تین مرد، تین کہانیاں

اقبال خورشید  پير 14 نومبر 2016

جب مسلم لیگ کے ایک سینئر رہنما نے گورنر ہاؤس سے دہشت گردی کی آخری نشانی کے خاتمے کا سنسنی خیز اعلان کیا، تب میرے ذہن میں چودہ برس پہلے کی وہ صبح تھی، جب اخباروں میں گورنر ہاؤس کے نئے مکین کا تذکرہ شہ سرخیوں میں شایع ہوا تھا۔ گو ڈیڑھ عشرہ بیت گیا، گر لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔

پرویز مشرف کا دور تھا، اور جس شخص کو گورنر سندھ بنانے کا اعلان ہوا تھا، اس پر سنگین مقدمات تھے۔ مقدمات، جنھیں بہ جنبش قلم ختم کردیا گیا (یہی آمریت کا حسن ہے) گو ماضی میں ہونے والے آپریشن اور اس سے جڑے انکشافات کے باعث ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرعشرت العباد کی شبیہ خاصی منفی تھی، مگر منصب سنبھالنے کے بعد ان کی سیاسی بصیرت اور سنجیدگی نے جلد انھیںسسٹم کا مضبوط حصہ بنادیا۔

اکیسویں صدی کے اوائل میں دنیا میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جو لہر اٹھی، اس کا اصل ماخذ تو 9/11 کا سانحہ تھا، جس سے جڑے ’’متوازی نظریات‘‘ کبھی کبھار اشیاء سے ٹھوس معلوم ہوتے ہیں۔ یہ موقف درست کہ مشرف سرکار ذرا بہتر اور دلیرانہ فیصلے کرسکتی تھی، شاید آج حالات اتنے سنگین نہ ہوتے، مگر یہ کہنا کہ اس خطے کو جنگ اور دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی اکلوتی ذمے دار مشرف حکومت ہے، شاید زیادتی ہو۔ البتہ ایک شے کا سہرا سابق آمر کے سر، اور یہ ہے؛ 12 مئی۔ ایک تاریخ، جو آئی، اور ٹھہر گئی۔

2008 کے بعد سندھ پر پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی نامی خونیں تکون قائم ہوئی، تو ہر سال یہ تاریخ اپنے ساتھ خون اور راکھ لانے لگی۔ کراچی کے محنت کش اپنی ماں بولی کے باعث نہیں، بلکہ مفادات پرست سیاسی جماعتوں اور موقع پرست حکومت کی وجہ سے بٹ گئے۔ دلچسپ امر یہ کہ ایم کیو ایم اور پی پی کے تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کے باوجود عشرت العباد کی گورنری کی راہ میں کوئی خاص رکاوٹ حائل نہیں ہوئی۔

صدر، وزیراعظم بدلے، وزیراعلیٰ تبدیل ہوئے، نئے کور کمانڈر آگئے، مگر عشرت العباد وہیں رہے، اسی گورنر ہاؤس میں۔ یہاں تک کہ جب میاں صاحب نے تیسری بار وزیراعظم کا منصب سنبھالا، تب بھی وہ اپنی افادیت ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔ ہاں، اب جب کہ ایم کیو ایم بکھر گئی ہے، ٹکڑوں میں بٹ گئی، مائنس ون کے بعد پلس ون کی بازگشت ہے، وہ بہرحال غیرمتعلقہ ہوگئے تھے۔ رہی سہی کسر مصطفیٰ کمال کے کامیاب حملے نے پوری کردی۔ دھیمے مزاج کے گورنر نے اپنی خاموشی توڑی، تو احساس ہوا، یہ ان کی خاموشی ہی تھی، جس نے انھیں سنبھال رکھا تھا۔

چاہے اصل وجہ خود کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ٹھہرانا ہو، رشوت کے الزامات ہوں یا متحدہ قائد کو اپنا محسن کہنا۔۔۔ ان کا جانا حیران کن نہیں۔ البتہ ن لیگ کے سینئر رہنما کے ضمیر کی ’’اچانک بیداری‘‘ ضرور حیران کن ہے۔ کہتے ہیں: جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے، وہ اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔ جب عشرت العباد سسٹم کا حصہ تھے، وفاق کے نمایندے تھے، گورنر ہاؤس میں چلتے پھرتے تھے، اگر ن لیگی رہنما اپنی شعلہ بیانی کی کچھ جھلکیاں اس زمانے میں دکھا دیتے، تو ان کے موقف میں بھی وزن ہوتا، اور کچھ قد بھی بڑھتا۔

سچ تو یہ ہے کہ اہل کراچی سے زیادہ یہ مسلم لیگ سندھ اور کراچی ڈویژن کے کارکن ہیں، جو جناب کے دبنگ بیانات اور عملی اقدامات کے منتظر رہے کہ وہ حیران ہیں، ایم کیو ایم کی شکست و ریخت، پی پی کی ناقص کارکردگی اور تحریک انصاف کی سیاسی ناپختگی کے باوجود ان کی جماعت خود کو سندھ، بالخصوص شہر قائد میں منظم کرنے میں کیوں ناکام رہی۔ ایک خلا ہے ادھر، مگر مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن اسے پُر کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ کچھ حلقوں کاخیال کہ ایک ن لیگی صاحب خود کو گورنر کی کرسی پر دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ سابق گورنر نے جب ’’ان کا ذاتی ملال‘‘ کہا، تو شاید اشارہ اسی جانب تھا۔

جہاں تک نئے گورنر کا تعلق، انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے، ایک بزرگ، شریف النفس اور اصول پسند شخص کو سوشل میڈیا ہی نہیں، بلکہ مین اسٹریم میڈیا میں بھی طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اتنی تنقید تو سابق گورنر پر چودہ برس میں نہیں ہوئی ہوگی۔ عجب صورت حال ہے۔ بے شک مخالفین ان پر میاں صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام دھرتے ہیں، اس ضمن میں عدلیہ کی جانب سے 93ء میں شریف حکومت کی بحالی اور 97ء میں میاں صاحب اور سجاد علی شاہ کے درمیان جنم لینے والے تنازع کا بالخصوص تذکرہ کیا جاتا ہے۔

بے شک، دونوں بار سعید الزماں صدیقی فیصلہ سازوں میں تھے۔ البتہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آپ کی ماضی کی غلطیاں اور کارنامہ نہیں ہوتے، بلکہ آپ کا آخری اور اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے، جو تاریخ کے اوراق پر آپ کے قد کا تعین کرتا ہے۔ بطور چیف جسٹس آف پاکستان انھوں نے پرویز مشرف کے دور میں، جب حالات کٹھن تھے، گھٹن تھی، پی سی او کے تحت حلف نہ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا، جس کے لیے پاکستانی تاریخ انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس روز جن چھ جج صاحبان نے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کیا تھا، ان میں جناب جسٹس وجیہہ الدین احمد بھی شامل تھے، جن کے خلوص اور ایمان داری پر چند برس بعد عمران خان، جہانگیر ترین اور علیم خان کو ترجیح دینے والے تھے (اور یہ جمہوریت کا حسن ہے)

پاکستانی تاریخ میں روشن مثالوں کی کمی ہے صاحب۔ سعید الزماں صدیقی ایک قابل احترام شخص، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیں، گورنر کے کاندھوں پر صوبہ چلانے کی ذمے داری نہیں ہوتی اور سندھ میں جن کے کاندھوں پر یہ ذمے داری ہے، انھوں نے یہ کام جس مہارت اور سنجیدگی سے نبھایا، اُس کی سب کو خبر۔ ہاں، اس بات سے انکار نہیں کہ اگر مرکز ایک ایسے گورنر کا انتخاب کرتا، جو عشرت العباد کی طرح فعال ہوتا، مگر اس پر جرائم کے سنگین الزامات نہیں ہوتے، تو اُس فیصلے کو اِس فیصلے سے، بہرحال بہتر ٹھہرایا جاتا۔

تو عزیزو، جب نہال ہاشمی نے گورنر ہاؤس سے دہشت گردی کی آخری نشانی کے خاتمے کا سنسنی خیز اعلان کیا، تب میرے ذہن میں چودہ برس پہلے کی ایک صبح تھی۔۔۔ گو ڈیڑھ عشرہ بیت گیا، مگر لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔