جوانی میں بار ہا نمک مرچ کے ساتھ روٹی کھا کر بھوک مٹائی

محمود الحسن  بدھ 19 دسمبر 2012
ایسے صحافی بھی ہیں جو اپنا اخبار بھی ٹھیک سے نہیں پڑھتے، نذیر حق ۔ فوٹو : فائل

ایسے صحافی بھی ہیں جو اپنا اخبار بھی ٹھیک سے نہیں پڑھتے، نذیر حق ۔ فوٹو : فائل

54 برس پر محیط اپنے صحافتی سفرسے وہ مطمئن ہیں۔ اپنے کیریئر میں کوئی ایسا کام انھوں نے نہیں کیا، جس کا ضمیر پر بوجھ ہو۔ وہ قیام پاکستان کے بعد ابھرنے والے صحافیوں کی اس پیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں، جو اس کوچۂ صحافت میں اپنے ذوق و شوق سے گئے، اس واسطے صحافت ان کے لیے اسلوب حیات کا درجہ اختیار کر گئی۔

کسی نے سچے اخبار نویس کو دیکھنا ہو تو ان کی صورت میں دیکھ سکتا ہے۔ صحافت سے ایک بار تعلق جب جڑ گیا تو پھر وہ بغیر رکاوٹ کے چلتا رہا، مگر چند ماہ قبل بیماری کے باعث انھیں اپنے اس محبوب پیشے سے جدا ہونا پڑا، جو ان کے لیے خاصی آزردگی کا باعث ہے، لیکن اس صابر و شاکر نے اسے زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ چند ماہ قبل رات کو طبیعت بگڑی اور ہسپتال جانا پڑا۔ ادھر ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، اور گھر جانے کی اجازت دے دی۔ گھر لوٹتے ہی وہ سو گئے۔ صبح اٹھے اور حسب معمول اخبار کھولا ،سرخیاں پڑھ لیں مگرخبروں کامتن نظر نہ آیا، وہ حیران ہوئے کہ یہ رات بھر میں عجب ماجرا ہوا کہ بینائی اس قدر متاثر ہوگئی۔ دفتر پہنچے اور احباب کو اس حادثے سے آگاہ کیا، جو رات ان پر گزرا۔ دفتر میں مہربان مدیران نے دلجوئی کی اور کہا کہ وہ دفتر آتے رہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا، مگر یہ دفتر جانے سے انکاری، کہ بغیر کام کئے تنخواہ بٹورنا انھیں کسی طور قبول نہ تھا۔ یوں ان کا صحافتی سفر تمام ہوا۔ اب ان کا زیادہ تر وقت ذکر اذکار میں گزرتا ہے۔ کچھ سمے دوستوں کی منڈلی میں بیٹھ کر گزارتے ہیں۔

شہر کے مرکز سے خاصے فاصلے پر واقع علاقے کی ایک ایسی تنگ گلی میں وہ سالہا سال سے قیام پذیر ہیں، جہاں چھوٹی گاڑی بھی بمشکل داخل ہوتی ہے۔ سائیکل، موٹرسائیکل اور آخر ی برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ ہی ان کے دفتر جانے کا ذریعہ رہے۔ کبھی اتنے پیسے جمع نہ ہوئے کہ چھوٹی موٹی گاڑی خرید سکیں۔ اس لیے سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے انھیں کامیاب صحافی نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن وہ مادی کامیابی کو اصل کامیابی سمجھیں تب ہے نا۔ ان کے نزدیک، رزق حلال ہی اصل میں سب کچھ ہے۔ ان کا سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ انھوں نے تمام عمر رزق حلال کمایا۔اپنی اولاد کوبھی یہی سبق پڑھایا۔ وہ اپنی ذات میں چلتی پھرتی صحافتی تاریخ ہیں۔ وہ دور بھی ان کا دیکھا ہے، جب اخبار چھپنے سے قبل وزارت اطلاعات کے افسر اعلیٰ کو دکھانا لازم قرار پایا، جو ’’نیوز ایڈیٹر‘‘ بن کریہ تعین کرتا کہ کون سی خبر نمایاں اور کس کو کِل (Kill)کرنا ہے۔ لفافہ جرنلزم نے جس طرح زور پکڑا، اس کے بارے میں بھی وہ خوب جانتے ہیں اور اب اینکروں اور کالم نویسوں کا راج بھی ملاحظہ کر رہے ہیں، جنھیں یہ گمان ہے کہ صحافت ان کے کندھوں پر چل رہی ہے۔

صحافت سے وابستہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پامالی پر وہ کڑتے ہیں ، اور اس زمانے کو یاد کرتے ہیں، جب قلم کی حرمت کو ہر صحافی مقدم جانتا،اور اس کے وقار کا ہر دم اسے پاس رہتا۔اس تمہید کے بعد ہم اس بزرگ صحافی کے سفرزیست کے بیان کی طرف بڑھتے ہیں۔

یکم اپریل 1933ء کو ساہیوال میں اپنے ننھیال کے ہاں آنکھ کھولنے والے نذیر حق کے خاندان کا تعلق امرتسرسے تھا، جو تقسیم کے بعد لاہور میں آباد ہوگیا۔ والد، فیروز دین، محنت مزدوری کرتے، جس سے گھر بڑی مشکل سے چلتا۔ ایک بہن اور تین بھائیوں میں نذیرحق سب سے بڑے تھے۔وہ ماں کی شفقت سے بچپن میں محروم ہو گئے۔ سوتیلی والدہ کا برتاؤ ان سے مناسب تھا۔ ان کے بچپن اور جوانی کا زمانہ عسرت میں گزرا۔ پڑھائی میں ان کا جی خوب لگتا۔ باغبانپورہ ہائی اسکول سے مڈل کے امتحان میں وہ اول آئے۔ 54ء میں میٹرک کیا تو والد نے صاف صاف بتا دیا کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ انھیں کالج میں داخلہ دلاسکیں۔ اس زمانے میں نذیرحق نے ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی تھی، جس سے کچھ یافت ہو جاتی، یوں وہ اپنے برتے پر کالج داخل ہو جاتے ہیں۔

1

تین جگہ ٹیوشن پڑھانے سے 35 روپے وہ کماتے، جس سے زندگی کی گاڑی رواں دواں رہنے میں مدد ملتی۔ تنگی ترشی سے وہ کبھی نہیں گھبرائے اور محنت کرتے رہے۔ بارھویں جماعت سے انھوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’امروز‘‘ میں اسلم کاشمیری سے ان کی صاحب سلامت تھی، ایک دفعہ کسی مضمون کا ترجمہ کیا، اور انھیں دے آئے۔ ترجمہ انھیں پسند آیا اور ’’امروز‘‘ میں چھپ بھی گیا۔ اس کا چھپنا اپنی جگہ خوشی کی بات سہی، مگر یہ خوشی اس وقت اور بھی فزوں تر ہوگئی، جب انھیں معاوضے کے طور پر پچاس روپے ملے۔ خوشی خوشی گھر آئے اور اپنی سوتیلی والدہ جنھیں وہ آپا کہہ کر مخاطب کرتے، ان کے ہاتھ پر 30روپے رکھ دیے، بقیہ بیس روپے اپنے پاس رکھے۔ والدہ حیران کہ آخر نذیر کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے، انھوں نے اصل بات بتا کر ان کی حیرت دورکر دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اور بھی اخباروں میں ان کی تحریریں شائع ہوئیں مگر پیسے صرف ’’امروز‘‘ سے ملے۔ شیر محمد اختر کے زیرادارت ’’قندیل‘‘ میں بچوں کی کہانیاں بھی لکھیں۔

اس دور میں وہ گوالمنڈی چوک میں پرانے رسالوں اور کتابوں کی دکانوں پر بڑی باقاعدگی سے جاتے اور کسی رسالے میں چھپا مضمون اگر پسند آجاتا تو بڑے شوق سے اس کا ترجمہ کرتے۔ ایک مرتبہ کسی قسط وار مضمون کی ایک قسط پڑھی تو بقیہ اقساط پڑھنے کو جی للچایا، سارے رسالے پھرول ڈالے، محنت رنگ لائی اور انھیں وہ مل گیا جس کی انھیں تلاش تھی۔ نذیر حق کی اس سرگرمی کو دیکھ کر ادھر موجود بوڑھے آدمی نے ان سے پوچھا کہ وہ آخر کیوں یہ سب کھکیڑ اٹھاتے ہیں؟ ’’پڑھنے کا شوق ہے اور کوئی مضمون پسند آجائے تو اس کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔‘‘ نوجوان سے یہ جواب سن کر اس مہربان بزرگ نے اپنے دکاندار بیٹوں سے کہہ دیا کہ یہ نوجوان جب بھی آئے، اس سے رسالے کے پیسے نہیں لینے۔ ہم نے جب انھیں بتایا کہ پرانے رسائل کی دکانیں اب بھی گوالمنڈی چوک میں موجود ہیں تو وہ یہ جان کر حیران ہوئے۔اس زمانے میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ ٹیوشن پڑھا کر رات کو تھکے ہارے گھر پہنچے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا، روٹی تو ہے مگر سالن نہیں، اس پر وہ روٹی پانی میں بھگوتے، اوراسے تھوڑا نمک اور تھوڑی مرچ لگا کر کھا لیتے۔

58ء میں دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر جس اخبارسے نذیر حق نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، وہ جماعت اسلامی کا ’’تسنیم‘‘ تھا۔ ڈیڑھ ماہ ادھر رہے۔ مقررکردہ تنخواہ وصول کرنے سے محروم ہی رہے۔ اس زمانے میں ’’کوہستان‘‘ لاہور سے نکلا تو منہاج الدین اصلاحی کی تحریک پر ادھر آگئے۔ ایک سو دس روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔ ترجمے میں ان کی عمدہ استعداد کے پیش نظر رات کی ڈیوٹی لگ گئی اورتنخواہ میں بھی تیس روپے اضافہ ہوگیا۔ یہاں جم کر پہلے سب ایڈیٹر اور پھر سینئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ بیچ میں کچھ عرصہ ملتان میں گزرا۔ ’’کوہستان‘‘ کے مدیر تو معروف ناول نگار نسیم حجازی تھے، مگر اس اخبار کو بام عروج تک پہنچانے کا زیادہ تر کریڈٹ وہ عنایت اللہ کو دیتے ہیں۔ نسیم حجازی سے اختلافات کی بنا پر عنایت اللہ کے ’’کوہستان‘‘ سے علیحدگی اختیار کرنے پرجو جانثار اپنی کشتیاں جلا کر ان کے ساتھ ’’کوہستان‘‘ کو خیرباد کہہ آئے، ان میں نذیرحق بھی شامل تھے۔ عنایت اللہ نے  ’’مشرق ‘‘کا ڈیکلریشن خریدکر اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو وہ اس اخبار سے وابستہ ہو گئے۔

اقبال زبیری چیف نیوز ایڈیٹر اور یہ شفٹ انچارچ بنے۔ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے، انھوں نے بتایا ’’ پہلے روز کے اخبار کے لیے ایسی خبر کی تلاش تھی، جو لیڈ بن سکے۔یہ وہ زمانہ تھا، جب مانیٹرنگ سیکشن کا تصور عام نہ تھا اور شفٹ انچارج کو خود ہی کان دھر کر خبریں سننا ہوتی تھیں۔ریڈیو کی خبروں سے بھی کوئی ایسی خبر نہ نکلی، جو لیڈ بن سکے ، ادھر عنایت اللہ صاحب باربار پوچھ رہے تھے، ایک بار جب وہ آئے تو میں نے بتایا کہ بھائی جان !، ایک خبرجو لیڈ تو نہیں مگر آپ کے مطلب کی ہے۔ وہ کیا؟ انھوں نے حیرت سے پوچھا ’’بھائی جان! (عنایت اللہ کو وہ اسی طرح مخاطب کرتے تھے)راولپنڈی سے کونسل مسلم لیگ کے علی اصغر شاہ نے سرکاری امیدوار کو ہرادیا ہے۔ اصغر علی شاہ ٹرانسپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر تھے، اور ان کا عنایت اللہ سے بھی اچھا تعلق تھا۔ان کی کامیابی کی خبر سن کر کہنے لگے بھئی!یہی خبر لیڈ بنے گی۔اب سرخی نکالنے کا مرحلہ آیا۔کئی بار سرخی دکھائی،مگر وہ رد ہو جاتی۔ ایسے میں نماز پڑھی، اور میری عادت تھی کہ جب بھی کوئی مشکل مرحلہ آتا،وضوکرتا، اب بھی میں نے ایسا ہی کیا، آپ یقین جانیے،میں نے وضو کیا ہی تھا کہ اچانک مجھے یہ سرخی سوجھ گئی، ’’عبوری دارالحکومت میں حکمران پارٹی کو شکست۔‘‘ یہ سرخی عنایت صاحب کو پسند آگئی۔اخبار مارکیٹ میں گیا تو دھوم مچ گئی۔

’’مشرق‘‘ کو اپوزیشن کا اخبار سمجھا گیا۔ اخبار کو توقعات سے بڑھ کر پذیرائی ملی۔73 ء میں نیوز ایڈیٹر سے میں اخبار کا چیف نیوز ایڈیٹر بن گیا۔ اقبال زبیری نے عنایت اللہ صاحب کے انتقال کے بعد ادارت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔‘‘مشرق اخبار کو جو عروج ملا، اس کی وجوہ جاننا چاہیں تو وہ بتانے لگے ’’اخبار کی کامیابی میں عنایت اللہ صاحب کی محنت تھی۔انھیں کام سے والہانہ لگائو تھا۔صحافت ان کی زندگی کا محور تھی۔کارکنوں سے بڑے بھلے انداز میں پیش آتے۔ماحول بڑا اچھا تھا۔پہلا ویج بورڈ ایوارڈ آچکا تھا، اس لیے تنخواہیں بھی اچھی تھیں۔عنایت اللہ نے مضبوط بنیاد فراہم کردی ، وہ چلے گئے تو اقبال زبیری نے بڑی ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیے۔ خبروں کا بڑا معیار تھا۔ ریاض بٹالوی کے فیچر بڑے کمال کے تھے۔میر صاحب کا کارٹون بڑے اچھے ہوتے۔ انتظار حسین کا لاہورنامہ بھی خاصا مقبول تھا۔اخبار نے کئی نئے تجربے کئے،جس کو قارئین نے بہت پسند کیا۔

ایک وقت میں جب جنگ لاہور سے نکل آیا تھا ، جنگ اور نوائے وقت کی سرکولیشن ملا کر بھی مشرق کے برابر نہیں تھی۔‘‘یہ تو رہا عروج کا قصہ ، کچھ زوال کی کہانی بھی سنائیے۔ ’’آہستہ آہستہ کرکے ٹیم بکھر گئی۔اقبال زبیری کے چھوڑ جانے سے فرق پڑا۔وہ ضیاء السلام انصاری کے رویے سے تنگ آکر ’’نوائے وقت‘‘ میں چلے گئے۔ مجھے بھی چیف نیوز ایڈیٹر کے عہدے سے ہٹاکر اپنے پسند کے آدمی کو لگادیا۔ضیاء الاسلام انصاری نے ضیاء الحق کی بہت زیادہ خوشامد بھی شروع کردی، ان کی شان میں پہلے صفحے پربھی ان کالم شائع ہوتا رہا۔ خصوصی اداریہ بھی ضیاء الحق کی شان میں چھپتا تھا۔ اخبار کے زوال کا اہم سبب یہ بے جا خوشامد بھی تھا۔ جو کوئی حکومت کی حمایت کرنے پر معترض ہوتا، اسے جواب ملتاکہ ٹرسٹ کا اخبار ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا مجبوری ہے۔‘‘

عنایت اللہ مرحوم کے بارے میں نذیر حق نے بتایا کہ وہ ضرورت مندوں کا بڑا خیال کرتے اور ان کی مالی اعانت بھی کرتے۔ان کی اس کرمفرمائی کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا، جب ان کے جنازے پربہت سی انجان خواتین کو روتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا گیا تو عنایت صاحب کے ملازم نے بتایا کہ یہ وہ ضرورت مند بیبیاں ہیں، جن کی وہ چپکے سے مدد کیا کرتے تھے۔

سردو گرم چشیدہ نذیر حق نے بینظیر کے پہلے دور حکومت میں مشرق سے ریٹائرمنٹ لی تو انھیں 9لاکھ روپے ملے، جس سے انھوں نے بچوں کی شادی کردی۔مشرق کے بعد وہ مختلف اخبارات سے جڑے رہے۔ایک اخبار جس کے ادارتی صفحے کے بنانے سنوارنے میں انھوں نے بڑی محنت کی تھی،اسے انھیں یوں چھوڑنا پڑا کہ کے ایک روز مدیر کے بیٹے نے کچھ ایسے لہجے میں ان سے بات کی جو خود دار نذیرحق کوناراض کرگئی اور وہ دن اس اخبار میں ان کا آخری دن بن گیا۔اپنے ایک رفیق کار کو یہ کہہ کر کہ’’میں کل سے نہیں آئوں گا‘‘وہ چپ چاپ دفتر سے گھر آ گئے۔ یہاں سے وہ جس اخبار میں گئے، ادھر انھیں بہت تکریم ملی ، اس لیے دوسرے اخباروں سے پیشکش کے باوجود اسی اخبار سے متعلق رہے۔یہ اخبار روزنامہ پاکستان ہے، جہاں انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کے آخری 13برس گزارے۔یہاں اداریے لکھے۔کالم لکھے۔ مضامین کا ترجمہ کیا۔اس اخبار میں انھیں مدیران کرام کی طرف سے جواحترام ملا، اس کے لیے وہ ان کے ممنون احسان ہیں۔اخبارات میں ہونے والی غلطیوں کی بھرمارانھیں آزردہ کرتی ہیں،جو سرخیوں میں بھی موجود ہوتی ہیں۔وہ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں، جب سب ایڈیٹر کے لیے ترجمے کی صلاحیت سے بہرور ہونا لازم ہوتا، ان کا بتانا تھا کہ اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ بڑے دکھ سے کہتے ہیں’اب زیادہ تر صحافیوں کے لیے پیسے کمانا ہی سب کچھ ہے اور نظریاتی صحافت اور کمٹمنٹ جو بھلے وقتوں میں صحافی کے لیے طرہ امتیاز سمجھی جاتی اب قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔‘‘

نذیر حق نے نیوز روم میں بیٹھ کرہزاروں خبروں کا ترجمہ کیا لیکن ساتھ ساتھ میں ان کا ذوقِ مطالعہ ان سے علمی کتابوں کے تراجم پر بھی اکساتا رہا۔ممتاز اسکالر مرحوم ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب ’’محمد رسول اللہﷺ‘‘ کااردو میں ان کے قلم سے ترجمہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق جج خدابخش مری کی یادداشتوںکو بھی اردو قالب میں ڈھالا۔ افغان جنگ کے دوران انگریز صحافی کی کتاب کا ’’شرق اوسط میں روس کے عزائم‘‘ کے عنوان سے بھی ترجمہ کیا۔ان کا بتانا تھا کہ ’’خبر کے ترجمے میںبنیادی مقصد قاری تک خبر پہچانا ہے۔اس میں زبان کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا، دوسرے بڑی جلدی میں آپ نے اسے بنانا ہوتا ہے، اس کے برعکس کتاب کا ترجمہ کہیں زیادہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔

اس لیے میں کتاب کے ترجمے میں بار بار تبدیلی کرتا۔پروف بھی خود پڑھتا اور اس دوران بھی تصیح کرتا رہتا۔متن سے انحراف کئے بغیرکوشش رہتی کہ تحریر کی سلاست اور روانی برقرار رہے۔ترجمے کے استعداد متواتر مشق سے ہی بہتربنائی جاسکتی ہے۔ترجمہ بہتر بنانے کے لیے ڈکشنری سے استفادہ معمول ہونا چاہیے۔‘‘ اقبال زبیری کووہ اپنا آئیڈیل صحافی قرار دیتے ہیں۔کالم نویسوں میں نذیر ناجی،عبدالقادر حسن اور عطاء الحق قاسمی کا نام لیتے ہیں۔سالہا سال اخبارات میں اداریہ لکھنے والے نذیر حق بڑے عجز سے کہتے ہیں کہ وہ تو بس گزارا کرلیتے تھے ۔ان کے بقول، مجیب الرحمان شامی باقاعدگی سے اداریہ نہیں لکھتے مگر جب بھی وہ لکھتے ہیں، کمال کر دیتے ہیں۔ سرخی جمانے میں ان کے خیال میں قدرت اللہ چودھری کا جواب نہیں،سرخی دیکھ کر فوراً پتا چل جاتا ہے کہ یہ ان کی نکالی ہوئی سرخی ہے۔نذیر حق ایک پرشوق قاری رہے ہیں، جس کی تصدیق ان کے گھر میں موجود تین ہزار کتب سے بھی ہوتی ہے۔ انھیں اسلامی اور تاریخی موضوعات پرکتب پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رہی۔ بینائی میں فرق آجانے کے باوجود قرآن پاک ترجمے و تفسیر کے ساتھ اب بھی پڑھتے ہیں۔ سرکاری حج کرنے کی کئی دفعہ پیشکش ہوئی ، جو انھوں نے قبول نہیں کی، اور اپنے خرچ سے دو بار حج کی سعادت حاصل کی۔ کہتے ہیں، اب صحافیوں میں پڑھنے کا رواج نہیں رہا،اور ایسے صحافی بھی ہیں، جو اپنا اخبار بھی ٹھیک سے نہیں پڑھتے۔ وہ زندگی سے مطمئن اور راضی برضا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔