ٹرمپ کا پیرایۂ اظہار اس کی غلطی نہیں، یہ امریکن کلچر اور لسانی تہذیب سے ناآشنا سیاست دانوں کی ہے، ورنہ بش کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے؟ سارا امریکا ٹرمپ کا دشمن بن گیا، کیوں؟ دیکھا جائے تو پوری امریکی سیاست ہالی ووڈ کی جنگی فلموں کا صنم خانہ ہے۔

یہ باتیں آپ کے الیکشن میں کامیابی سے بہت پہلے کہی گئیں۔ بابا جی آپ کو عفریت کہا گیا۔ یہ امریکیوں کی عادت ہے، وہ خود کو خوفزدہ کرنے اور اپنے اندر چھپنے کی عجیب نرگسیت میں مبتلا ہیں جب کہ ٹرمپ تو امریکی تہذیب سے کشید کیا ہوا شخص ہے۔ واہ کیا بات کہی۔ وہ وہی کچھ بولتا ہے جس کی ہم تمنا رکھتے یا جس کی تحسین کرتے ہیں، وہ کسی کی تضحیک کرتا ہے اس لیے نہیں کہ اس سے امریکی تہذیب کی بنیادی قدروں کی نفی ہوتی ہے، بلکہ وہ ان قدروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، وہ دنیا کو ٹھوکر مارتا ہے، جس میں وہ پیدا ہوا ہے، ہر امیر آدمی غریب کو ٹھوکر مارتا ہے۔ وہ دولت، شہرت، چاہت، حسن، گلیمر، اختیار اور ہوسناکی کا مرقع ہے۔ کچھ جبلی اقدار ہیں جن کی امریکی قوم دنیا بھر میں چمپیئن بنی ہوئی ہے۔

ٹرمپ کی انانیت ہمارے عہد کے مروجہ بیانئے کے ہم دوش ہے۔ وہ انٹرپرائز اور اسکلskill کا اشتہار ہے۔ اگر اس کی سیاست ماڈرن ریپبلکن پارٹی سے مختلف نظر آتی ہے تو اس لیے کہ وہ اس بے مروت پارٹی والوں سے جدا نظر آتا ہے، وہ ان سے کہیں زیادہ لبرل ہے، منہ پھٹ ہے، ’’ بد خلق امریکن Ugly American ہے‘‘۔ یہ میرا اضافی جملہ ہے، گستاخی معاف، گورا رائٹر کہتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی نے ہر نیکی کو بدی اور ہر بدی کو نیکی میں بدل دیا ہے، اس پارٹی نے ایثار، مروت، سخاوت، صلہ رحمی، وفا شعاری، سیاسی تحفط و اقدار کے نظام کو زمیں بوس کردیا ہے۔ اس پر شدید حملے کیے ہیں۔ اس کے نزدیک ہمدردی، قربانی، وفا اور انسانی رشتوں کا دور لد گیا۔ کھلا کھاؤ کھلا ناچو گاؤ۔ پورا امریکی الیکٹورل پراسیس عام ووٹر کے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے چوری کر لیا گیا۔ صدقے جاؤں مون بیوٹ! پاکستانیوں کا درد جگادیا۔

قصہ مختصر ہم نے ٹرمپ کو خط لکھا جس نے انکل سام کے برسوں پرانے انتخابی نظام کو ہرکولیس کی طرح اٹھا کر دور پھینک دیا۔

بابا جی! نومبر کو آپ کے مخالف امریکی ووٹر اپنے ہاتھوں کی غائب لکیروں سے پریشان ہوگئے کہ اس منہ پھٹ اجنبی کے پاس کون سی گیڈر سنگھی تھی کہ پورے جمے جمائے امریکی انتخابی نظام اور خوابوں کی نگری کو اجاڑ کر رکھ دیا، پولنگ محفل میں ایک غارت گر ہوش آیا، وہ آپ ہی تھے۔ لیکن ایک منٹ رکیے ایک ’’ڈومز ڈے‘‘ سیناریو یہ ہے کہ آپ کی فتح آپ کے مخالفین کو ہضم نہیں ہورہی، اس کی تاویل و توضیع سیاسی مدبرین، ارباب حکومت، سفارتی حلقے، مختلف دانشور، تجزیہ کار، کالم نویس اور مبصرین کمال طریقے سے کررہے ہیں۔ ٹرمپ بابا، آپ نے ثابت کیا کہ بلاشبہ ’’روم واز ناٹ ان اے ڈے‘‘ مگر امریکی رومتہ الکبریٰ کا آپ نے ایک دن میں دھڑن تختہ کردیا۔

اس خط کے لکھنے کا مقصد اور کچھ نہیں، ہم صرف ان چند تجزیوں سے آپ کے ناقدین کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جنھوں نے آپ کو سیریس نہیں لیا۔ Taken for granted سمجھا، یہ جن کا گمان تھا کہ آپ کو کوچہ رقیب میں دیکھ کر کہیں گے کہ تیرا کیا ہوگا کالیا؟ ڈیموکریٹس کا ایمان تھا کہ میراتھن الیکشن ریس میں آپ کا دم نصف دوڑ میں ہی نکل جائے گا، حالانکہ عمر کے لحاظ سے ہلیری اور آپ کے درمیان ایک سال کا فرق تھا۔

آپ کی جیت بھی ہمہ آتشہ رہی، آپ سروے ہارے، ساری ریٹنگ ناکام رہی، اہم مناظرے میں سبکی و پسپائی کے طعنے ملے، میڈیا کے سارے مگرمچھ آپ کی تاک میں، پلڑا کسی اور کا بھاری تھا، عجیب، الیکٹورل جیت آپ کی رہی، یعنی ہلیری نے آپ سے پونے دو لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے۔ اربن ووٹ وہ لے گئیں، پاپولر، دیہی ووٹر آپ کے ساتھ تھے، ہلیری ہار گئیں، مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ کہا جارہا تھا وہ سائیڈ میچ ہوگا تاہم کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ ان کے ٹوٹل ووٹ 5 کروڑ 93 لاکھ 90 ہزار  تھے اور آپ نے 5 کروڑ 92 لاکھ 15 ہزار ووٹ لیے۔ برا ہو اس نام نہاد الیکٹورل ووٹنگ کا جس میں اوباما کے خلاف وٹ رومنی بھی64 الیکٹورل ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔