نئے انتخابات اور سیاسی کھیل

نصرت جاوید  بدھ 19 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خواجہ آصف کی سیاست جو بھی ہو وہ ہیں میرے دوست اور ضرورت سے کچھ زیادہ بے تکلف بھی ۔صحافی کا سیاستدان سے ذاتی تعلق بن جائے تو خبر جاننا اور اس کا تجزیہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے ۔ایک اور مصیبت یہ بھی ہوجاتی ہے کہ فرض کیا مجھے پاکستان مسلم لیگ نواز کے بارے میں بہت اندر کی خبر خواہ کسی اور ذریعے سے ملے، جاننے والے فوری طور پر خواجہ آصف کو اس کا ذریعہ قرار دے دیں گے ۔اسی لیے گزشتہ کئی برسوں سے اچھی طرح سوچنے سمجھنے کے بعد یہ طے کیے بیٹھا ہوں کہ مختلف سیاسی جماعتوں میں اہم عہدوں پر فائز اپنے ذاتی دوستوں سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر رہوں اور اگر سرِراہے یا کسی تقریب میں ملاقات ہوجائے تو محض حال واحوال دینے اور پوچھنے سے آگے نہ بڑھوں۔

چند روز پہلے جب میں اپنے گھر بیٹھا ریموٹ پر اُنگلیاں چلارہا تھا تو اچانک ایک اسکرین پر خواجہ آصف نظر آئے ۔موضوع تو اس ٹاک شو کا کچھ اور تھا مگر اس میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے اس سرکردہ رہ نما کے منہ سے ’’اچانک ‘‘ یہ بات نکل گئی کہ  آئین اور قانون کے تمام اصولوں اور شقوں کے مطابق شہباز شریف اور ان کی پنجاب اسمبلی کی مدت18اپریل2013ء کو ختم ہونی ہے۔  باتوں باتوں میں انھوں نے یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس تاریخ سے پہلے اپنی اسمبلی تڑوا کر اس کے لیے نئے انتخابات کروانے کی راہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

سچی بات ہے میں یہ بات سن کر حیران نہیں ہوا ۔اصولی طور پر خواجہ آصف درست فرما رہے تھے ۔مگر 18اپریل 2013ء پر ان کا اصرار واضح طور پر یہ پیغام بھی دے رہا تھا کہ اگر آصف علی زرداری 27دسمبر2012ء کو نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کو اس میں شمار نہ کریں ۔مزید غور کریں تو آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ اگر شہباز شریف 18اپریل 2013ء سے پہلے اپنی اسمبلی کی تحلیل کا بندوبست نہ کریں تو پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے جو ’’عام انتخابات‘‘ ہوں گے وہ اس صوبے میں کسی’’غیرجانبدار عبوری حکومت‘‘ کے تحت نہیں،شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ موجودگی میں ہوں گے۔ایسی صورت میں ممکنہ نتائج کیا برآمد ہوسکتے ہیں یہ طے کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے ان دوضمنی انتخابات کو یادکرلیجئے۔جو حال ہی میں چیچہ وطنی اور گجرات میں ہوئے ہیں ۔

خواجہ آصف کی جانب سے ’’اچانک ‘‘ منکشف کیے ان ہی ممکنات کی روشنی میں ٹیلی وژن کے ایک اور ٹاک شو کے اینکر نے ان پر ’’شوشے‘‘ چھوڑنے کا الزام لگا کر اندر کی بات جاننے کی کوشش کی ۔میری طرح وہ اینکر بھی خواجہ صاحب کے قریبی دوست ہیں ۔مگر خواجہ صاحب خود پر شوشے چھوڑ کر فساد پھیلانے والے شخص کا الزام ہضم نہ کر پائے ۔ناراض ہونے کا بہانہ بنا کر طرح دے گئے ۔ان کے رویے نے مگر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

اِدھر اُدھر سے پتہ چلایا تو خبر ملی کہ صدر آصف علی زرداری کے دربار میں آج کل بڑے سیانے مانے جانے والے حکومت کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ہر صورت میں 16مارچ 2013ء تک موجودہ قومی اسمبلی کو کھینچنے کی کوشش نہ کریں ۔بہتر یہی ہے کہ دسمبر کے آخری یا جنوری کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم اپنے ایوان کی تحلیل کا اعلان کردیں اور 2013ء کے مارچ ۔اپریل میں نئے انتخابات کروا لیں۔ اپنی آئینی مدت سے چند ماہ پہلے گھر جانا اس لیے تجویز کیا جا رہا ہے کہ مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے دوران لوڈشیڈنگ اپنی پوری شدت کے ساتھ لوٹ آئے گی ۔آیندہ سال فروری میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو قرضے کی ایک بھاری قسط بھی ادا کرنا ہے ۔وہ ادا کرنے کے بعد ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پریشان کن حد تک کم ہوجائیں گے ۔اس کا براہِ راست اثر روپے کی قدر پر پڑے گا جو ہماری معیشت میں مزید نحوست اور جمود کا واضح ثبوت سمجھا جائے گا ۔اسی لیے صدر زرداری کے نو رتن کہہ رہے ہیں کہ ’’مٹی پائو۔جان چھڑائو‘‘ ۔جو ہے اسی پر گزارہ کرو۔عبوری حکومت اور بعدازاں نئی منتخب حکومت کو آنے دو اور خود کونے میں بیٹھ کر ان کی بے بسی اور ناکامی کے مزے لو۔

میں نے جن لوگوں سے بات کی ان کی اکثریت نے اس شک اور کئی صورتوں میں دعوے کا اظہار کیا کہ دراصل خواجہ آصف کے ذریعے 18اپریل 2013ء کی تاریخ پر زور دے کر شہباز شریف اسلام آباد والوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کو قبل از مدت تحلیل کروا کر بھی ان کی جان نہیں چھوٹے گی ۔آصف علی زرداری کے نو رتنوں کو پورا سبق تو اس وقت دیکھنے کو ملے گا جب مرکز میں ایک عبوری حکومت ہوگی مگر پنجاب بدستور موجودہ وزیر اعلیٰ کی ’’گڈگورننس‘‘ میں جکڑا نئی قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کر رہا ہوگا۔مجھے ملنے والوں نے 18اپریل 2013ء پر زور دینے کے عمل کی جو تشریح وتوضیح پیش کی وہ مجھے بہت معقول البتہ بڑی چسکے دار محسوس ہوئی اور میں نے اسے فوراً  قبول کرکے آگے پھیلانا بھی شروع کردیا۔

یہ کالم لکھنے سے چند گھنٹے پہلے میں البتہ ایک بزرگ،تقریباً ریٹائرڈ مگر انتہائی تجربہ کار سیاستدان سے ملا۔ان کو یہ تشریح سنائی تو وہ میری بے وقوفی پر حیران ہونے کے علاوہ ناراض بھی ہوگئے ۔انھیں ہضم نہیں ہوا کہ رپورٹنگ میں اتنے برس گزاردینے کے بعد بھی میں اس بات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہا کہ ہمارے جیسے ملکوں میں حکومتیں ہٹانے اور لانے والے ایک بار پھر’’اہل ،ایمان دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت لانا چاہ رہے ہیں ۔ارادہ یہ ہے کہ بظاہر نئے انتخابات کروانے کے نام پر بنائی جانے والی یہ حکومت پہلے صاف اور شفاف انتخابی فہرستیں تیار کرنے اور بعدازاں تازہ مردم  شماری کروانے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنے کے نام پر اپنی مدت  بڑھاتے ہوئے ’’کڑے احتساب‘‘ کا عمل بھی شروع کردے۔ پھر ایسے غیر مقبول مگر طویل المدتی حوالوں سے ضروری فیصلے کرنے کے بعد پاکستانی معیشت کو جمود سے نکال کر خوشحالی کی راہوں پر ڈال دے ۔

اس سارے عمل کے لیے کم از کم دو سے تین سال کی مدت مانگی جا رہی ہے ۔میرے بزرگ سیاستدان کا اصرار تھا کہ صدر آصف علی زرداری بھی اپنی بقیہ صدارتی مدت ختم ہونے تک ایسی حکومت کے ساتھ گزارہ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔شہباز شریف نے خواجہ آصف کے ذریعے 18اپریل 2013ء تک اپنی حکومت کو قائم رکھنے کی ضد کا اظہار کرتے ہوئے دراصل مرکز میں ’’ٹیکنوکریٹس کی حکومت‘‘ کا قیام روکنے کی کوشش کی ہے ۔پاکستان مسلم لیگ نواز نئے انتخابات چاہتی ہے ۔اس کے علاوہ کسی گیم کا حصہ بننے کو تیار نہیں ۔میرا خیال ہے اپنے بزرگ سیاستدانوں سے ملاقات کے بعد مجھے خواجہ آصف سے بھی مل لینا چاہیے اور صدر زرداری سے وقت لینے کی کوشش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔