حیدرآباد میں پراپرٹی کی گرتی قیمتوں کی وجوہات

سالار سلیمان  جمعرات 17 نومبر 2016
کراچی میں صورتحال کی بہتری سے جہاں شہر قائد میں پراپرٹی کے حوالے سے بہتری دیکھنے کو ملی وہیں حیدرآباد کو نقصان ہوا کیونکہ جو لوگ حیدرآباد میں سرمایہ کاری کررہے تھے اب وہ بھی واپس کراچی جارہے ہیں۔

کراچی میں صورتحال کی بہتری سے جہاں شہر قائد میں پراپرٹی کے حوالے سے بہتری دیکھنے کو ملی وہیں حیدرآباد کو نقصان ہوا کیونکہ جو لوگ حیدرآباد میں سرمایہ کاری کررہے تھے اب وہ بھی واپس کراچی جارہے ہیں۔

حیدرآباد کا شمار پاکستان کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں سندھ کا دارالحکومت بھی یہی شہر تھا۔ اس شہر کی بنیاد 1768ء میں میاں غلام شاہ نے رکھی تھی۔ نیرون کے کھنڈرات سے بننے والا یہ شہر اپنی ایک ثقافت اور مزاج رکھتا ہے۔ آگ کے بھٹے پر بننے والی پکی اینٹوں سے تعمیر ہونے والا قلعہ بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کو پکا قلعہ کہا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں یہاں اپنے وقت کے صوفیاء نے بھی ڈیرے جمائے تھے۔ یہ سید حضرات اُچ شریف سے تشریف لائے اور اس جگہ کو اپنا مسکن بنایا۔ 3200 مربع کلومیڑ پر محیط حیدرآباد شہر میں 20 یونین کونسلز اور پانچ ٹاونز ہیں۔ 2014ء میں لگائے جانے والے ایک اندازے کے مطابق اس شہر کی آبادی 35 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ 

حیدرآباد معاشی لحاظ سے بھی ایک اہم شہر ہے جہاں پر صابن، چینی، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، کاغذ، پولٹری، پلاسٹک وغیرہ کی صنعت موجود ہے۔ اس کے علاوہ دستکاری کے کام کی گونج ایک عالم میں ہے۔ یہاں کی اجرک، قیمتی زیورات، بریانی بنانے کا طریقہ، خوبصورت کنگنوں سمیت دیگر چیزیں بھی مشہور ہیں۔ لیکن شاید یہ باتیں تو آپ سب لوگوں کو معلوم ہو، اِس لیے اِن تمام باتوں کے بجائے ہم آپ کو اِس شہر کی جائیداد کی خرید و فروخت اور وہاں کی قیمتوں کے حوالے سے کچھ بتانا چاہتے ہیں۔

حیدر آباد سے کراچی کا فاصلہ تقریباً 165 کلو میٹر ہے یعنی تقریباً اگر سڑک اچھی بنی ہوئی ہو تو دو گھنٹے سے زیادہ کا سفر نہیں ہے۔ چونکہ حیدرآباد کراچی سے جڑا ہوا ہے اِس لیے شہر قائد کی صورتحال کا براہ راست اثر حیدرآباد پر پڑتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ کراچی میں اب سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے، جہاں ایک طرف قتل کی وارداتوں میں واضح کمی ہے، وہیں بھتہ وصولی کی شکایات میں بھی 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ کراچی میں صورتحال کی بہتری سے اس شہر کے حوالے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور شہر قائد میں سرمایہ کاری کی صورتحال سازگار ہوئی ہے جس کا اس شہر کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر مثبت اثر دیکھنے کو ملا۔ ویسے تو یہ بہت اچھی خبر ہے کیونکہ صرف کراچی کے سرمایہ کاروں نے یہاں سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ حیدر آباد اور دیگر اندرون سندھ کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی یہاں پیسہ لگانے میں دلچسپی کا اظہار کیا، لیکن اِس بہتری کا جہاں کراچی کو فائدہ ہوا وہیں حیدرآباد کو کسی حد تک نقصان ہوا کیونکہ کراچی کے حالات کی خرابی کی وجہ سے جو لوگ حیدرآباد میں سرمایہ کاری کررہے تھے اب وہ بھی واپس کراچی جارہے ہیں۔

ماضی میں صورتحال ایسی تھی کہ کراچی کا سرمایہ کار کراچی میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے 165 کلومیٹر دور حیدرآباد کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں دلچسپی کا اظہار کرتا تھا۔ اس وقت حیدرآباد کی مارکیٹ میں کافی سرمایہ کراچی کے سرمایہ داروں نے لگایا ہوا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب کراچی سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کار خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔ اب جبکہ ساحلی شہر کی صورتحال میں بہتری آئی ہے تو سرمایہ کاری کا منظر نامہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ حیدرآباد تک آسان رسائی کے لئے حکومت کی جانب سے یہاں پر موٹروے بنائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ایک نجی پراپرٹی ڈیلر نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے بننے کے بعد حیدرآباد کی مارکیٹ دبنے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ بھی اب حیدرآباد میں سرمایہ کاری میں کمی ہورہی ہے اور سرمایہ دار اپنا سرمایہ کراچی منتقل کررہے ہیں۔

ایسی بات نہیں ہے کہ حیدرآباد کوئی پسماندہ علاقہ ہے بلکہ یہاں پر پختہ سڑکیں ہیں، ہسپتال ہیں، ہوائی اڈہ ہے، پبلک ٹرانسپورٹ ہے، خوبصورت پارک اور جم خانہ کلب جیسی سہولیات موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس شہر میں سرمایہ کاری کا اچھا دائرہ کار بھی موجود ہے لیکن چونکہ خالی زمین تو کسی کام کی بھی نہیں ہے، اِس لیے اگر یہاں پر مختلف پراجیکٹس شروع کئے جائیں تو یقیناً ان منصوبوں سے کاروباری مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ حیدرآباد میں اس وقت ڈاؤن ٹاؤن ریزیڈنسی، عطارڈیپلکس ریزیڈنسی، گرین سٹی سمیت متعدد منصوبے ہیں لیکن خرید و فروخت میں کمی کے باعث یہاں کی مارکیٹ اس وقت جمود کا شکار ہے۔

حیدرآباد میں آٹو بان کا علاقہ سرمایہ کاری کے حوالے سے مقبول ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اس شہر میں دیوار کی ایک طرف نرخ اور ہوتے ہیں اور دیوار کی دوسری جانب نرخ بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ آٹو بان کا علاقہ کمرشل علاقہ ہے اور یہ حیدرآبا دکا قلب تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں پر اشٹام سے جگہ کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ ایک نجی پراپرٹی ڈیلر کے مطابق اس علاقے میں تین سو گز کا پلاٹ 12 سے 13 کروڑ روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ اس وقت یہی پلاٹ تقریباً ساڑھے 11 کروڑ روپے اوسط ہے۔ یہاں پر 45 ہزار روپے مربع فٹ ملنے والی جگہ اس وقت 30 سے 35 ہزار روپے میں باآسانی مل جاتی ہے۔ اسی طرح سے لکی آباد نمبر 3 میں بھی پراپرٹی کی قدر میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ یہاں پر ہزار گز کے بنگلوں کی قطاریں موجود ہیں جن کی قیمتیں 35 سے 40 کروڑ روپے تھیں۔ مگر اب ان بنگلوں کی قدر میں بھی کمی آئی ہے۔ رہائشی علاقوں میں ایک اور مقبول ترین علاقہ سول لائنز کا ہے جہاں پر 300 گز کا پلاٹ 90 لاکھ سے 1 کروڑ روپے کا تھا۔ یہاں بھی نہ صرف پراپرٹی کی قدر میں کمی کے رحجان کا مشاہدہ کیا گیا ہے بلکہ قیمت طلب میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ نجی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں مجموعی طور پر چھ سو گز کے پلاٹ کی قیمتوں میں اوسطاً 9.46 فیصد کی کمی ہوئی ہے جبکہ تین سو گز کے پلاٹ کی قیمتوں میں 11 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رہی سہی کسر نئے لگنے والے ٹیکسوں نے پوری کردی ہے۔ ان نئے ٹیکسوں کے نفاذ نے جہاں پورے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں وہیں اُن ٹیکسوں کے نفاذ کا اثر حیدرآباد پر بھی پڑا ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے لوگوں میں خریداری کے رحجان میں کمی واقع ہورہی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں فروخت کنندہ موجود ہیں تاہم کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ ٹیکس کے حوالے سے جب حیدرآباد کے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سے رابطہ کیا گیا تو اُس نے کہا کہ ہم ایک مہینے میں تقریباً 8 سے 10 ڈیلز کررہے تھے لیکن ٹیکس کے نفاذ کے بعد اب ہم ایک ماہ میں صرف دو سے تین ڈیلز کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حیدرآباد میں کاروبار کی شرح میں ملک بھر کے دیگر شہروں کی طرح سے تقریباً 90 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اعدادو شمارسے واضح ہے کہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ نے اس شعبے کیلئے کس قدر مشکلات پیدا کردی ہیں جس کی وجہ سے کاروبار میں شدید مندی کا رحجان دیکھا جا رہا ہے۔

اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو شاید حیدرآباد کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس مسئلے پر قابو پانا مشکل نہیں ہے۔ انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ، نئی اور جدید ترین سہولیات سے مزین ہاوسنگ سوسائٹیز اور دیگر سہولیات زندگی سے حیدرآباد کی گرتی ہوئی پراپرٹی مارکیٹ کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ کراچی کے بعد متبادل رہائش گاہ بن سکتی ہے کہ آخر کراچی کو کس حد تک پھیلایا جائے گا؟ مزید براں سڑکوں کو بہتر کرتے ہوئے کراچی تا حیدرآباد سفر میں آسانی پیدا کرکے بھی اس شہر کی پراپرٹی کی مارکیٹ کو سہارا دینا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس کی صورتحال کو باہمی رضامندی سے حل کی جانب لے جانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔