قطری خط شریف خاندان کے بیانات کی تردید ہی تو ہے...

رحمت علی رازی  ہفتہ 19 نومبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

سپریم کورٹ میں زیرسماعت پاناما لیکس کا مقدمہ ہرنئی سنوائی پر ایک نئی پیشرفت لے کر آتا ہے‘ انسانی حقوق کی بنیاد پر ازخود نوعیت کے اس معروف اور اہم کیس کو تادمِ تحریر بیس ایام ہوچکے ہیں اور اب اگلی سماعت 30نومبر مقرر کی گئی ہے‘ جس مقدمے کا فیصلہ دنوں اور ہفتوں میں متوقع تھا اس میں ایک مہینہ ضایع کیا جا چکا ہے۔

وزیراعظم اور ان کی اولاد کی طرف سے جو ثبوت عدالت میں جمع کرائے گئے ہیں ان میں تال میل نظر نہیں آتا اور ایک اندھا بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ مدعاعلیہان کے مختلف اوقات میں جاری کیے گئے بیانات اور کئی مواقع پر میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں بُعدالطرفین پایا جاتا ہے‘ شریف برادران نے آج تک اپنی سیاست اور امارت ملکی وغیرملکی اداروں اور کمپنیوں کی ملی بھگت سے پروان چڑھائی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ میں پاناما کا کیس لگنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے سب سے پہلا حفاظتی بندوبست یہ کیا کہ ایک اکائونٹنگ کمپنی سے اپنے گوشوارے کلیئر کروانے کابیان دلوایا‘ اخباروں میں شریف فیملی کے میڈیا سیل کی طرف سے ایک اسٹوری شایع ہوئی جسے کچھ اخبارات نے اپنے مفادات کے مطابق جگہ دی‘ کئی ایک نے تو اسے شہ سرخیوں میں بھی ڈھال دیا‘ کسی نے لکھا کہ آڈٹ فرم کے مطابق نوازشریف اور مریم نواز کے گوشواروں میں کوئی تضاد نہیں تو کسی نے سرخی بنائی ’’نوازشریف اور مریم نواز کے ٹیکس گوشوارے ہر لحاظ سے درست پائے گئے‘‘۔

یہ تو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی طرح حکمرانوں کو ہر بحران میں کلین چٹ دینے والی بات ہے جسکے پاکستان میں سربراہ کو انعام کے طور پرکسی ملک کا سفیر بنایا جا رہا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ نوازشریف کو یہ کلین چٹ مفت میں مل گئی ہوگی‘ اس میں یقینا کوئی مک مکا ہو گا۔

ویسے بھی وزیراعظم نے ہارٹ سرجری کے لیے لندن یاترا کے دوران اپنے خلاف جانے والے بیشمار ثبوت تبدیل کروائے اور غیرملکی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جو آج تک اس کوشش میں ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف ثبوت مٹا دیے جائیں تاکہ فرانزک آڈٹ بھی انہیں گنہگار ظاہر نہ کرسکے‘ اس آڈٹ فرم نے نوازشریف اور مریم کے ٹیکس گوشواروں کو قانون کے مطابق قرار دیدیا ہے‘ اس کی رپورٹ میںکہا گیا کہ ’’لندن میں فلیٹس خریداری کے معاملے پر اپوزیشن کی تنقید بے بنیاد ہے۔

وزیراعظم نے 2011-12ء کے گوشواروں میں مریم نواز کو اپنے زیرکفالت ظاہر نہیں کیا‘ نوازشریف اور مریم نواز کے ٹیکس گوشواروں میں کوئی تضاد نہیں‘ وزیراعظم نے 2011ء میں اپنی بیٹی کے نام خریدا گیا پلاٹ اس وقت کے ٹیکس گوشواروں کے درست کالم میں درج کیا، مریم نواز کانام کالم12 میں اس لیے لکھنا پڑا کیونکہ ٹیکس گوشواروں میں اس دوران کالم موجود نہیں تھا جو خودکفیل ظاہر کرے۔

ایف بی آر نے ٹیکس گوشواروں کے فارم میں تبدیلی 2015ء میں کی اور ایسا کالم شامل کیا‘ پلاٹ کی خریداری کے وقت مریم نواز خود بھی ٹیکس فائلر تھیں‘ مریم نواز نے اگلے سال بینک ذرایع سے رقم ادا کرکے پلاٹ اپنے نام کروالیا جسکا ذکر 2012ء اور 2013ء کے گوشواروں میں موجود ہے‘ اسے ایک مخصوص سوال بنایا گیا جو 2011ء کے نوازشریف کی ریٹرن سے متعلق ہے، اس میں اگر انھوں نے کسی اور کے نام پراپرٹی خریدی ہے جو ابھی گفٹ نہیں ہوئی تو اسکو کہاں دکھایا جائے گا‘ تو ظاہر ہے وہ نواز شریف کے ریٹرن میں ہی دکھایا جائے گا‘‘۔

اس استدلال سے اس لیے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ2011ء میں وہ کالم ڈی پینڈنٹ والا کالم تھا، اس لیے ڈی پینڈنٹ ہونے کیوجہ سے مریم کا نام اس میں دکھایا گیا‘ہمارے حساب سے یہ ڈیکلریشن درست نہیں کیونکہ ایف بی آر نے توخودکفیل والا کالم 2015ء میں تخلیق کیا جب کہ مریم نواز2011ء کے ٹیکس ریٹرن میں زیرکفیل ہیں‘ کیا یہ قانون وزیراعظم کو بچانے کے لیے نہیں بنایا گیا؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مدعاعلیہان کے نئے نئے پینترے بدلنے کیوجہ سے پاناماکیس کسی سمت جاتا نظر نہیں آرہا ہے‘ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کیے گئے اخباری تراشے اور کتابوں کے صفحات کو شواہد نہیں تسلیم کیا جاسکتا ہے‘ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اخباری تراشوں پر سپریم کورٹ کئی ازخودنوٹس لے چکی ہے‘ اخباری خبریں، تراشے ٹھوس ثبوت کے طور پر پہلے بھی پیش کیے جاچکے ہیں، نوازشریف اور ان کے بچوں نے اس سے پہلے کیوں اس کا ذکر نہیں کیا؟

پاناما کیس میں جوڈیشل کمیشن بننے کے امکانات کم نظر آرہے ہیں‘ سپریم کورٹ کے ازخود پانامالیکس پر فیصلہ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ بڑی دلچسپ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ ہمارا کوئی حکمران سعودی عرب، کوئی قطر اور کوئی امریکا کا محتاج ہوتا ہے‘ اتنے غریب رہنما تو ہم نے کبھی نہیں دیکھے‘ دنیا میں کوئی ترازو حکمران کی بدیانتی تول کر نہیں بتاسکتا ہے‘ آصف علی زرداری کے خلاف بھی کچھ ثابت نہیں ہوا جنہیں نون لیگ والے ٹین پرسینٹ کہا کرتے تھے۔

ثبوتوں کی بین کربند گاڑی میں بیٹھنے کا دوسرا کارنامہ شریفوں کی طرف سے تب سامنے آیا جب اکرم شیخ آلِ شریف کی طرف سے وکیل بن کر سامنے آئے‘ انھوں نے اپنا وکالت نامہ پیش کرنے کے بعد اپنی پہلی صفائی میں قطری شہزادے شیخ حمدبن جاسم کی طرف سے لکھاگیا ایک خط عدالت میں پیش کیا جس کے ساتھ ہی معزز جج صاحبان سے یہ استدعا بھی کر ڈالی کہ یہ خط خفیہ رکھا جائے‘ حمدبن جاسم قطر کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور قطری محکمہ خارجہ میں بھی انہیں نمایاں مقام حاصل ہے‘ ان کا شمار دنیا کے کھرب پتی افراد میں ہوتا ہے۔

حمد بن جاسم کے دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انواع کے کاروبار ہیں جنہیں چلانے کے لیے وہ باقاعدگی سے عطیات اوردیگر ذرایع کا سہارا لیتے ہیں‘ نوازشریف سے ان کا کاروباری گٹھ جوڑ ہے اور ان کی ملکیتی کئی کمپنیوں میں نوازشریف فیملی کی سرمایہ کاری ہے‘ حمدبن جاسم کی کمپنی ’’ریڈکو انٹرنیشنل‘‘ اسٹیل کا کاروبار بھی کرتی ہے جو 1982ء میں شریفوں کے کہنے پر شروع کیا گیا تھا‘ اسی کمپنی میں پاکستان کے احتساب کمیشن کے سابق سربراہ وسابق سینیٹر سیف الرحمان بھی (جنکے ذریعے نوازشریف نے ریڈکو انٹرنیشنل میں سرمایہ کاری کی) شیئر ہولڈر ہیں۔

سیف الرحمان قطر میں گزشتہ چالیس سال سے رہائش پذیر ہیں اور ان کی ذاتی کمپنی بھی قطر کی سب سے بڑی کمپنی تصور کی جاتی ہے‘ شاہی خاندان سے ان کی دیرینہ دوستی اور تعلق ہے‘ حمدبن جاسم کا خط بھی انھوں نے ہی جاری کروایا جس میں قطری شہزادے نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے پاس کئی برسوں سے شریف خاندان کی سرمایہ کاری پڑی ہوئی ہے اور میاں شریف نے دبئی کی اسٹیل مل بیچ کر حمدبن جاسم کے والد شیخ یاسین بن جابر کے پاس سرمایہ کاری کی تھی جو رئیل اسٹیٹ کی شکل میں تھی۔

سیف الرحمان کے ذریعے نوازشریف بھی بعد میں شیخ حمد کے انویسٹمنٹ فنڈ میں سرمایہ کاری کرتے رہے اور ان کا تمام لین دین اور کاروباری حساب سیف الرحمان دیکھتے رہے‘خط کے مندرجات میں یہ بھی شامل ہے کہ حسین نواز نے حمدبن جاسم سے درخواست کی تھی کہ ہماری جتنی بھی ٹرانزیکشنز تھیں انہیں کنفرم کردیں‘ یہ ٹرانزیکشنز پرانی سرمایہ کاری ہے جو ان کے دادا نے کی تھی۔

شیخ حمد، سیف الرحمان کے اسپانسر جب کہ شیخ کے بیٹے بھی سیف الرحمان کے بزنس پارٹنر ہیں‘ جب نوازشریف کومشرف نے جیل میں ڈالا تھا تو حمدبن جاسم پہلے شخص تھے جنھوں نے مشرف سے لڑجھگڑ کر میاں صاحب سے جیل میںملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ قطری ریاست کی ساری سپورٹ ان کے ساتھ ہے‘ فوجی بغاوت کے صرف دو گھنٹے بعد ہی شیخ حمد نے مشرف سے بات کرکے سیف الرحمان کی اہلیہ کو اطلاع دی کہ ان کے شوہر خیریت سے ہیں اورقطری ریاست انہیں جلد بچا لے گی۔

قطری شہزادے کے خط کے بعد نوازشریف اور ان کے بچوں کا پاناما لیکس پر موقف مشکوک ہوکر رہ گیا ہے اور یہ بات معزز عدالت بھی کہہ چکی ہے‘ عدالت نے وکیلِ صفائی سے یہ بھی پوچھا ہے کہ بوقتِ ضرورت حمدبن جاسم گواہی دینے کے لیے پاکستان آئینگے یا نہیں، جس پر اکرم شیخ کا جواب تھا کہ اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے‘ سیف الرحمان کا کہناہے کہ قطری شہزادے حمد کو پاکستان بلانا مناسب نہ ہوگا کیونکہ وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں اور قطر کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔

چنانچہ سپریم کورٹ کمیشن بھیج کر شہزادے کے خط کی تصدیق کراسکتی ہے‘ اس دلیل سے ہم قطعی اتفاق نہیں کرتے کہ کوئی آدمی اگر عدالت کو جواب بذریعہ خط دیتا ہے تو اپنی امارت کی وجہ سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوگا۔ شیخ حمدبن جاسم کے اپنے معاملات کی جہاں تک بات ہے، تو ان پر بھی منی لانڈرنگ کے الزامات لگ چکے ہیں، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں ان کی آف شور کمپنیاں ہیں اور  ان پر آسٹریلیا اور امریکا میں مقدمات بھی رہے ہیں جن میں وہ ڈونیشن دیکر بری الذمہ ہونے میں کامیاب ہوئے۔

کہا جاتا ہے کہ نیوجرسی میں قطری ریاست کے 500ملین پائونڈ کے اسلحہ معاہدہ کے سلسلہ میں حمدبن جاسم نے 7ملین پائونڈ اپنی دو آف شور کمپنیوں میں منتقل کیے (جنہیں وہ ٹرسٹ کا نام دیتے ہیں) اور جرسی فنانشل سروسز کمیشن نے اس رقم کو منجمد کر دیا تو انہیں 6 ملین پائونڈ ادا کرکے جان بخشی کروانا پڑی۔ ایسا ہی ایک مقدمہ ان پر ان کے ایک قریبی عزیز نے لندن میں دائر کیا جس میں بھی وہ بچ نکلے۔

طلسماتی خط کے بعداس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ نوازشریف فیملی کی آف شور کمپنیاں بھی ان کے مشترکہ اکائونٹ سے منسلک ہوسکتی ہیں جنکے بارے میں پتہ لگانا عام فرانسک ماہرین کے بس کی بات نہیں ہے‘ لگتا ہے جس طرح شہزادہ حمدبن جاسم نواز شریف کو مشرف کے نرغے سے نکال کر لے گئے تھے، اس بار بھی ان کے ارادے کچھ ایسے ہی نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے خط کی وجہ سے نوازشریف فی الوقت تو پاناماکے پس منظر میں چلے گئے ہیں‘ قطر کے شہزادے کا خط اگر واقعی ان کا ہے تو اپنے پیچھے بڑے سوالات چھوڑ گیا ہے‘ قطر فیملی کو عدالت میں ثبوت دکھانا ہونگے کہ آیا ان کا میاں شریف کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا تھا؟

عدالت قطر کے شہزادے کے خط کی تصدیق کے لیے دستاویزات بھی مانگ سکتی ہے مگرہمارے خیال میں عدالت قطر کی رائل فیملی کے کسی شخص کو نہیں بلائے گی۔ اگر شریف فیملی کے ثبوتوں میں مزید تضاد پایا گیا تو کیس اور بھی دلچسپ ہوجائیگا‘ پاکستان اداروں کی جاگیروں کا مجموعہ ہے‘ نوازشریف اور پرویز مشرف سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ان پر عرب حکمرانوں نے کس چیز کے بدلے میں عنایتیں کی ہیں۔

ہوسکتا ہے خط پر دستخط شہزادے کے ہوں لیکن مندرجات، الفاظ ان کے نہیں کیونکہ قطری شہزادے کے خط میں جوزبان استعمال کی گئی وہ عرب ممالک میں استعمال نہیں ہوتی۔ عدالت نے یوسف رضا گیلانی، پرویزاشرف کے مقدمات کا پیمانہ اپنایا تو نوازشریف یقینا فارغ ہوسکتے ہیں۔سپریم کورٹ میں شریف خاندان نے گوبعض سوالات کا جواب جمع کرا تودیا ہے تاہم بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور خفیہ اکائونٹس کے ضمن میں متعدد بنیادی سوالات کا جواب نہیں دیا گیا اور بظاہر شریف خاندان نے اپنے بارے میں پیدا کرنیوالے شکوک وشبہات کو رفع کرنے کا سنہری موقع ضایع کردیا ہے۔

پہلا سوال تو یہ ہے کہ پانامالیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر مختلف درخواستوں کے جواب میں شریف خاندان کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ مریم نوازآف شور کمپنیوں کی قانونی مالک نہیں ہیں بلکہ اس ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں جسکے تحت یہ آف شور کمپنیاں چلائی جارہی ہیں جب کہ آف شور کمپنیوں کے قانونی مالک حسین نواز ہیں اور ان ہی کے بچے ان کے بعد اس کے وارث ہونگے‘ حسین نواز نے 2006ء سے ان آف شور کمپنیوں کے حقیقی مالک کے طور پر بیان دیا اور یہ کہ ان کے خاندان کے افراد بینیفشل اونرز ہونگے۔

برطانیہ میں رجسٹرڈ ٹرسٹ کی دستاویزات کے ذریعے تو یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی حقیقی مالک نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت ٹرسٹی کی ہے مگر برٹش ورجن آئی لینڈ کی دستاویزات تو یہ کہتی ہیں کہ مریم نواز حقیقی یا قانونی مالک ہیں تو پھر وہ پابند ہیں کہ پاکستان میں اپنے سالانہ گوشواروں میں ان بیرونی اثاثوں کو ظاہر کریں‘ شریف خاندان ان آف شور کمپنیوں کی 2006ء سے ملکیت کا اعتراف کرتا ہے جب کہ اصل مسئلہ ان کمپنیوں کی 2006ء سے قبل ملکیت کا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ 2006ء سے پہلے ان کمپنیوں کا مالک کون تھا‘ زیادہ ترسوالات کا تعلق 2006ء سے قبل سے ہے‘ جن سوالات کا جواب نہیں آیا ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ حسین نواز نے کس سے مذکورہ آف شور کمپنیاں خریدیں جو پہلے ہی پارک لین فلیٹس کی ملکیت رکھتے تھے؟

کیا یہ آف شور کمپنیاں خریدی گئیں یا خاندان کے اندر موجود تھیں؟جائیداد کی تقسیم سے متعلق تو افواہیں گردش میں ہیں مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ داخل کرائے گئے جوابات میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ آف شور کمپنیاں 2006ء میں قیمت کی ادائیگی کے بعد خریدی گئیں‘ جب حسین، حسن اور مریم اپنے جوابات میں ’’فیملی ممبرز‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد 6افراد ہیں جن میں والد نواز شریف والدہ کلثوم نواز اور چار بہن بھائی شامل ہیں جن میں تین وہ خود ہیں۔ جب نوازشریف لفظ ’’فیملی‘‘ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مذکورہ 6 افراد کے علاوہ ان کے مرحوم والد محمدشریف اور تمام بھائی شامل ہیں۔

یہ ایک جانی مانی بات ہے کہ شریف خاندان لندن کے فلیٹس کو 1992ء سے استعمال کررہا ہے‘ متعدد سیاستدان اور صحافی اس اَمر کی نشاندہی کرچکے ہیں جو ان فلیٹس میں شریف خاندان کے افراد سے مل چکے ہیں‘ بنیادی سوال معاملہ کی تفصیل سے متعلق ہے جسکے تحت شریف خاندان پارک لین کے ان فلیٹس کو استعمال تو 1992ء سے کررہا ہے مگر خریدے 2006ء میں ہیں‘ اس میں کوئی حرج نہیں کہ لندن فلیٹس کی 1992ء سے 2006ء تک کی ملکیت کے بارے میں بتایا جائے، اس سے یہ بھی واضح ہوجائیگا کہ کلثوم نواز نے 2000ء میں ’’گارڈین‘‘ کو انٹرویو میں یہ کیوں کہا تھا کہ لندن فلیٹس بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں خریدے گئے‘ آف شور کمپنیوں کو کتنی رقم کے عوض خریدا گیا۔

یہ بھی واضح نہیں کیا گیا‘ شریف خاندان کی طرف سے اس بات کا اکثر اپنے بیانات میں اعادہ کیا گیا کہ مذکورہ آف شور کمپنیاں خریدنے کے لیے پاکستان سے پیسہ منتقل نہیں کیاگیا تاہم اس مرحلے پر 2006ء میں ان کمپنیوں کی خریداری پر خرچ کی جانے والی مجموعی رقم کے بارے میں تاحال کچھ نہیں بتایا گیا‘ دبئی میں استعمال ہونے والی رقم پاکستان میں سالانہ گوشوارے میں ظاہر نہیںکی گئی اور 1972ء سے 1980ء تک کی ان دستاویزات کا سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جوابات میں بھی ذکر نہیں کیا گیا جو بینکوں سے متعلق تھیں۔

نواز شریف قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی خطاب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم پاکستان سے نہیں گئی بلکہ یہ رقم دبئی کی اسٹیل ملز بیچ کر حاصل کی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ دبئی اسٹیل ملز بنانے پر کتنے پیسے صرف ہوئے اور اب حمدبن جاسم کا خط کہہ رہا ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ انھوں نے فراہم کیا، یہ کیا تضاد ہے؟ قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے والد نے 1973ء میں دبئی میں اسٹیل ملز لگائی، مگر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میںکہا گیا ہے کہ انھوں نے کاروبار یا جائیداد کی خریداری کے لیے کبھی پاکستان سے پیسہ بیرون ملک منتقل نہیں کیا۔

اسی طرح 70ء کے عشرے میں بی سی سی آئی بینک سے لیے جانے والے قرضے کا بھی ذکر نہیں کیا گیا، یہ قرضہ بعد میں معاف کرا لیا گیا‘ گلف اسٹیل ملز 90 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی اور 2002ء میں اس رقم سے عزیز یہ اسٹیل ملز جدہ تعمیر کی گئی مگر یہ رقم 23 سال کہاں محفوظ رہی، اس کا جواب کہیں نہیں ہے‘ ان 90لاکھ ڈالر کا پاکستان کے ٹیکس گوشواروں میں کہیں ذکرنہیں ہے کہ یہ رقم کب دبئی سے جدہ منتقل ہوئی تاکہ عزیزیہ اسٹیل ملز قائم کی جاسکے۔

عزیزیہ اسٹیل مل کے لیے دبئی سے سعودی عرب کتنی اور کب رقم منتقل کی گئی؟ اس سوال کا جواب بھی ہنوز تشنہ ہے‘ شریف خاندان 23میں سے 20سال قومی سیاست میں متحرک رہا‘ اس کے باوجود یہ 90لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ملک میں کیوں نہ لائی گئی؟ التوفیق انوسٹمنٹ بینک برطانیہ سے حاصل کیے گئے قرضہ کی عدم ادائیگی پر لندن ہائیکورٹ میں مقدمہ چلا‘ شریف خاندان کے تمام افراد نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں اس کا ذکر کہیں نہیں کیا۔

نوازشریف نے محض اتنا کہا ہے کہ وہ اس مقدمہ میں فریق نہیں تھے‘ بیرونِ ملک واقع جائیداد کے بارے میں تو وضاحت کی گئی مگر کرپشن کے بارے میں عائد الزامات کا جواب نہیں دیا گیا‘ مثال کے طور پر عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں امریکا میں گندم کی فروخت کا الزام لگایا گیا جسکا کوئی جواب نہیں دیا گیا‘ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ 3دہائیوں سے شریف خاندان نے جو ٹیکس دیا اس میں 92فیصد سیلز ٹیکس ہے جو خریدار ادا کرتا ہے‘ اگر یہ غلط ہے تو دستاویزی ثبوت کے ساتھ اس کی تردید ہونی چاہیے مگر اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

اب دونوں فریقوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے شواہد کا معیار یہ طے کریگا کہ آیا وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے یا گھر جائینگے‘ اگربالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وزیراعظم کا تعلق کسی آف شور کمپنی، نیسکول اور نیلسن یا لندن کے فلیٹوں سے ثابت ہوا یا وہ منی لانڈرنگ یا پی ٹی آئی اور دیگر درخواست گزاروں کے الزامات کے مطابق رقوم کی منتقلی میںملوث پائے گئے تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور دیگر درخواست گزاروں کو اپنے الزامات کی روشنی میں ایسے شواہد پیش کرنا ہونگے جن سے ثابت ہوسکے کہ وزیراعظم نوازشریف کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر لندن کے فلیٹوں اور آف شور کمپنیوں کے ساتھ تعلق ہے‘ چونکہ وزیراعظم اس بات سے انکار کرچکے ہیں کہ رقوم کی منتقلی پاکستان سے ہوئی تھی‘ ان پر الزام عائد کرنیوالوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ اس معاملے میں وزیراعظم غلط ہیں‘ مریم نواز کو شواہد کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے والد کی زیرکفالت ہیں اور نہ ہی نیسکول، نیلسن اور کومبر کمپنی کی بینیفیشل اونر ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں مریم کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی ان آف شور کمپنیوں یا لندن کے فلیٹس کی مالک نہیں رہیں‘ انھوں نے کہا کہ یہ کمپنیاں ان کے بھائی حسین نواز کے فائدے کے لیے ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلائی جارہی ہیں جس میں وہ خود ایک ٹرسٹی ہیں‘ مریم کو یہ دستاویزی ثبوت پیش کرنا ہونگے کہ وہ بینیفیشل اونر نہیں بلکہ ایک ٹرسٹی ہیں۔

وزیراعظم کے خاندان میں سب سے زیادہ شواہد پیش کرنے کا بوجھ حسین نواز پر ہے جنہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے مالک ہیں جنکے متعلق انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ کمپنیاں انھوں نے 2006ء میں خریدی تھیں‘ انہیں دستاویزی شواہد کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ آف شور کمپنیوں کے بینیفیشل اونر وہ خود ہیں اور انھوں نے اپنی بہن مریم کو ٹرسٹی بنایا‘ انھوں نے ہی جائیدادیں خریدنے کے لیے فنڈز کا بندوبست کیا اور ان تمام مقاصد کے لیے انھوں نے اپنے والد سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔

پی ٹی آئی اور دیگر درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ یہ جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں شریف خاندان نے 1990ء کی دہائی میں خریدی تھیں‘ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ یہ جائیدادیں خریدنے کے لیے کرپشن کے ذریعے پاکستان سے رقوم منتقل کی گئی تھیں‘ ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے، پی ٹی آئی اور دیگر درخواست گزاروں کو دستاویزی شواہد کے ذریعے وہ سب ثابت کرنا ہوگا جن سے متعلق نوازشریف اور حسین نواز انکار کرچکے ہیں اور اصرار کرچکے ہیں کہ یہ رقم پاکستان سے باہر منتقل نہیں کی گئی تھی‘ الزام عائد کرنے والوں کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ شریف خاندان نے آف شور کمپنیاں اور لندن فلیٹس 1990ء کی دہائی میں خریدے تھے۔

حسین نواز نے کہا تھا کہ 2006ء سے قبل یہ جائیدادیں اور کمپنیاں ان کی یا ان کے اہل خانہ کے کسی رکن کی ملکیت نہیں تھیں‘ یہ جائیدادیں اور کمپنیاں خریدنے کے لیے جن فنڈز کو استعمال کیا گیا تھا وہ 1980ء میں ان کے دادا محمدشریف نے دبئی میں اسٹیل کے کاروبار میں جو سرمایہ کاری کی تھی اسے بیچ کر فنڈز حاصل کیے گئے۔

یہاں حسین نواز کو اپنے مرحوم دادا کی سرمایہ کاری کے متعلق نہیں بلکہ اپنے حوالے سے کہی ہوئی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنا ہونگے جب کہ ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے درخواست گزاروں کو شواہد پیش کرنا ہونگے‘ اس کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے سوائے اس کے سواکہ وہ ایک کمیشن تشکیل دے، اور کوئی چارۂ کار نہیں رہتا لیکن فاضل جج صاحبان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر عدالت کے سامنے فریقین مطلوبہ دستاویزات اور شواہد پیش کردیں تو عین ممکن ہے کہ کمیشن کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے اور عدالت کسی نتیجہ پر پہنچ جائے کیونکہ چیف جسٹس یہ فرما چکے ہیں کہ عدالت اس کیس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی تفتیش کے لیے پاناما جائیں گے بلکہ عدالت کے سامنے اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کا جلدازجلد فیصلہ ہوجائے تاکہ بقول ان کے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا جاسکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کی نظر میں عام اور بااثر شہریوں میں کوئی فرق نہیں تو پھر اربوں روپے کی کرپشن پر آنکھیں کیوں بند ہیں، پانامالیکس کے معاملہ میں بھی تاخیری حربے استعمال کرکے عدالتی کارروائی کو سست روی کا شکار بنایا جارہا ہے ‘ بڑے لوگ عدالتی کارروائی کو طول دیکر مشکلات کا باعث بنتے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔

وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ان کی طرف سے عدالتوں کے ساتھ یہ رویہ ہوگا تو پھر عام آدمی پر تو کوئی الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اس اہم ترین کیس کو لائیو چلایا جانا چاہیے تاکہ دنیا اور پاکستان کے مظلوم عوام کو بھی پتہ چل سکے کہ اس ملک کو کھوکھلا کرنے کے لیے کیا کچھ ہوتا رہا‘ عوام کو یہ بھی پتہ چل سکے کہ مدعی اور مدعاعلیہ اس کیس میں کس حد تک انصاف کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔