بزم داغ، ایک دفینے کی بازیافت

رئیس فاطمہ  ہفتہ 19 نومبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بہت عرصے بعد میرے مطالعے میں ایک منفرد اور اچھی کتاب آئی ہے۔ جس کے لیے معراج جامی اور راشد اشرف کی بے حد ممنون ہوں۔ معراج جامی لکھتے ہیں ’’یہ کتاب کب چھپی، کتاب کے اندر کہیں اندراج نہیں ہے۔ البتہ نیاز فتح پوری کے لکھے ہوئے افتتاحیہ میں 13 نومبر1956ء لکھا ہے۔ اس کتاب کی افادیت کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ داؤد رہبر نے اپنی کتاب ’’مشاعرے کا فاتح، داغ‘‘ میں اس کتاب ’’بزم داغ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’کاش کوئی اس  کتاب کو دوبارہ چھاپ دے۔‘‘ اور اب یہ کتاب سید معراج جامی اور راشد اشرف کی کوششوں سے دوبارہ شایع ہوئی ہے۔

نواب مرزا خاں داغ آخری کلاسیکل دور کے نہایت خوش گوار شاعر تھے۔ ان کی زبان کی سلاست، فصاحت، سادگی اور روزمرہ کے استعمال کے علاوہ دلّی والوں کا محاورہ بھی خوب خوب ملے گا۔ جنھیں شاعری کا چسکا ہو اور خود اپنے بل بوتے پہ شعر کہنا چاہتے ہوں ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ داغؔؔ دہلوی کے کلام کا مطالعہ ضرور کریں، بصورت دیگر کئی اجرتی استاد سے غزلیں اور دیوان مرتب کروانے والوں کا وہی حال ہو گا جو راغبؔ مراد آبادی کی وفات کے بعد بہت سے مشاعرہ پڑھنے والوں کا ہوا۔

ہمارے ایک معتبر ساتھی نے سوشل میڈیا پہ ایک کمنٹ بھیجا۔ جس میں تحریر تھا کہ راغبؔ مراد آبادی کی وفات کے بعد کئی شاعروں کی شاعری کے جنازے اٹھتے دیکھے گئے۔ کئی نام نہاد شاعر یتیم ہو گئے۔

کتاب گو کہ مختصر ہے اور یہی اس کی خوبی بھی ہے کہ صرف ایسے مستند واقعات پر مشتمل ہے جس سے داغؔؔ دہلوی کی پوری زندگی سامنے آ جاتی ہے۔ داغ کے متعلق چند کمیاب تحریروں کو سید رفیق مارہروی نے جس طرح ترتیب دیا، اس میں انھوں نے بڑی ادبی دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ داغؔ کو ایک انسان ہی رہنے دیا ہے۔ داغؔؔ کی آزاد روی، حسن پرستی کا اثر ان کی زندگی اور شاعری دونوں میں نظر آتا ہے۔ داغ کے شاگردوں میں بڑے بڑے شعراء کے نام شامل ہیں، خود اقبال کو بھی یہ شرف حاصل رہا کہ انھوں نے داغ کے مشوروں اور شاعری سے استفادہ کیا۔

کتاب کے حصہ دوم میں راشد نے داغ پر لکھی چند کمیاب تحریروں کو یکجا کر دیا ہے جس سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ داغ کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں رشید احمد صدیقی کا یہ جملہ خاصا باغ و بہار ہے ’’ہر آدمی اپنی بیوی کو مسدس حالی سمجھتا ہے اور دوسرے کی بیوی کو داغ کی غزل‘‘ اس کتاب کو ہم بجا طور پر ’’یادداشت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ پوری کتاب بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے، چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

’’آج مرزا صاحب (داغ) نے فرمایا کہ ایک دفعہ رام پور میں منیر شکوہ آبادی نے سردربار میرا دامن تھام لیا اور مجھ سے سوال کیا کہ میں ان کو بتاؤں کہ میرے اشعار زبان سے نکلتے ہی زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں اور لوگ انھیں جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں اور ان کے (منیر شکوہ آبادی کے) اشعار پر کہ وہ خون جگر ایک کر کے کہتے ہیں لوگ متوجہ بھی نہیں ہوتے اور پسندیدگی کی سند ہاتھ نہیں آتی… اور یہ ایک میرا ہی نہیں بلکہ دوسرے ہم عصر شعراء کا بھی یہی حال ہے۔ منیر شکوہ آبادی کے اس سوال پر میں (داغ) ابھی خاموش ہی تھا کہ امیر مینائی بول اٹھے کہ ’’یہ خداداد مقبولیت ہے، اس پر کسی کا کوئی بس نہیں چلتا۔‘‘

بے ساختہ برجستگی جو داغ کی گفتگو میں تھی اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ ’’آج نوح صاحب (نوح ناروی) نارے والے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ مرزا صاحب کے شاگرد ہیں۔ شاگردوں والا رجسٹر ملاحظہ فرما رہے تھے۔ اپنا نام رجسٹر میں دیکھ کر بولے ’’میرا نمبر 1005 ہے اور میرے بعد بھی بہت سے نام ہیں۔

یہ فہرست شاگردان تقریباً دو ڈھائی ہزار شاگردوں کی ہے۔ اس طرح قیامت میں اور بھی بہت سی امتیں نظر آئیں گی۔ وہاں ہمارے استاد محترم کی بھی ایک امت ہو گی۔ مرزا صاحب (داغ) نے یہ جملہ سنا، مسکرائے اور فرمایا کہ ’’جس کی امت میں نوح جیسے پیغمبر ہوں، اس کی امت کا کیا کہنا‘‘ اس برجستگی پر سب لوگ ہنسنے لگے اور نوح ناروی صاحب نے جھینپ کر سر جھکا لیا۔

’’14 جون1900ء آج مرزا صاحب بولے کہ میں جب بوجہ تنگئی خرچ حیدرآباد سے مایوس ہو کر دلی چلا گیا تو وہاں پہنچ کر ایک روز شب کو ایک عجیب وغریب خواب دیکھا کہ ایک معمولی سا مکان ہے۔ بوریا بچھا ہوا ہے اور اس بوریے پر بیٹھا میں ایک غزل تیار کر رہا ہوں۔ یکایک دو اشخاص نمودار ہوئے۔ دونوں نے میرے بازو پکڑ لیے۔ میں چونکا اور جب نظر اوپر اٹھی تو دیکھا حضرت ذوقؔ ہیں۔ دوسرے شخص کو میں نے نہیں پہچانا۔ میں حضرت کو دیکھ کر فوراً قدموں میں گر گیا۔ انھوں نے مجھے پیار سے اٹھایا اور دوسرے بزرگ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ ان سے ملو۔ میں انھیں پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔

استاد بولے ’’پہچانا یہ کون ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’حضور مجھے بتائیے۔‘‘ بولے ’’یہ میر حسن ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی میں ان کے بھی قدموں میں گر پڑا انھوں نے میرا سر عجز اٹھایا، دوبارہ گلے سے لگایا اور فرمانے لگے ’’ تو اتنا پریشان کیوں ہے۔ ایک بڑا رئیس بہت جلد تیری سرپرستی کرنے والا ہے۔ وہاں لوگ تیرا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ اس قدر دیکھ کر میری آنکھ کھل گئی۔ اتفاق ملاحظہ ہو دوسرے روز میرے پاس حیدرآباد سے خط آیا جس میں میری طلبی تھی۔ اس تائید غیبی نے حیدرآباد کے دوبارہ سفر پر آمادہ کیا اور میں چلا آیا اور آج مجھے یہاں جو کچھ کامیابی نصیب ہے وہ سب ان ہی بزرگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

اس کتاب کی ایک خاص بات جو مجھے اچھی لگی وہ یہ ہے کہ حواشی کے لیے کتاب کے آخر میں حوالہ نمبر دیکھ کر تفصیل جاننے کی زحمت بالکل نہیں کرنی پڑتی بلکہ جہاں کسی شخص یا بات کا حوالہ نمبر دیا ہے، وہیں عبارت کے نیچے تمام تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ اس اہتمام سے جہاں کتاب مزید معتبر ہوئی وہیں دلچسپی بھی دو چند ہو گئی اور معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔

سید رفیق مارہروی کی یادداشتوں کو معراج جامی اور راشد اشرف نے بڑے سلیقے سے ترتیب و تدوین کے مراحل سے گزار کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ یادداشتوں میں جا بجا داغؔؔ کے اشعار بھی درج ہیں۔

دیکھا ہے دیکھنے کی طرح اس جہان کو
گزرا ہے اک زمانہ ہماری نگاہ سے

………

کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

………

شب ہجراں کے جاگنے والے
ایسے سوئے کہ پھر خبر نہ ہوئی

………

الٰہی کیوں غم فرقت میں ہم مرمرکے جیتے ہیں
کہ دنیا میں توکوئی مر کے پیدا ہو نہیں سکتا

………

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔