بصری آلودگی

سید بابر علی  اتوار 20 نومبر 2016
بصری آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

بصری آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور موسمی تغیرات کے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے آلودگی میں کمی اور کلائمیٹ چینج جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم پاکستان میں اکثریت کے نزدیک آلودگی کا مطلب صرف فضائی یا آبی آلودگی ہے، لیکن آلودگی کو صرف دو، تین درجوں تقسیم کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

آلودگی کی ایک سب سے غیرمعروف لیکن سب سے نقصان دہ شکل بصری آلودگی ہے۔ بصری آلودگی  قدرتی ماحول میں غیرمحسوس طریقے سے ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔

یہ آلودگی ہمارے بصری ( دیکھنے کی صلاحیت) حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر، سرمایہ کاری نظام کے لیے پیدا کی جانے والی مصنوعات اور ان کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے سائن بورڈ، نیون سائن، بل بورڈ، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے پھیلا ہوا تاروں کا جال اور کچرے کے ڈھیر نہ صرف بصری آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں بل کہ غیرمحسوس طریقے سے بنی نوع انسان کو نفسیاتی امراض اور بہت سے جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کر رہے ہیں، جن میں ارتکاز توجہ میں کمی، لوگوں میں قوت برداشت کی کمی، آنکھوں میں تھکن، آنکھوں میں خشکی اور لاس آف آئیڈینٹٹی جیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔

بصری آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔ ایک صدی قبل تک رہائش کے لیے کچے یا ایک منزلہ روشن و ہوادار گھر بنانے کا رجحان تھا۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کے لیے جگہ کی تنگی نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس رقبے پر پہلے ایک یا دو گھر بنتے تھے اور دس پندرہ افراد رہا کرتے تھے، اسی جگہ کو فلیٹوں کی شکل دے کر سیکڑوں افراد کی رہائش کے قابل بنا دیا گیا۔

ان تمام تر عوامل کے نتیجے میں نہ صرف لوگ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے محروم ہوئے بل کہ اس جگہ پیدا ہونے والے کچرے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ناقص اور بے ہنگم تعمیرات، جگہ جگہ پھیلے کچرے دان، پبلک ٹرانسپورٹ کے غیرمعیاری نظام اور پتھاروں نے دنیا بھر میں بصری آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا۔

ماہرین کے مطابق کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف اس علاقے اور شہر کی بصری اور مادی خصوصیات میں منفی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں بل کہ یہ قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اس شہر کی خوب صورتی کو بھی کم کردیتی ہے۔ دنیا بھر میں طویل عرصے تک بصری اور روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی کو نظرانداز کیا جاتا رہا، تاہم اب ترقی یافتہ ممالک بصری آلودگی کے سدباب اور اس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔

بصری آلودگی کا سب سے اہم سبب اشتہار کاری کے لیے استعمال کیے جانے والے بلند و بالا بل بورڈز کو قرار دیا جاتا ہے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1965میں امریکا میں ’ہائی وے بیوٹیفیکیشن ایکٹ‘ کے نام سے ایک قانون بنایا گیا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس کوڈ1965کی شق نمبر 131کے مطابق امریکا میں ہائی ویز پر بل بورڈ ایڈورٹائزنگ اور جنک یارڈز (وہ جگہ جہاں پرانا کاٹھ کباڑ اور ناکارہ گاڑیوں کو رکھا جاتا ہے) قائم کرنا ممنوع ہے۔

امریکا میں بصری آلودگی کے لیے قانون سازی کا سہرا اُس وقت کے امریکی صدرلنڈن بی جانسن اور اُن کی اہلیہ لیڈی برڈ جانسن کو جاتا ہے۔ جنوری 1965میں بصری آلودگی پر قابوپانے کے لیے بل بورڈ پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے صدر لنڈن بی جانسن نے کہا تھا،’’میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہم جب بھی اہم ہائی ویز سے امریکا دیکھیں تو وہ حسین ترین امریکا ہو۔‘‘ اربوں ڈالر کی اشتہاری صنعت کے خلاف ایک قانون کی منظوری گرچہ آسان کام نہیں تھا، تاہم امریکی سینیٹ میں کچھ ترامیم اور بحث کے بعد اس اہم مگر متنازعہ بل کو قانونی شکل دے دی گئی۔

امریکا میں بصری آلودگی کے خلاف ہونے والی قانون سازی کے چالیس سال بعد برازیل نے بصری آلودگی کو بنی نوع انسان کے لیے خطرناک تصور کرتے ہوئے2006 میں  Cidade Limpa (صاف شہر کا قانون) کے نام سے ایک قانون منظور کیا۔ برازیلی شہر ساؤ پالو کے میئر گلبرٹو کیساب کی جانب سے پیش کیے گئے اس قانون میں اشتہاری کاری کے لیے استعمال ہونے والے تمام بیرونی طریقۂ کار (بل بورڈز، نیون سائن، پوسٹرز وغیرہ) یہاں تک کہ ٹیکسی اور بسوں پر بھی کسی قسم کی ایڈورٹائزنگ پر پابندی عاید کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

اس بارے میں میئر گلبرٹوکا کہنا تھا،’’بل بورڈز، نیون سائن کی وجہ سے نہ صرف بصری بل کہ پانی، ہوا اور شور کی آلودگی بھی پیدا ہورہی ہے اور شہریوں کو بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے ہم نے سب سے پہلے ’’بصری آلودگی‘‘ کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اس قانون کی منظوری کے بعد سے اب تک نہ صرف پورے ساؤ پالو سے تقریباً15ہزار بل بورڈ ز اور اس نوعیت کے دیگر اشتہارات ہٹائے گئے ہیں، بل کہ جرمانے کی مد میں 8 ملین ڈالر سے زاید کی آمدنی بھی حاصل کی جاچکی ہے۔

برازیل کی دیکھا دیکھی چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بھی بصری آلودگی کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے بل بورڈز کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں ہیں۔ تاہم اس اقدام کو ابھی تک کسی قانون کی شکل میں نہیں ڈھالا گیا ہے۔ برازیل اور چین کے بعد فرانسیسی شہر گریونول کے میئر ایرک فیولے نے بھی بصری آلودگی کا سدباب کرنے کے لیے شہر کی تمام سڑکوں سے کمرشل ایڈورٹائزنگ ہٹانے کا اعلان کیا۔

اس بابت اُن کا کچھ یوں کہنا تھا،’’شہر میں جا بجا لگے اشتہارات نہ صرف بدنما لگنے لگیں ہیں بل کہ شہریوں کو ذہنی کوفت اور آنکھوں کی بیماریوں میں بھی مبتلا کر رہے ہیں اور اسی لیے ہم نے شہر کو مزید خوب صورت بناتے ہوئے ہر قسم کے اشتہارات ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم شہر کو بل بورڈز سے پاک کرکے ایک ایسے سرسبز و شاداب شہر میں تبدیل کریں گے جہاں شہریوں کو ذہنی تھکن سے نجات اور آنکھوں کو تراوٹ ملے۔‘‘ اس اقدام کے بعد گرینول اشتہار کاری سے پاک یورپ کا پہلا شہر بن گیا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق عوامی مقامات پر سائن بورڈز، ہورڈنگز اور کمرشیل اشتہارات لگانے پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے مشتہرین کو ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کی پبلسٹی کے لیے کمیونٹی ہالز کے نوٹس بورڈ پر مفت اشتہارات چسپاں کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس منصوبے کے تحت پورے شہر میں جنوری 2015 سے اپریل 2015 تک شہر بھر سے 326 اشتہارات اور 64 بل بورڈز اتارے گئے۔

امریکا کے نوٹری ڈیم لا اسکول کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق موبائل فون ٹاورز انٹرنیٹ اور بجلی کی بے ہنگم طریقے سے پھیلی تاریں بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بصری آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، محقق جان کوپ لینڈ نیگل کا کہنا ہے،’’موبائل ٹاورز کی تاب کار شعاعوں سے انسانی صحت پر لاحق ہونے والے اثرات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، لیکن موبائل فون کے یہ ٹاور بصری آلودگی میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

رابطے کے لیے ناگزیر انٹرنیٹ اور موبائل فون نے انسانی زندگی میں سہولتوں کے دروازے وا کیے ہیں تو دوسری جانب یہ کرۂ ارض اور اس پر رہنے والے انسانوں کے خطرہ بھی بنتی جا رہیں ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد ترقی پزیر ممالک کی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق موبائل فون ٹاورز نہ صرف ذہنی انتشار، کینسر، ذہنی ڈپریشن اور دیگر امراض کا شکار بن رہے ہیں تو اس سے ماحولیات کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

موبائل فون ٹاورز کی تاب کار شعاعیں اور ان سے نکلنے والی برقی لہریں ایک تسلسل کے ساتھ انسانی جسم کے خلیوں کو اپنا ہدف بناتی ہیں جس سے ہمارے خلیوں اور اعضاء کے جنکشن پوائنٹس سمیت ہمارا سارا دماغی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے، جب کہ جا بجا پھیلے ان ٹاورز سے خارج ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ (ای ایم ایف) اور جا بجا ان کی تنصیب ماحول میں بصری آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔ موبائل کمپنیوں کو چاہیے کہ اگر کہیں موبائل ٹاور کی تنصیب کی اشد ضرورت ہیں تو انہیں کسی قدرتی ماحول کے مطابق کیموفلاج کیا جائے تاکہ یہ دیکھنے میں انسانی آنکھ کو بھلے محسوس ہوں۔‘‘

پاکستان میں بصری آلودگی کے خلاف اہم قدم

رواں سال مئی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے شہر بھر میں بل بورڈز کے حوالے سے یکساں قانون بنانے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم کے مطابق پل، سڑکوں اور چورنگیوں پر بل بورڈز کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے شہر بھر میں لگے بلز بورڈ کو ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی کہ بل بورڈز کو نمایاں کرنے کے لیے شہر بھر میں درختوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں بل بورڈز، ہورڈنگز اور سائن بورڈز کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر جسٹس ثاقب نثار کہنا تھا کہ فٹ پاتھ پر قبضہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنا عوام کا حق ہے لیکن بل بورڈز کے لیے لگائے گئے کھمبوں نے شہریوں کے چلنے کے راستے بھی مسدود کر دیے ہیں۔ بینچ نے کہا اپنے فیصلے میں کہا کہ نجی عمارتوں کی چھتوں، اونچی عمارتوں پر لٹکے بورڈز فوری ہٹائے جائیں، قومی پرچم لگائیں مگر پلوں پر بورڈز یا اشتہار لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

بصری آلودگی کا اہم سبب

بصری آلودگی کا اہم سبب آؤٹ ڈور اشتہار کاری کو قرار دیا جاتا ہے۔ اردو میں ایڈورٹائزنگ کے لیے ’’تشہیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے معنی کسی شے یا پروڈکٹ کی تشہیر کرنا ہے، لیکن یہ ایک لفظ اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، جس میں اپنی مصنوعات کی مشہوری اور فروخت میں اضافہ کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں اپنی پروڈکٹ یا برانڈ کے بارے میں مثبت رائے کو فروغ دینا اور انہیں اپنی مصنوعات کی خرید پر آمادہ کرنا ہے۔

بنیادی طور پر اشتہارکاری دو حصوں ’تھیم‘ اور ’اسکیم‘ پر مشتمل ہے۔ نت نئے تصورات کے ساتھ پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور ریڈیو کے لیے اشتہارات کی تیاری اور موثر اشتہار کے ذریعے عوام الناس کی قوت فیصلہ پر اثرانداز ہونا تھیم کہلاتا ہے ، جب کہ عوام کو اپنی مصنوعات کی طرف راغب کرنے لیے پروموشن کے نام پر دی جانے والی رعایت یا انعام اسکیم کہلاتی ہے۔

برانڈ سے مراد کسی مخصوص کمپنی کی تیار کردہ پروڈکٹ کا نام ہوتا ہے اور اشتہار کاری کا مکمل انحصار برانڈنگ پر ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر مارکیٹنگ کمپنیاں اپنی ہر پروڈکٹ کو ایک مخصوص نام دیتی ہیں اور ہر اشتہار کا مقصد برانڈ نام کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اشتہاری کمپنیاں ایڈورٹائزنگ کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں جن میں ریڈیو، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ شامل ہیں اور یہی آؤٹ ڈور اشتہارکاری بصری آلودگی میں اضافے کا اہم سبب ہے۔

اس طریقۂ کار میں بڑی شاہراہوں، عوامی مقامات، سرکاری اور نجی عمارتوں پر چھوٹے بڑے سائن بورڈز، ہورڈنگز، پینا فلیکس، نیون سائنز اور بل بورڈز لگائے جاتے ہیں۔ کم خرچ اور زیادہ موثر ہونے کی وجہ سے اشتہار کا ری کا یہ طریقہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

٭آلودگی کی دیگر اقسام

٭فضائی آلودگی

انسانوں کی جانب سے ہونے والی صنعتی سرگرمیوں اور ایندھن کی بدولت چلنے والی موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کاربن مونوآکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز (سی ایف سی ایز) اور نائٹروجن آکسائیڈ نے کرۂ ارض کو ازحد آلودہ کردیا ہے۔ خصوصاً نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز کے سورج کی روشنی کے ساتھ ہونے والے ری ایکشن نے اسموگ کو پیدا کیا ہے۔

یہ دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے، جو عموماً زیادہ گنجان آبادی والے صنعتی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہر یا دھند کی طرح دکھائی دینے والی فضائی آلودگی کی ایک مضر قسم اسموگ نائٹروجن آکسائڈ، سلفر آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائڈ، کلورو فلورو کاربنز وغیرہ کے زیادہ اخراج کی وجہ سے ہوتی ہے اور حال ہی میں پاکستان کے کچھ علاقے بھی اسموگ سے متاثر ہوئے ہیں۔

٭ ریڈیو ایکٹیو آلودگی

ریڈیو ایکٹیو آلودگی بیسویں صدی میں ایٹمی ہتھیاروں کی ریس میں برتری حاصل کرنے کی دوڑ کا نتیجہ ہے۔ ایٹمی توانائی کے حصول کی سرگرمیاں، ایٹمی ہتھیاروں کی تجرباتی بنیادوں پر تیاری اور تحقیق آلودگی کی اس نئی اور زیادہ ہلاکت خیز قسم کو تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔

٭ حرارتی آلودگی

انسانی مداخلت کی وجہ سے پانی کے موجودہ ذخائر کے درجۂ حرارت میں ہونے والے اضافے سے پیدا ہونے والی حرارتی آلودگی انسانوں اور جانوروں خصوصاً سمندری حیات کے لیے ہلاکت خیزی کا سامان بن رہی ہیں۔ تھرمل آلودگی کی سب سے بڑی مثال بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس میں پانی کا بہ طور’’کولینٹ‘‘ استعمال ہے۔ اس طریقۂ کار میں پانی کو پلانٹ کو ٹھنڈ ا کرنے کے لیے استعمال کے بعد واپس قدرتی ماحول میں پھینک دیا جاتا ہے۔ واپس جانے والے پانی میں آکسیجن کی کمی سے ایکو سسٹم پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

٭ مٹی کی آلودگی

صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے زہریلے مادوں کو زیرزمین بہانے اور دفن کرنے کی وجہ سے مٹی کی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، مٹی کی آلودگی میں اضافے کا سب سے اہم سبب بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات، کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربنز اور بھاری معدنیات ہیں۔

٭آبی آلودگی

صنعتی اور تجارتی پیمانے پر ہونے والی سرگرمیوں کے بعد بچ جانے والے آلودہ پانی کو واپس آبی گزر گاہوں میں بہا دیا جاتا ہے، کلورین اور دیگر کیمیکل سے بھر پور یہ پانی آبی حیات کے لیے موت کا سامان بن رہا ہے، جب کہ گھروں سے نکلنے والا سیوریج کا پانی بھی آبی آلودگی میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔

٭ پلاسٹک کی آلودگی

چند دہائی قبل تک کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتنوں اور خریداری کے لیے گھر سے تھیلے لے کر جانے کا رجحان عام تھا، لیکن جدیدیت اور سہولت کے نام پر پلاسٹک کے برتن، پلاسٹک کی تھیلیوں کے رجحان کو بہت تیزی سے فروغ دیا گیا۔ روزمرہ کی زندگی میں پلاسٹک سے بنی اشیاء کے استعمال نے انسانوں کے لیے سہولت کا سامان تو پیدا کیا مگر اس کا خمیازہ انہیں سمندری اور جنگلی حیات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔  حل پذیر نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کا فضلہ سمندروں ، دریاؤں اور ندی نالوں میں آبی حیات کو موت سے ہم کنار کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ جنگلی حیات کے لیے بھی زہرقاتل ثابت ہورہا ہے۔

٭روشنی کی آلودگی

روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی بھی شہر بسانے والوں کا ایک ’تحفہ‘ ہے۔ کسی شہر کی خوش حالی، امن و امان کی بہترین صورت حال، تجارتی سرگرمیوں کو لفظی جامہ پہنانے کے لیے اسے ’روشنیوں کا شہر‘ کہا جاتا ہے، لیکن روشنیوں کے شہر کو روشن رکھنے کے لیے جلنے والے لاکھوں قُممے، برقی لائٹس کے نتیجے میں ہونے والی روشنی آہستہ آہستہ ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل رہی ہے۔

روشنی کی آلودگی کا صحیح اندازہ کرنے کے آپ دیہات اور شہر کی راتوں سے کر سکتے ہیں، شہروں میں ہمیں نہ ستاروں کا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ہم چاند کی پوری روشنی سے لطف اندوز ہوپاتے ہیں، اس کے برعکس دیہات اور ایسی جگہ جہاں مصنوعی روشنیوں کا استعمال کم ہو، وہاں نہ صرف آسمان صاف دکھائی دیتا ہے بل کہ کہکشائیں بھی انسانی آنکھ سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ کرۂ ارض کی بلند ترین تہہ یعنی میسوسفر پر موجود سورج سے آنے والی بالائے بنفشی تاب کاری شعاعیں آئیونائزیشن (ایک طریقہ جس میں ایٹم اور مالیکیول الیکٹرون حاصل کرنے یا کھونے کے نتیجے میں مثبت یا منفی چارج حاصل کرتے ہیں) کا سبب بنتی ہیں۔

ان آئنز کے قدرتی برقی پارٹیکلز کے ساتھ ٹکرا کر دوبارہ ملاپ سے فوٹون خارج ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں رات میں ہمیں آسمان جگماتا نظر آتا ہے۔ تاہم زمین سے آسمان کی طرف سفر کرنے والی تیز روشنی آسمان سے کہکشاؤں اور ستاروں سے آنے والی روشنی کو بکھیر دیتی ہے اور ہم قدرت کی خوب صورتی کو دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔