سو روپے کی مفت خوری…

شیریں حیدر  ہفتہ 19 نومبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ دانے کس طرح بیچتے ہو بابا جی؟ ‘‘ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈھیروں لفافوں کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں میں منتقل کیا، بائیں ہاتھ سے فون پکڑ کر نمبر ملایا اور اپنے ڈرائیور کو بتایا کہ وہ مسجد کے سامنے دانوں والی ریڑھی کے پاس کھڑی ہے۔

’’ بھون کر بیٹا!! ‘‘ بابا جی نے سادگی سے جواب دیا، میں اپنی مسکراہٹ کو دبا نہ سکی۔

’’ میرا مطلب ہے کہ کس بھاؤ؟ ‘‘ اس نے سوال دہرایا۔ میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ان لفافوں کو دیکھا جن کا وزن اس سے سہارا نہ جا رہا تھا اور جس دکان سے وہ نکلی تھی اس کے بیرونی دروازے پر چسپاں وہ واضح نوٹ کہ بھاؤ تاؤ کر کے شرمندہ نہ کریں، اس کا ڈرائیور لفافے لے کر جا چکا تھا اور وہ اب فارغ ہو چکی تھی، بابا جی نے اس سے پہلے کھڑی خاتون سے آرڈر لیا اور اس کے لیے مکئی اور چنے کے دانے ملا کر اپنی نمک والی کڑاہی میں پھینکے۔

’’ آپ کو کتنے دانے چاہئیں؟ ‘‘ بابا جی نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔

’’ آدھا کلو بابا جی، صرف مکئی کے! ‘‘ کہہ کر میں ان خواتین کا جائزہ لینے لگی جو مسلسل تھوڑے تھوڑے دانے اس کی ٹوکری میں سے اٹھا اٹھا کر کھا رہی تھیں، بابے کو وہ نظر نہیں آئی تھیں یا وہ نظر انداز کر رہا تھا۔ ایک لفافے میں دانے ڈال کر وہ ان کو تولنے کے لیے کہیں اور چلا گیا اور ہم تینوں وہیں کھڑی تھیں۔’’ یہ باقی تھوڑے سے دانے ڈال دوں تو اڑھائی سو پورے دے دینا بیٹا؟ ‘‘ بابا جی نے واپس آ کر سوال کیا۔…’’ ٹھیک ہے بابا جی گرم نہ کریں ، ٹھنڈے ہی دے دیں ! ‘‘ میں نے جواب دیا۔’’ ریٹ کچھ کم کریں نا بابا جی! ‘‘ دانے پھانکتی ہوئی اس خاتون نے سوال کیا جو بعد میں آئی تھی، ’’ اور پچاس روپے کے دانے دے دیں…‘‘ ساتھ ہی بابا جی نے دوسری خاتون کو بھنے ہوئے دانے ایک چھوٹے سے اخباری لفافے میں ڈال کر پکڑائے۔’’ یہ پچاس روپے کے دانے ہیں؟؟ ‘‘ اس کی حیرت دیدنی تھی۔

’’ ہاں یہ پچاس روپے ہی کے دانے ہیں، یہ وہ دانے ہیں جن کے تم نے پیسے ادا کیے ہیں، سو سو روپے کے دانے تو مفت میں تم دونوں کھا گئی ہو… یہ باجی بھی تو ہے، اس نے تو صرف خریدے ہیں ( انھوں نے میری طرف اشارہ کیا)، مفت خوری نہیں کی!!‘‘ بابا جی نے دل کی بھڑاس نکالی، نہ ہی وہ ان سے غافل تھے نہ نظر انداز کر رہے تھے، بس موقعے کی تلاش میں تھے، ’’ نہ تو میں نے بڑے بڑے پلاٹ خریدنے ہیں نہ ہی کوئی پلازہ بنانا ہے، تم لوگوں کے لیے پچاس روپے کی کوئی اہمیت نہیں مگر میرے گھر میں رات کو چولہا اسی کمائی سے جلتا ہے جو میں دن بھر میں یہاں سے سردی اور گرمی میں کر کے لے کر جاتا ہوں!!‘‘ بابا جی کی بات پر ان دونوں نے مجھے گھوری ماری کہ واقعی میں نے وہاں کھڑے ہو کر بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ دھوئے تھے، بابا جی اور وہ دونوں بھی شاید دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ میں کتنی اچھی ہوں مگر میں نے یہ اچھا ہونا بھی یونہی نہیں سیکھ لیا، سیکھنے کا عمل ہمیشہ مشقت کا متقاضی ہوتا ہے، چند سال پہلے تک میں بھی ایسی ہی تھی، جب تک میری زندگی میں وہ دن نہیں آیا۔

بھانجے کی شادی کے لیے بد کے میوہ جات کی خریداری کے لیے میں، میری بڑی بہن اور میرا عم زاد معظم راجہ بازار گئے، ہم سب کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ کسی ریڑھی پر کچھ خریدنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو جتنی دیر میں سودا طے ہوتا ہے ہم خریداری کر رہے ہوتے ہیں، ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ اسی ریڑھی سے ٹھونگ رہے ہوتے ہیں، چنے یا مکئی کے دانے، خشک میوہ جات، آلو بخارا، خوبانی، لوکاٹ، بیر، انگور، جامن، فالسے… ایسا عموماً چھوٹے سائز کی اجناس کے سلسلہ میں ہوتا ہے۔ اس روز بھی ہم تینوں اسی طرح اسے آرڈر کرتے، یہ والے چھوہارے پانچ کلو، جتنی دیر میں اس نے چھوہارے تولے اور پیک کیے ہم نے کم از کم سات سات چھوہارے اس کی بوریوں میں سے اٹھا کر ’’ ٹیسٹ‘‘ کر لیے۔

کشمش، بادام، خوبانیاں ،سونف، پان مسالہ، ٹافیاں… اسے آرڈر کرتے گئے، وہ تولتا گیا اور ہم اس کے ساتھ مسلسل منہ چلانے میں مشغول۔ صرف ہم ہی نہیں، آپ سب بھی اور وہ سب بھی جنھیں آپ جانتے ہیں ، سب کی انجانے میں ایسی عادت ہے کہ کھانے پینے کی چیز کو دیکھ کر ہاتھ چل پڑتا ہے، اس وقت ہمیں کسی چیزکے گرد آلود یا دھلا ہوا نہ ہونے کا مسئلہ بھی یاد نہیں رہتا ۔

بل بنا… ’’ کتنی رقم ہوئی بھائی؟ ‘‘ باجی نے پرس کھولتے ہوئے پوچھا۔

’’ بائیس ہزار ان چیزوں کا جو آپ نے خریدی ہیں اور جو آپ نے یہاں کھڑے ہو کر میری اجازت کے بغیر کھائی ہیں ان کے لیے میں روز قیامت آپ سے پوچھوں گا!!‘‘ ا س کی بات سن کر شرمندگی تو ہوئی سو ہوئی مگر خوف کی ایک پھریری سی وجود میں دوڑ گئی۔ ’’ ہم نے کچھ چوری کر کے تو نہیں کھایا بھائی!! ‘‘ میں نے دلیل دی، ’’ آپ کے سامنے ہی تو کھایا ہے-‘‘…’’ پھر بھی غلط ہے کہ آپ نے مجھ سے اجازت تو طلب نہیں کی!!‘‘ اس نے اور ڈرایا۔…’’ آپ منع کر دیتے… ‘‘ باجی نے نکتہ پیش کیا۔…’’ میں کیوں منع کرتا، میں نے کوئی دوسروں کو غلط کاموں سے منع کرنے کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا… آپ کے اپنے پاس بھی ضمیر نام کی کوئی چیز ہو گی!!‘‘…’’ یار، اتنا زیادہ سامان لیا ہے اگر ساتھ چند سو کا کچھ کھا لیا ہے تو کیا فرق پڑ جاتا ہے… ایسی ہی بات ہے تو ہمیں اس کا بل بتا دو، جہاں ہم باقی ادا کریں گے وہاں اس کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں!! ‘‘ معظم نے حل پیش کیا۔’’ آپ اپنا بل ادا کریں، اس کا حساب قیامت کے دن ہی ہو گا!!‘‘ اس نے حتمی لہجے میں کہا اور ہمارے پاس اس کے بل کی ادائیگی کر کے لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہ باجی اور معظم کے ساتھ کیا ہوا مگر مجھے تو اس شخص نے عمر بھر کے لیے سبق سکھا دیا ہے، میں اس کے لیے نہ صرف اس کی شکر گزار ہوں، اللہ سے تو اس کی معافی مانگتی ہوں اور شاید مل جائے ، ساتھ یہ دعا بھی کرتی ہوں کہ اللہ اس کے دل میں بھی نیکی ڈال دے اور وہ ہمیں معاف کر دے۔ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ، کوتاہیاں اور گناہ ہمیں قیامت کے دن چاروں شانے چت بھی کر سکتی ہیں، ان سے بچتے رہنے میں ہی عافیت ہے، دیکھنے میں یہ ایک چھوٹا سا فعل ہے مگر جیسا ہمارے ساتھ ہوا یا اس بابے نے ان خواتین سے کہا، دل سے تو یہ لوگ برا تو محسوس کرتے ہیںکہ ہم ایسی حرکت سے ان کا نقصان اور دل آزاری بھی کرتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے ان کاروباریوں سے تو بھاؤ تاؤ بھی نہ کریں، اس عمر کے لوگ شوق یا مشغلے کے طور پر تو اجناس کی ریڑھیاں لگا کر نہیں کھڑے ہوتے، ہم اور آپ کیا جانیں کہ کون سی مجبوریاں انھیں موسموں کی شدت کو نظر انداز کر کے گرمیوں کی چلچلاتی دھوپوں اور سردیوں کی ٹھنڈی ہواؤں کا ناکافی لباسوں میں سامنا کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ بابا جی سادے ضرور لگ رہے تھے مگر انھیں اندازہ ضرور تھا کہ کس نوعیت کی خواتین بازاروں میں یوں پیسے لٹاتی ہیں، جن کے بڑے بڑے پلاٹ اور پلازے ہیں، خود وہ جانے کس جھونپڑی یا کچے مکان کا مکین ہو گا مگر باہر کی دنیا کی پوری خبر رکھے ہوئے تھا۔

ہم اور آپ سب، مستقبل میں اس غلطی سے بچ سکتے ہیں جسے ہم سمجھتے تو معمولی ہیں مگر اس کا ’’ اجر‘‘ معمولی نہیں ہو گا، اس کا حل یہ ہے کہ کچھ بھی چکھنا ہو تو دکاندار سے پوچھ کر چکھ لیں، اس کی اجازت سے آپ کی پکڑ نہ ہو گی یا اگر آپ ہزار روپے کی چیز خریدنے لگے ہیں تو پہلے پچاس روپے کی خرید کر اس کو چکھ لیں ، جتنی دیر میں وہ ہزار کاسامان تول رہا ہو گا اتنی دیر میں آپ پچاس روپے کے خریدے ہوئے سے لطف اندوز ہوں… پچاس روپے کے خرچے سے آپ بڑے نقصان سے بچ جائیں گے اور کوئی دکاندار قیامت کے دن آپ کا گریبان پکڑ کر آپ کو مفت خورہ بھی نہیں کہے گا !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔