باقی سب قید جھوٹی ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 16 نومبر 2016

جب ہم بات کو نہیں سمجھتے تو اپنے آپ سے الجھتے ہیں، اپنے آپ سے جھگڑتے ہیں۔ آج ہم سب اپنے آپ سے الجھے پڑے ہیں۔ اسی لیے کارل روجر نے کہا تھا ’’جو کچھ انتہائی ذاتی ہے وہ انتہائی عام ہے‘‘۔ ہمارے چاروں طرف بس چیختی چلاتی اور روتی آوازیں ہی آوازیں ہیں۔ ہر شخص سوچے سمجھے بغیر بس بولے ہی جارہا ہے، چیخے اور چلائے ہی جارہا ہے، سب کے سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ قید میں ہیں۔

کسی کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ اس کی خوشحالی، ترقی اور کامیابی قید کرلی گئی ہے، تو کوئی اپنے روزگار، اختیار، عزت کی رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے اور کسی کا کہنا ہے کہ اس کی تمام خوشیاں سلاخوں کے پیچھے پھینک دی گئی ہیں اور وہ سلاخوں سے اپنا سر پھوڑے جارہا ہے۔ ہر ایک کی شدید خواہش یہ ہی ہے کہ بس اسے کسی طرح رہائی مل جائے۔ وہ اپنی آواز کو قید کی جیلوں کے دروازوں پر پڑے تالوں کی چابی سمجھے بیٹھا ہوا ہے۔ عظیم صوفی شاعر بھگت کبیر کہتا ہے ’’خود ہی اپنے آپ کو بھول گئے ہو اور دوسروں کو دوش دے رہے ہو، خود ہی بندھ گئے ہو اور ذمے داری دوسروں پر ڈال رہے ہو‘‘۔

ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان مندر تعمیر کروایا، جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔ ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس مندر میں جا گھسا۔ رات کے وقت مندر کا رکھوالا مندر کا دروازہ بند کرکے چلا گیا، لیکن کتا مندر میں ہی رہ گیا۔ کتے نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے۔ اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا۔

اس کتے نے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنے دشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا، اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شاید وہ اس سے لڑ کر جیت سکتا تھا، لیکن اب کی بار اسے اپنی موت یقینی نظر آرہی تھی کیونکہ جس طرف آنکھ اٹھاتا اسے کتے ہی کتے نظر آتے تھے، اوپر اور نیچے چاروں طرف کتے ہی کتے نظر آرہے تھے۔

کتے نے بھونک کر ان کتو ں کو ڈرانا چاہا تو وہ ہزاروں کتے بھی بھونکنے لگے۔ اس کے بھونکنے کی آواز جب سنسان مندر میں گونج کر واپس لوٹی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ ہزاروں کتے بھونک رہے ہیں، اس کی نس نس کانپ اٹھی، اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ وہ چاروں طرف سے گھر چکا تھا، آپ اس کتے کا درد نہیں سمجھ سکتے، لیکن اگر آپ اپنی زندگی پر غور کریں تو آپ اس کتے کی حالت کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔ صبح جب پروہت نے مندر کا دروازہ کھولا تو مندر میں کتے کی لاش موجود تھی، اس مندر میں کوئی بھی موجود نہیں تھا جو اسے مارتا، مندر خالی تھا لیکن کتے کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات تھے اور وہ خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کتے کے ساتھ کیا ہوا؟

خوف کے عالم میں وہ کتا بھونکا، جھپٹا، دیواروں سے ٹکرایا اور اپنے بنائے ہوئے کتوں کے خوف سے مرگیا۔ وہ کتا دشمنوں کو مارتے مارتے خود مرگیا۔ سوچئے، پھر سوچئے، کہیں ہم وہ ہی کچھ تو نہیں کررہے جو کچھ اس کتے نے کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے لڑ رہے ہیں، اپنے آپ پر جھپٹ رہے ہیں، اپنے آپ کو ہی زخمی کیے جارہے ہیں۔ کہیں دوسرے کا سرے سے ہی وجود ہی نہ ہو۔ جب ہم اس سچائی کو جان لیں گے کہ ہمیں کسی نے نہیں باندھا ہے، ہم خود ہی بندھے ہوئے ہیں تو پھر ہمارے آزاد ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ کیونکہ اگر دوسرے نے تمہیں باندھا نہیں ہے تو دوسرا تمہیں آزاد کیسے کر سکتا ہے۔

یہ بات بہت ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچنے کی ہے کہ جن کی نسبت تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ انھوں نے تمہیں قید کر رکھا ہے، وہ تمہیں کیسے قید کر سکتے ہیں، وہ تو خود قیدی ہیں اور قیدی کسی دوسرے کو کیسے قید کر سکتا ہے۔ ذرا دل پہ ہاتھ دھر کر بتاؤ، کیا ہمارے حکمران، اشرافیہ، بیورو کریٹس، سیاست دان، مذہبی رہنما، سب کے سب عہدوں، رتبوں، طاقت، اختیار، زر و زمین، ملوں، جاگیروں، جائیداد کے قیدی نہیں ہیں؟

کیا وہ ان چیزوں کے لیے ایک دوسروں کو کچل نہیں رہے ہیں، روند نہیں رہے ہیں، ایک دوسروں کو زخمی نہیں کر رہے ہیں؟ کیا تمھیں ان کی حالت دیکھ کر ان کی اذیتیں دکھائی نہیں دیتی ہیں؟ کیا ان کی تکلیفوں اور درد کا تمہیں احساس نہیں ہوتا ہے، کیا ان کے عذابوں میں گرفتار ہونے کا تمہیں یقین نہیں ہے؟ یاد رکھو یہ تو سب خود قابل رحم ہیں، یہ تمہیں کیسے قید کر سکتے ہیں۔ یہ تو سب ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔

یہ مسلم سچائی ہے کہ ہم جس طرح مسئلے کو ’’دیکھتے‘‘ ہیں، اس طرح مسئلہ ’’ہوتا‘‘ ہے۔ آئیں وکٹر فرینکل کی کہانی سنتے ہیں جو ہمیں تمام سوالوں کو سمجھنے میں مدد دے گی۔

ژفرینکل فرائیڈین نفسیات کی روایت کا پیروکار تھا، اس روایت کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک بچے کے طور پر ہم جن حالات سے گزرتے ہیں اور ہمارے جو تجر بات ہوتے ہیں، وہ ہی بعد میں ہمارے کردار اور شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں اور ہماری بقیہ تمام زندگی ان ہی کے زیر اثر گزرتی ہے، بچپن میں ہی ہماری حدود اور معیارات کا تعین ہو جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعد کی زندگی میں ہم ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔

فرینکل ایک نفسیات دان تھا اور یہودی تھا، وہ نازی جرمنی کی جان لیوا قید میں چلا گیا، یہ اس قدر بھیانک قید تھی اور فرینکل نے اسی دوران جو کچھ دیکھا اور بعد میں بتایا اسے انسان کی شائستہ مزاجی دہرانے کی بھی اجازت نہیں دیتی اور انسان اسے یاد کر کے تھرتھرا جاتا ہے، اس کے ماں باپ، بھائی اور بیوی اسی کیمپ میں یا تو مر گئے یا پھر انھیں گیس کے تنوروں میں ڈال دیا گیا، سوائے اس کی ایک بہن کے اس کا تمام خاندان اس کیمپ میں مر کھپ گیا۔ فرنیکل نے خود بھی بے انتہا اذیتیں اور ذلتیں اٹھائیں۔ اسے اگلے لمحے کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اسے تنور میں پھینکے جانے والوں کی لاشیں نکالنی پڑیں گی یا ان کی راکھ سمیٹنی پڑے گی۔

ایک روز اپنے چھوٹے سے کمرے میں بے لباس اور تنہا بیٹھے ہوئے اس میں ایک آزادی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا۔ بعد میں فرینکل نے اسے ’’انسان کی آخری اور اصلی آزادی‘‘ کے نام سے یاد کیا۔ یہ ایسی آزادی تھی کہ جسے اس کے نازی جیلر بھی اس سے چھین نہیں سکتے تھے، وہ اس کے ماحول کو تو بھرپور طریقے سے کنٹرول کر سکتے تھے، اس کے جسم سے وہ جو چاہے سلوک کر سکتے تھے، لیکن وکٹر فرینکل اب ایسا خود آگاہ بن چکا تھا کہ وہ خود اپنے ہر معاملے یا حرکت کا مشاہدہ کر سکتا تھا ’’وہ اپنے اندر یہ فیصلہ کر سکتا تھا کہ یہ سب اس پر کس طرح اثرانداز ہو گا‘‘۔

رفتہ رفتہ اس نے بنیادی طور پر اپنی یادداشت اور تصورات کی مدد سے اپنے آپ کو ذہنی، جذباتی اور اخلاقی طور پر اس قدر سدھار لیا اور اس کی یہ چھوٹی سی آزادی اس قدر بھرپور ہو گئی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے نازی جیلروں کی نسبت زیادہ آزاد محسوس کرنے لگا، وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے مشعل راہ بن گیا، اس سے متاثر ہونے والوں میں اس کے پہرے دار بھی شامل تھے، اس نے دوسروں کے لیے ان کی اذیتیں پر معنی بنا دیں۔

آئیں ہم بھی اپنے آپ کو آزاد کر دیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی آزادی دلوانے میں ان کے مددگار بن جائیں۔ یاد رکھیں، انسان صرف اپنے آپ کو ہی قید میں رکھ سکتا ہے اور اپنے آپ کو ہی آزادی دے سکتا ہے۔ باقی سب قید جھوٹی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔