پیسہ بہت کچھ ہے‘ سب کچھ نہیں

رئیس فاطمہ  بدھ 19 دسمبر 2012

وہ میرے سامنے بیٹھی مسلسل روئے جا رہی تھی اور ایک ہی جملہ بار بار دہرا رہی تھی۔ ’’باجی! آپ نے سچ کہا تھا، میں کنوئیں سے نکل کر کھائی میں گرگئی، میرے بچے مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں، وہ میری صورت دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘

’’ اور جس کی خاطر تم نے اپنے شریف شوہر اور تین جوان بچیوں کو چھوڑا تھا، وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا، یہ بھی تو کہو۔۔۔۔!‘‘ میں نے کہا۔

’’آپ سچ کہتی ہو، لیکن میں اب کہاں جاؤں،کوئی بہن بھائی مجھ سے ملنے کا روادار نہیں ہے، بس آپ ہی ایک سہارا ہیں، آپ مجھے دوبارہ رکھ لیں، اللہ آپ کو اس نیکی کا اجر دے گا۔‘‘ اس نے میرے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔

سن 2009 کے اوائل کی بات ہے کہ مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ ایک ضرورت مند عورت کو کسی گھر میں ملازمت درکار ہے، پورے دن کی۔ چونکہ میں کافی عرصے سے کسی ایسی خاتون کی تلاش میں تھی جو سارا کام سنبھال لے، ایماندار اور بھروسے کے قابل ہو۔ کوئی نہ کوئی اس کی ذمے داری بھی لے سکتا ہو، کہ کراچی میں پورے ملک سے ضرورت مندوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ لوگوں کی یلغار خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔

جو موقع پاتے ہی واردات کردیتے ہیں۔ چھوٹی موٹی چوری چکاری تو معمول کی بات ہے۔ ضرورت مند عورتیں تو بہت آتی تھیں جو صبح دس بجے سے شام سات بجے تک رہنے پر راضی تھیں، لیکن ان کی ذمے داری لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ چونکہ گھر میں صرف ہم دو افراد ہیں اس لیے یہ ارادہ ترک کردیا تھا اور مختلف گھروں میں کام کرنے والیوں ہی سے گزارہ ہورہا تھا، جنھیں عرف عام میں کراچی میں ’’ماسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ ماسی کا مطلب ہوتا ہے ’’خالہ‘‘۔ لیکن کراچی میں ہی نہیں لاہور میں بھی یہ لفظ اپنا اصل مفہوم کھوچکا ہے، جو اچھا نہیں لگتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ غلط العوام ہے اور اسے بدلنا میرے بس کی بات نہیں۔

ہاں تو بات ہورہی تھی ان خاتون کی جو ضرورت مند تھیں اور صرف ایک گھر میں کام کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے انھیں پہلی فرصت میں بلوایا۔ حلیے سے وہ ایک شریف خاندان کی فرد لگتی تھیں۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت پاس ہیں۔ شوہر درزی کا کام کرتے تھے۔ لیکن طویل عرصے سے دمے کا شکار ہیں۔ اس لیے آئے دن دکان بند رہتی ہے۔ آمدنی گھٹ رہی ہے۔ اس لیے خاتون جن کا نام بتول تھا، انھوں نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں نوکری کرلی۔ لیکن وہاں کی سخت مشقت، زیادہ وقت اور برائے نام اجرت کی بناء پر وہ اسے چھوڑنا چاہتی تھیں۔ خاتون کا تعلق ایک اچھے خاندان سے تھا، لیکن غریب سے کوئی رشتہ قائم نہیں رکھنا چاہتا۔ بہرحال پورا اطمینان کرنے کے بعد انھیں میں نے رکھ لیا۔

انھوں نے دو دن میں سارا کام سمجھ لیا اور مجھے بھی ایسا لگنے لگا کہ وہ ہمارے ہی گھر کی فرد ہیں۔ بہت مہذب اور سلجھی ہوئی اچھی شکل وصورت کی خاتون، جنھیں اپنے بچوں اور شوہر سے بہت محبت تھی اور انھی کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔ ہمارے گھر کی ایک چابی ان کے پاس رہتی تھی۔ دو تین ماہ کے بعد وہ اکثر دیر سے آنے لگیں، یا پھر جلدی چلی جاتیں۔ شہر کے حالات خراب ہوتے تو وہ اپنے شوہر کی اجازت سے ہمارے ہی گھر رک جاتیں، کیونکہ جہاں سے وہ آتی تھیں اکثر اس علاقے میں ٹرانسپورٹ بند ہوجاتی۔ پھر یوں ہوا کہ جب اورنگی ٹاؤن کے حالات خراب ہوئے تو وہ رکی نہیں بلکہ سہ پہر ہی میں نکل گئیں۔ لیکن وہ اپنے گھر نہیں پہنچی۔ ان کے شوہر اور بچوں نے بتایا کہ وہ تو اکثر رات کو گھر نہیں آتیں اور کہتی ہیں کہ آپ کی طبیعت خراب تھی اس لیے انھیں رکنا پڑا۔ یہ سن کر میرے تو ہوش اڑگئے کہ میں حتی الامکان ان کی مالی مدد تنخواہ کے علاوہ بھی کرتی ہوں، لیکن رات کو تو انھیں کبھی نہیں روکا، دو بار خود وہ رکیں۔ اگلے دن جب وہ آئیں تو ان سے باز پرس کی گئی، تو وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکیں۔

ان دنوں ان کا میک اپ بہت گہرا ہونے لگا تھا، نئے نئے کپڑے، سینڈلیں اور نت نئے ہینڈ بیگ ان کے پاس نظر آنے لگے۔ پھر اگست 2011 میں جب وہ گئیں تو پلٹ کر نہ آئیں۔ موبائل مسلسل بند تھا۔ انھوں نے کوئی رابطہ نہ کیا، پھر پتہ چلا کہ انھوں نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔ مزید یہ کہانی کھلی کہ محلے کے ایک شخص سے ان کے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے تھے جوکہ پہلے سے شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ تھا۔ بتول کچھ رومانی مزاج کی خاتون تھیں جب کہ ان کے شوہر نہایت سادہ مزاج۔ اس شخص نے بتول کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ اسے تحائف دینے شروع کیے، جا بے جا تعریفیں شروع کردیں اور پورے طریقے سے اسے اپنے جال میں اس حد تک پھنسا لیا کہ وہ اس کے ساتھ آزادانہ گھومنے پھرنے لگیں۔ شوہر اور بچوں کے علم میں محلے والے جب یہ بات لائے تو انھوں نے نہایت ڈھٹائی سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ ان کے شوہر اور بچوں نے جب ہمیں یہ بات بتائی تو بتول کو سمجھانے کی میں نے بہت کوشش کی، لیکن عشق کا بھوت سر پر سوار تھا لہٰذا انھوں نے کسی کی نہیں سنی اور خلع لے کر انھوں نے اس شخص سے نکاح کرلیا۔ بچوں اور بہن بھائیوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا اور جیسے انھوں نے وہ سب کچھ پالیا جس کی تمنا تھی۔ لیکن آج وہ پھر میرے سامنے بیٹھی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ مجھے آج بھی ان کی ضرورت ہے۔

لیکن بوجوہ اب ہم انھیں اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ کیونکہ وہ شخص ان محترمہ سے کچھ ’’دوسرے کام‘‘ کروانا چاہتا تھا۔ جس کے لیے وہ راضی نہ ہوئیں تو وہ ایک رات ان کی جمع پونجی پچاس ہزار روپے لے کر اپنے بیوی بچوں کے پاس فیصل آباد چلا گیا اور انھیں بے یارومددگار چھوڑ گیا۔ وہ جب اپنے کیے پر پچھتا رہی تھیں تو میں نے ان سے ایک سوال پوچھا کہ ’’وہ اس چنگل میں کیسے پھنسیں؟‘‘ تب انھوں نے بتایا کہ جب وہ ٹی وی پر ایسے ڈرامے دیکھتی تھیں جن میں شادی شدہ خواتین غیر مردوں یا اپنے سابقہ ’’دوستوں‘‘ سے آزادانہ ملتی تھیں، مختصر لباس پہنتی تھیں، جینز اور ٹی شرٹ میں بغیر دوپٹے کے اپنے جلوے بکھیرتی تھیں، بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسری سرگرمیوں اور تفریح میں مصروف رہتی تھیں۔ زندگی رومان اور پرتعیش طرز حیات کے گرد گھومتی تھی، ٹیلی ویژن پر بھاری اور قیمتی میک اپ کرنے کے نت نئے طریقے بتائے جاتے تھے، کھانے پکانے کے پروگراموں میں بھی خواتین بے تحاشا میک اپ، جیولری اور جدید تراش خراش کے لباس پہنے نظر آتیں، گھروں میں ملازم نظر آتے، قیمتی سامان، پردے اور صوفے دکھائی دیتے، تو انھیں اپنی حالت پر بہت افسوس ہوتا۔

خاص کر اپنی ذاتی زندگی بہت بے مصرف اور روکھی پھیکی لگتی کہ ان کے پاس ایک اچھی لپ اسٹک بھی نہ تھی اور اس کے ساتھ ہی شوہر کا سادہ مزاج بھی کھٹکتا تھا۔ جس نے کبھی اپنی محبت کا اظہار زبان سے نہ کیا اور جب اس کمی کو محلے کے ایک شخص نے پورا کرنا شروع کیا تو وہ غیر ارادی طور پر شوہر سے دور اور اس شخص سے قریب ہوتی گئیں۔ جس نے تحائف دے کر اپنی طرف مائل کرلیا تھا اور اپنی چرب زبانی سے رومانس کی کمی کو بھی پورا کردیا تھا۔ اب وہ خاتون خود کو کسی رومانی ڈرامے کی ہیروئن سمجھنے لگی تھیں، جن کے عشق میں ایک شخص پاگل ہورہا تھا، اور وہ اپنی دو جوان بیٹیوں اور سولہ سالہ بیٹے کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ اس کے بعد کی کہانی اور واقعات بڑے دل گرفتہ ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان کا نشہ جلد ہی اتر گیا۔ لیکن اب ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی، کیونکہ جس عورت نے اپنی جوان بچیوں کا خیال نہ کیا کہ جب ان کی شادی ہوگی تو لوگ کہیں گے کہ ’’ان کی ماں بھاگ گئی‘‘ وہ عورت نہیں، عورت کے نام پر بدنما دھبہ ہے۔ یہ بات مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے انھیں سمجھائی، لیکن سفلی جذبات کی کالی پٹی نے انھیں اندھا کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔