ٹرمپ کی جیت، امریکا کی ہار

اقبال خورشید  جمعرات 17 نومبر 2016
واقعہ یہ تھا کہ ایک ایسے شخص نے وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرلی جو امریکی معاشرتی اور جمہوری اقدار کے خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ فوٹو: فائل

واقعہ یہ تھا کہ ایک ایسے شخص نے وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرلی جو امریکی معاشرتی اور جمہوری اقدار کے خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ فوٹو: فائل

8 نومبر ایک غیرمتوقع دن تھا۔

عالمی اسٹاک ایکسچینج میں مندی دیکھی گئی، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی امیگریشن سائٹس کریش کرگئیں، لوگ احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے، کئی شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے، اور ایسے کارٹون بننے لگے، جن میں مجسمۂ آزادی گریہ کر رہا تھا۔

اس روز کچھ عجیب رونما ہوا تھا۔ امریکا کی دو سو سالہ، مضبوط ستونوں پر کھڑی جمہوریت لرزنے لگی۔ یہ 1789 کا سال تھا، جب جارج واشنگٹن نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا۔ آنے والے برسوں میں جنگیں ہوئیں، سیلاب آئے، سانحات ہوئے، مگر ہر چار برس بعد امریکا میں الیکشن منعقد ہوتے رہے۔ 58 بار انتخابی دنگل ہوا، 45 افراد منصب صدارت تک پہنچے۔ کبھی فوجی انقلاب نہیں آیا، مارشل لا نہیں لگا، انتخابی نتائج کو رد نہیں کیا گیا، دھرنا نہیں ہوا۔۔۔ تو پھر 8 نومبر کو ایسا کیا ہوا تھا کہ امریکی جمہوری نظام خطرات میں گھرا نظر آنے لگے۔

واقعہ یہ تھا کہ ایک ایسے شخص نے وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرلی جو امریکی معاشرتی اور جمہوری اقدار کے خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ جو امریکا کے روشن خیال چہرہ کو بگاڑ سکتا تھا۔ وہ ایک منہ پھٹ، متعصب، غصیل اور جارح شخص کی شہرت رکھتا تھا، جس پر غبن کے الزامات تھے، جو مخالفین پر بھونڈے جملے کسنے، الزامات لگانے، یہاں تک کہ خواتین سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ 8 نومبر کی رات۔۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر بن گیا تھا۔

نہ صرف امریکا، بلکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ صدمے میں تھا۔ امریکی صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے، اس کا فیصلہ پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے، ہر ملک کو بادل ناخواستہ اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اب ان کی قسمت ایک غیرسنجیدہ، غیرمحتاط اور غیرمتوازن شخص کے ہاتھ میں ہے، جو جاپان اور جنوبی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا ہول ناک مشورہ دیتا ہے، میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کرتا ہے، اتحادی ممالک کے سربراہان کی جاسوسی کی تجویز پیش کرتا ہے، مسلمانوں کی امیگریشن ختم کرنے اور غیرتارکین وطن کو دھکے دے کر باہر نکالنے کی یقین دہائی کرواتا ہے۔۔۔ بے شک امریکا ٹرمپ کی جیت پر صدمہ میں تھا، مگر کیا واقعی ٹرمپ کی جیت حیران کن تھی؟

کیا یہ سچ نہیں امریکا کے کئی بیدار ذہن پہلے ہی دعویٰ کرچکے تھے کہ اس بار ٹرمپ سرکار بنے گی۔ آئے، ایسی چند شخصیات سے ملتے ہیں۔

میں ہوں مائیکل مور!

بہت سے لوگوں نے ری پبلیکن پارٹی کا امیدوار بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا نام پہلی بار سنا، مگر مائیکل مور کی تو اس پر عشروں سے نظر ہے۔ ’’فارن ہائٹ 9/11‘‘ جیسی فلم بنا کر سنسنی پھیلانے والے مائیکل مور کو چوٹی کے فلم سازوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سیاسی نظریات بھی شناخت کا ایک اہم حوالہ۔ وہ ایک لبرل مبصر کے طور پر شناخت رکھتا ہے۔ ٹرمپ کے انتہاپسند نظریات کی وجہ سے مائیکل مور ابتدا سے اس کا ناقد رہا۔ اس نے ٹرمپ کی بیٹی آئیونیکا، جسے اب امریکا کی سب سے بااثر عورت تصور کیا جانے لگا ہے، کو ایک خط لکھا، اور کہا: ’’تمھارے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ دن بہ دن حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ انھیں مدد کی ضرورت ہے۔ کچھ کرو۔ سیاست بہت ہوگئی۔ انھیں اس بھیڑ سے دور لے جاؤ۔‘‘

اپنے اس مشورے اور ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود مائیکل مور نے کبھی حقائق سے نظریں نہیں چرائیں۔ یہی سبب کہ اس نے انتخابات سے کئی ماہ قبل 5 Reasons Why Trump Will Win نامی مضمون لکھ کر ٹرمپ مخالفین کو برانگیختہ کردیا۔ مضمون کے لیے اسے غیرضروری سنسنی پھیلانے والے الارمسٹ کا طعنہ بھی سننا پڑا۔ مضمون کے آغاز میں ٹرمپ کی جیت کی بری خبر قارئین تک پہچانے پر اس نے معذرت کی، پھر کہا: ’’میں نے پورے کیریئر میں کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا جس پر مجھے بعد میں شرمندہ ہونا پڑا ہو!‘‘

اس نے ایک ایک کرکے وہ پانچ اسباب گنوائے، جو اس فحش گو، غیرمحتاط اور نسل پرست شخص کی جیت کا سبب بنیں گے۔ مور کا خیال تھا، اگر ٹرمپ نے رسٹ بیلٹ کی چار ریاستوں؛ مشی گن، پنسلوانیا، اوہائیو اور وسکانسن کے الیکٹورل ووٹ اپنے نام کر لیے، تو باقی مراحل آسانی سے طے ہوجائیں گے۔ اسے فلوریڈا، کولوراڈو اور ورجینیا جیسے علاقوں کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں، جہاں ہیلری کی فتح یقینی ہے۔ اس کا موقف تھا کہ اس ’’سفید فام، مرد مرکز‘‘ معاشرے کو ہیلری کی آمد کی صورت اپنی حکم رانی اور بالادستی کھونے کا خوف لاحق ہوگیا ہے، جس کا فائدہ ٹرمپ کو ہوگا۔ ہیلری کی غیرمقبولیت کا بھی اس نے ذکر کیا، اور کہا؛  70فی صد ووٹرز اسے ناقابل اعتبار خیال کرتے تھے۔

دیکھ لیجیے، مائیکل مور کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، مگر اس تذکرے میں ایک ایسا واقعہ بھی ہے، جو آپ کو چونکا دے گا۔ یوں لگتا ہے، جب ٹرمپ خود بھی سیاست کی بابت سنجیدہ نہیں تھا، اس وقت بھی مائیکل مور اِس خدشے کا شکار تھا کہ مستقبل میں ٹرمپ جیسا ایک منہ پھٹ اور جارح شخص اقتدار میں آسکتا ہے۔ 1999  میں میوزک بینڈ Rage Against the Machine کے ایک گانے “Sleep Now in the Fire” کی ویڈیو ریلیز ہوئی، جس میں ایک شخص بینر اٹھائے نظر آتا ہے، جس پر درج ہوتا تھا:’’صدارت کے لیے ڈونلڈ جے ٹرمپ!‘‘

اس گانے کا ہدایت کار کوئی اور نہیں، مائیکل مور ہی تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ سفید فام، مردوں کے بالادستی کے قائل ناخواندہ امریکی ٹرمپ کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرسکتے ہیں۔ مور کے علاوہ ایک اور صاحب نے قبل از وقت ٹرمپ کے فاتح ہونے کی پیش گوئی کر دی تھی۔

 میں ہوں پروفیسر ایلن لچ مین!

Allan Lichtman کی گنتی اہم امریکی تاریخ دانوں میں ہوتی ہے۔ وہ اس وقت امریکن یونیورسٹی، واشنگٹن سے منسلک ہیں۔ متعدد کتابیں اور 100 سے زاید تحقیقی مقالے لکھنے والے اس اسکالر نے امریکی تاریخ اور انتخابات کا جائزہ لینے کے بعد ان ’’13 چابیوں‘‘ تک رسائی حاصل کرلی، جن کی مدد سے صدارتی محل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پروفیسر ایلن لچ ممین اپنی کتاب The Thirteen Keys to the Presidency اور The Keys to the White House میں تاریخی، سائنسی اور منطقی بنیادوں پر قائم فارمولے پر روشنی ڈالی۔ اپنے اس فارمولے کو برتتے ہوئے پروفیسر ایلن 1984 تا 2016، ہر امریکی الیکشن کی درست پیش گوئی کرتے آئے ہیں اور انھوں نے ماہ ستمبر میں ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی بھی کردی تھی۔

پروفیسر ایلن کے مطابق ووٹرز امیدوار کی مہم، جلسے جلوسوں، بیانات اور اقدامات کے بجائے اس بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں کہ جو پارٹی اقتدار میں تھی، اس کی کارکردگی کیا رہی۔ اگر وہ کارکردگی سے مطمئن ہوں، تو اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے، ورنہ اپنا ووٹ بدل لیں گے۔ سو اس بار ری پبلیکن امیدوار فاتح ٹھہرے گا کہ عوام مطمئن نہیں۔

آج ہم جانتے ہیں کہ پروفیسر ایلن لچ مین کا فارمولا درست نکالا، مگر ایک سوال ہے۔۔۔

 ان پیش گوئیوں کو اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟

یہ سوال یوں بھی اہم کہ مائیکل مور اور پروفیسر ایلن تو فقط دو مثالیں ہیں، ورنہ کئی تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کی جیت کی سمت اشارہ کیا۔ الیکشن سے عین پہلے نیویارک ٹائمز جیسے معتبر جریدے نے ری پبلیکن امیدوار کے امکانات کو زیادہ روشن قرار دیا تھا۔ تو کیا وجہ کہ ان تجزیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اور آخر میں بی بی سی کی نمایندہ، کیٹی کے کو یہ کہنا پڑا: ’’یہ امریکی انتخابی سیاست کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہے۔‘‘

اس کے کئی اسباب۔ ہیلری مقبول چہرہ تھیں۔ تین عشروں سے مرکزی دھارے کی سیاست شامل رہیں۔ ان کے شوہر، بل کلنٹن امریکی صدر رہے، اس عرصے میں انھوں نے ایک ذہین فرسٹ لیڈی کے طور پر شناخت بنائی۔ وہ اوباما کے خلاف ایک طاقت ور ڈیموکریٹک امیدوار وار کے طور پر ابھریں۔ ایک مضبوط سیکریٹری خارجہ رہیں۔ عالمی دنیا میں اپنے لیے قبولیت اور پسندیدگی پیدا کی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ’’پہلے سیاہ فام امریکی صدر‘‘ کے بعد ’’پہلی خاتون امریکی صدر‘‘ کا دل موہ لینے کا نعرہ استعمال کیا۔ الغرض ہیلری مقبولیت کی دوڑ میں آگے تھیں۔ میڈیا میں ان کا پلڑا بھاری۔

اوباما جیسا مقبول شخص ان کے ساتھ۔ صدارتی تقاریر میں بھی ہیلری غالب رہیں۔ یعنی ایک مغرور ارب پتی کی نسبت، جو سیاسی پس منظر نہیں رکھتا، جوئے کے کاروبار اور شوبز سے منسلک، جس کا رویہ درشت، نظریات متنازع۔ امریکی عوام اور دنیا کے لیے ہیلری موزوں انتخاب تھیں۔ ان کے آمد سے وہ جمود بھی برقرار رہتا، جس کی دنیا عادی ہوگئی تھی۔ اسی باعث نہ تو ٹرمپ کو سنجیدگی سے لیا جارہا تھا، نہ ہی ان کی جیت کے پیش گوئیوں کو، مگر 8 نومبر کو سب بدل گیا۔

ایک غیرمتوازن شخص، جو ڈگلس میک آرتھر اور جارج اسمتھ پیٹن جیسے فوجی جرنیلوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت ٹھہراتا تھا، دنیا کا بااثر ترین حکم راں بن گیا۔ مگر یہ کیسے ممکن ہوا؟

ارے، یہ ٹرمپ کیسے جیت گیا؟

ٹرمپ کی جیت کے صدمے سے ابھرنے کے بعد اس واقعے کا تجزیہ شروع ہوا۔ دنیا بھر کے اخبارات، رسائل نے اس پر مضامین شایع کیے۔ سی این این کے  Gregory Kriegنے 24  وجوہات بیان کی، جن میں سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک، کم ٹرن آؤٹ، سیلیبریٹی کی حیثیت سے ٹرمپ کی شناخت، سفید فام خواتین کے نسل پرستانہ سوچ، سفید فام مردوں کی حاکمیت پسندی، روسی فیکٹر، مخالفین کا ٹرمپ کے حامیوں کی بابت تضحیک آمیز رویہ، شہری علاقوں کے ووٹروں کی عدم دل چسپی، ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے Bernie Sanders پر ہیلری کو ترجیح دینے، ٹرمپ کے نبض شناس ہونے، امریکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے محرومی، ان کی جانب داری اور امریکا کے نظرانداز طبقات کا ذکر کیا۔

’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے بھی ان عوامل کا جائزہ لیا، جو جیت کا محرک بنے، اور ٹرمپ کے ابتدائی سو دنوں کے متوقع فیصلوں کا جائزہ لیا۔ Vox پر شایع ہونے والے مضمون میں  Ezra Klein نے امریکا میں سیاست کی کم زوری اور کاروباری پارٹنر شپ کی مضبوطی، سیکیوریٹی نظام کی خامیوں پر روشنی ڈالی۔

تجزیہ کار اقتصادی عوامل کو بھی اہم گردانتے ہیں۔ ٹرمپ نے رسٹ بیلٹ کو اپیل کیا۔ سفید فارم ورکنگ کلاس کو متوجہ کیا۔ جمود کے خلاف آواز اٹھائی۔ نسل پرستانہ سوچ کو اپنے مفاد کے لیے کام یابی سے برتا۔ اکثریت میں یہ خوف پیدا کردیا کہ فوری ایکشن نہیں لیا گیا، تو اقلیتیں غالب آجائیں گی۔ ساتھ ہی اوباما کی خارجہ پالیسی کے غیرضروری پھیلاؤ اور اس کے نقصان کو بھی ہائی لائٹ کیا۔ ٹرمپ کی مہم کا مرکز بڑی ریاستوں کے بجائے وہ علاقے تھے، جنھیں انتخابات میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

جیت کا ایک اہم سبب اس کا مارکیٹنگ کنگ ہونا بھی ہے۔ ٹرمپ کو علم تھا کہ کس طرح ایک آئیڈیا مرچ مسالا لگا کر، ٹی وی کے ذریعے ہزاروں لوگوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یقینی طور پر مشہور زمانے ریالٹی شو، دی اپرینٹس کا تجربہ ٹرمپ کے کام آیا ہوگا۔

امریکا کو درپیش خطرات

شدت پسند اور متعصب ٹرمپ کی جیت نے اندیشوں کو جنم دیا۔ اسی خوف سے پیش گوئیاں پھوٹیں۔ جرمنی کے ایک میگزین نے ٹرمپ کی کام یابی کو دنیا کے خاتمے کا اعلان قرار دے ڈالا۔ کچھ نے ناسٹرڈیمس کو یاد کیا، جس نے کہا تھا؛ ایک عظیم گستاخ اور منہ پھٹ شخص فوج کا گورنر منتخب ہوگا، جس کے بعد سارے پل ٹوٹ جائیں گے، اور شہر خوف سے بے ہوش ہوجائے گا۔ کچھ نے لاطینی امریکا کی اس بوڑھی خاتون کا تذکرہ کیا، جس نے سیاہ فام شخص کو امریکی تاریخ کا آخری صدر قرار دیا تھا۔

مذکورہ پیش گوئیوں کا تعلق مابعدالطبیعیات سے۔ البتہ جس طرح سنجیدہ تجزیہ کاروں نے سائنسی بنیادوں پر ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کی تھی، اس طرح انھوں نے مستقبل کی بھی تصور کھینچی ہے۔ مائیکل مور ہی کو لیجیے، جس نے اپنے بلاگ کے آخر میں کہا تھا، ٹرمپ کی کام یابی کے پانچ نکاتی راز کے علاوہ مجھے اس کی اس معمولی کم زوری کا بھی علم ہے، جو Achilles’ heel (ہومر کی شہرۂ آفاق نظم ہیلن آف ٹرائے کا کردار جس کے جسم پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کرتا، لیکن اگر اس کی ایڑھی میں زخم آئے تو وہ مرسکتا ہے) بن سکتی ہے۔ وہ آیندہ بلاگ میں یہ بتانے کا اعلان کرچکے ہیں کہ کون سے فیصلے ٹرمپ کو لے ڈوبیں گے۔

مائیکل مور کے مانند پروفیسر ایلن لچ مین نے بھی ٹرمپ کے مستقبل پر رائے دی۔ ان کے مطابق ٹرمپ کو قبول کرنے میں امریکیوں کو دقت پیش آئے گی، وہ اپنی پارٹی کے لیے بھی بار بن جائیں گے، ملک میں انتشار ہوگا، عالمی دنیا میں بے چینی۔ عین ممکن ہے، ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی جائے، اور ایک نیا صدر منتخب کرلیا جائے۔

حروف آخر

مساوات اور روشن خیالی کے علم بردار، لبرل ازم کے پروردہ امریکا کی قسمت کا فیصلہ اب ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے، جسے اس کے مخالفین بدزبان، بے شرم، ابنارمل اور کم عقل ٹھہراتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی مواقع پر اپنے مخالفین کو درست ثابت کیا۔ عالمی دنیا اس متلون مزاج شخص کی نئی خارجہ پالیسی کی بابت اندیشوں کا شکار ہے۔ خدشہ ہے کہ اب دنیا میں نئی جنگیں شروع ہوجائیں گی، عسکریت پسندی کو فروغ ملے گا، امریکی اقدار کو شکست ہوگی، دو صدیوں پر محیط جمہوریت ہار جائے گی، اور مجسمۂ آزادی کا سر شرم سے جھک جائے گا۔

مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ امریکی جمہوریت دنیا کے مضبوط ترین اداروں میں سے ایک، اس کا تسلسل اس کی قوت، ماضی میں کئی مشکل مراحل آئے، مگر اس کی دمک قائم رہی، اسی نے امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنایا، اور یہ ایک ارب پتی، منہ پھٹ بزنس مین سے شکست نہیں کھا سکتی۔ یہ اتنا مربوط اور منظم نظام ہے کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہوجائے، تو اسے فوراً درست کرسکتا ہے۔ اس نظام کی کے حامی یقین رکھتے ہیں کہ اپنی الیکشن مہم کے نسبت ٹرمپ اب محتاط اور متوازن رویہ اختیار کریں گے۔ اور اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، تو پروفیسر ایلن لچ مین کا فارمولا تو موجود ہے۔ امریکی جمہوری نظام مواخذے کی تحریک لا کر ان سے جان چھڑا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔