صف بندیاں کیسی ہونے والی ہیں    (1)

اوریا مقبول جان  جمعـء 18 نومبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

علامہ محمد اقبال کا آخری عمر میں ایک دستور تھا، انھوں نے اپنا تمام کتب خانہ دوستوں میں بانٹ دیا تھا اور صرف ایک قرآن پاک اپنے پاس رکھا تھا۔ یہ وہی قرآن پاک کا نسخہ تھا کہ جس کے بارے میں ان کا ملازم علی بخش کہتا ہے کہ علامہ قرآن پڑھتے ہوئے اس قدر زارو قطار سے روتے کہ قرآن پاک کے صفحات بھیگ جاتے اور جب صبح دھوپ نکلتی تو میں انھیں سکھانے کے لیے دھوپ میں رکھتا۔

گزشتہ دنوں علامہ اقبال کی صاحبزادی سے میں اپنے ٹیلی ویژن پروگرام کے لیے انٹرویو لے رہا تھا تو انھوں نے بتایا کہ میں سات آٹھ سال کی تھی جب علامہ اقبال انتقال کرگئے۔ چونکہ میری عادت تھی کہ میں ان کے ساتھ ہی بستر پر سوتی تھی اور سونے کے بعد مجھے دوسرے بستر پر منتقل کیا جاتا۔ اس لیے مجھے والد کے انتقال کے بعد بہت ڈر لگتا اور بے چینی رہتی لیکن جب میں اس قرآن پاک کو اپنے سرہانے رکھتی تو مجھے سکون ملتا اور میں مدتوں اسے ساتھ رکھ کر سوتی رہی۔

یہ تو علامہ اقبال کے اس قرآنی نسخے کا اعجاز تھا۔ لیکن قرآن کا اصل اعجاز وہ تھا جو قرآن کے غوّاص علامہ اقبال پر نازل ہوا تھا۔ وہ آخری عمر میں ایک نابغۂ روزگار کے طور پر شہرت کی بلندیوں پر تھے اور پوری دنیا سے لوگ ان کے پاس اپنے تشنہ سوالات کے جوابات کے لیے آتے۔ علامہ سوال سنتے، سوال فلسفہ کا ہو یا علم الکلام کا، معاشیات سے متعلق ہوتا یا موجودہ سیاسی کشمکش کے بارے میں، وہ جواب دینے کے لیے قرآن پاک کھولتے اور جواب عطا فرماتے۔

تدبر قرآن جیسی تفسیر کے مؤلف مولانا امین احسن اصلاحی نے کہا ہے کہ میں نے پوری زندگی قرآن فہمی میں صرف کی اور خود کو جانا کہ میں نے تفسیر لکھنے کا حق ادا کر دیا، لیکن قرآن فہمی میں ہماری پروازجہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے علامہ اقبال کی پرواز کا آغاز ہوتا ہے۔ پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا جس قوم کو اقبال جیسا ہدی خوان نہ جگا سکا، ہماشما کی کیا حیثیت ہے۔ اقبال نے قرآن پاک سے تعلق کے بارے میں اپنے متعلق ایک دعویٰ بھی کیا ہے

گر دلم آئینۂ بے جوہر است
گر بحرفم غیر قرآں مضمر است

روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

ترجمہ: ’’اگر میرے دل کا آئینہ کسی خوبی سے خالی ہے اور اگر میرے دل میں قرآن پاک کے علاوہ کوئی ایک حرف بھی موجود ہے تو اے اللہ مجھے قیامت کے دن رسوا اور خوار کر دینا اور مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے بوسے سے بھی محروم کر دینا۔‘‘

زندگی کے ہر معاملے میں قرآن سے رہنمائی لینے اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں قرآن کے مطالب، معانی تک پہنچنے کا دستور اس امت کے صدیقین، علماء اور صلحاء کا ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے۔ ان کے ہاں کبھی بھی کسی مسئلہ کے بارے میں یہ تفریق نہیں رہی کہ یہ خاندانی معاملہ ہے‘ یہ سیاسی اور دستوری الجھن ہے‘ یہ جمہوری اور غیر جمہوری الجھن ہے۔

عام لوگوں کے ہاں دنیاوی معاملات کی تشریح کے لیے  تو عالمی حالات و واقعات اہم ہوتے ہیں۔ لیکن صلحاء امت کے ہاں تو ہرگز نہیں بلکہ وہ منصبِ، خلافت پر متمکن تھے یا منصبِ دعوت و ارشاد پر انھوں نے کبھی بھی اپنے چھوٹے سے چھوٹے معاملے اور بڑی سے بڑی الجھن کے لیے بھی قرآن و حدیث کو ترک کر کے دنیا کی کوئی کتاب رہنمائی کے لیے نہیں کھولی۔ اس لیے کہ علامہ اقبال ‘ان کے اسلاف اور علامہ اقبال کے بعد آنے والے صلحاء آج تک قرآن پاک کی اس آیت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ ’’اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے جس میں ہر ایک بات کھول کر بیان کر دی ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری کا سامان ہے (النحل89)۔

قرآن کے غوّاص علامہ اقبال کی طرح ہمیشہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اسی قرآن پاک میں ہماری سیاست، معیشت، معاشرت، تہذیب، فلسفہ غرض ہر قسم کے مسائل، الجھنوں اور ان سے اٹھنے والے سوالات کا جواب موجود ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن پاک کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس میں تمام سوالوں کا جواب موجود ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن پاک چونکہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اسی لیے اس کے معانی و مطالب اور مفاہیم بھی انھوں نے خود بتائے۔علم کے اس خزینہ کو امت‘ احادیث کی حیثیت دیتی ہے۔ اس پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قرآن کے مطابق بیان کی گئی اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے کتاب و حکمت کی تعلیم دی ‘بلکہ آنے والے زمانوں میں پیش آنے والے خطرات اور فتنوں سے بھی آگاہ کیا۔ اس دنیا کے بارے میں سرکار دو عالم کی ایک خوبصورت حدیث واقعات کے تسلسل اور انجام کی تیز رفتاری کی طرف توجہ دلاتی ہے۔

حدیث کے الفاظ اور طرز بیان کا سحر اسقدر خوبصورت ہے کہ آدمی جب بھی پڑھتا ہے اس کے سامنے اس کائنات کا ایک نیا پہلو آشکار ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا ایک ایسا دریدہ لباس ہے جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھٹ چکا ہے اور اب صرف ایک دھاگے کے ساتھ آویزاں ہے جو بہت جلد ٹوٹ جائے گا۔‘‘ یہ ہے وہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اور روز انقلابات زمانہ دیکھتے، ایجادات و وسائل سے لطف اندوز ہوتے اور عیش و عشرت میں گم رہتے ہیں۔

حالانکہ اگر ہمیں یہ احساس ہوجائے کہ ہماری دنیا کا یہ سارا وجود ایک دھاگے سے لٹکا ہوا ہے جو کسی آن ٹوٹ جائے گا تو ہم اس دریدہ یعنی بوسیدہ اور پھٹے ہوئے لباس پر لعنت بھیج دیں۔ لیکن چونکہ ہم نے اس دنیا ہی میں رہنا ہے اور اسی کھیتی میں آخرت کی فصل کاشت کرنا ہے اس لیے ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہماری وہ کھیتی جس میں ہم آخرت کی فصل کاشت کرتے ہیں اس کو تباہ کرنے والے اور اس کھیتی پر حملہ کرنے والے کون ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتے، اپنے گھر سے تمام کتابوں کو رخصت کر چکے ہوتے۔ ان کا اور صرف قرآن پاک کا ساتھ ہوتا۔ کوئی جدیدیت کا مارا، آئین و قانون کا پرستار، عالمی معاملات کا شناسا، جدید معاشی نظام کا پروردہ، ان کے پاس آتا، اور ان سے پے در پے سوالات کرنے لگ جاتا۔ کیا امریکا ٹرمپ کے بعد ٹوٹ جائے گا، کیا روس ایک عالمی طاقت بن کر ابھرے گا۔

چین کی معیشت کیسے آگے بڑھے گی، مسلمانوں پر برا وقت کب ختم ہو گا، کیا امریکا مسلمانوں کے ساتھ ہو گا یا روس، یہ جنگ جو مشرق وسطیٰ میں شروع ہوئی ہے، جس میں عراق، شام، یمن وغیرہ شامل ہیں، کیا یہ مزید آگے بڑھے گی۔ کیا اس سے نجات کا کوئی راستہ ہے۔ یہ امت ایسے ہی بکھری رہے گی یا پھر کبھی متحد بھی ہو سکے گی۔ یہ پاکستان جو آپ کے خوابوں کی تعبیر ہے، اس کا کیا بنے گا، تباہ ہوجائے گا یا عالمی سطح پر کوئی اہم کردار ادا کرے گا یا ایسے ہی روتے پیٹتے چلتا رہے گا۔

ان سوالوں کے تسلسل میں اگر میں علامہ اقبال کا چہرہ سامنے لاتا ہوں تو مجھے اس پریشان حال شخص کے سوالوں کے جواب میں اقبال مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسے ہاتھ کے اشارے سے چپ کرواتے ہیں۔

قرآن پاک اٹھا کر کھولتے ہیں اور اپنی خوش الحان آواز میں سورۂ المائدہ کی آیت نمبر 82 کی تلاوت کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے ’’تم یہ بات ضرور محسوس کر لو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کھل کر شرک کرتے ہیں اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کر لو گے کہ مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو نصرانی (عیسائی) کہلواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں۔ نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے (المائدہ82)۔

اقبال اس آیت کی تلاوت کے بعد فرماتے، تمہیں معلوم ہے اس وقت دنیا میں کون ہیں جو عیسائی کہلوانا پسند کرتے ہیں، ان میں عالم ہیں، تارک الدنیا ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (جاری)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔