پاک و ہند پر چھائے ایشیائی بھورے بادل

شبینہ فراز  اتوار 20 نومبر 2016
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا میں سانس لینا صحت کے لیے مضر ہے۔ فوٹو: فائل

ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا میں سانس لینا صحت کے لیے مضر ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے شہر جن میں دہلی اور لاہور سرفہرست ہیں، کئی دنوں تک ایشیائی بھورے بادلوں  (Asia Brown Clouds) کی لپیٹ میں رہے۔ یہ بھورے بادل دھند کی صورت میں ہوتے ہیں، جن میں مختلف گیسوں اور دیگر عناصر کے ادھ جلے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار یہ دھند مزید گہری اور سیاہ تھی، جسے ماہرین نے اسموگ کا نام دیا۔

اکتوبر کے آخری اور نومبر کے پہلے ہفتے میں پنجاب کے بالائی علاقوں جن میں شیخوپورہ، قصور، منڈی بہاؤالدین اور فیصل آباد شامل ہیں، کو ایک گہری دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جسے تیکنیکی طور اپر سموگ کہا جاتا ہے، جو دھند اور دھوئیں کا ملاپ ہے۔ اسے اردو میں دخانی کہرا بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کی فضائی آلودگی ایشیا کے بعض علاقوں جیسا کہ نئی دہلی اور شنگھائی میں عموماً ہوتی ہے، لیکن نومبر کے مہینے میں پنجاب میں یہ پہلی بار دیکھی گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہوا کا کم دباؤ اور مسلسل خشک موسم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب درجۂ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو اور فضا میں آلودہ ذرات کی موجودگی کے باعث جو کیمیائی عمل رونما ہوتا ہے اس کے نتیجے میں فضائی آلودگی کی یہ شکل سامنے آتی ہے، جسے ’’ لوئر اوزون‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ میدانی علاقوں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں آگ لگانے کا عمل بھی کسی حد تک اس صورت حال کی وجہ ہوسکتا ہے۔

مذکورہ علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ دھوئیں کے بادل اتنے شدید تھے کہ گھروں کے اندر تک محسوس کیے جاسکتے تھے۔ گردوغبار کی وجہ سے متلی کی کیفیت اور آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی ہے۔

محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کا خاتمہ تب ہی ہوگا جب بارشوں کا ایک اچھا سلسلہ شروع ہوگا اور فی الحال یہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اس آلودہ دھند اور گردوغبار کے نتیجے میں پیش آنے والے حادثات میں جہاں متعدد افراد ہلاک ہوئے وہیں عوام کو روزمرہ کی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ دن بھر اس اسموگ یا آلودہ دھند کے بادلوں کی وجہ سے موٹر وے اور دیگر شاہراہوں پر حادثات پیش آئے۔

موٹر وے پولیس کے ترجمان کے مطابق پنڈی بھٹیاں کے نزدیک ایسے ہی ایک حادثے میں متعدد گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں جن میں بارہ افراد ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے۔

ہندوستان اور پاکستان کے کسانوں میں یہ رواج عام ہے کہ چاول کی کٹائی کے بعد زمین میں رہ جانے والے تنوں سے زمین کو صاف کرنے کے لیے کھیتوں میں ان تنوں کو آگ لگادی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بار بھی پاکستانی اور بھارتی پنجاب میں کسانوں نے چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے تنوں کو بڑے پیمانے پر آگ لگائی، جس کا دھواں پاکستان کے شہروں پر دھند کی صورت دیکھا گیا۔ کھیتوں میں فصلوں کی صفائی کا یہ طریقہ پاکستان میں بھی رائج ہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں صورت حال اور دگرگوں رہی ہے۔ گذشتہ سترہ سال کے مقابلے میں وہاں دھند اور دھواں بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ان دنوں نئی دہلی میں سترہ سو سے زائد اسکول بند رکھے گئے۔ کہتے ہیں کہ دھوئیں کی وجہ سے پورا شہر سرمئی رنگت اختیار کرچکا تھا۔ دیوالی کے تہوار پر ہونے والی آتش بازی نے سونے پر سہاگا کا کام کیا۔

یہ درست ہے کہ یہ ہر سال کا معمول ہے کہ گہری دھند موسم سرما میں پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس سے پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں فضائی اور ٹرین کا سفر بھی متاثر ہوتا ہے۔ دھند کی وجہ سے حد نگاہ بہت کم ہوجاتی ہے اور شام کے بعد موٹر وے کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیاروں کی آمدورفت بھی روک دی جاتی ہے۔ لیکن اب گذشتہ پانچ برسوں سے یہ مسئلہ بہت زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ اس کی وجہ لاہور میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور فیکٹریوں سے دھوئیں اور گیسوں کا اخراج بھی ہے۔

فضائی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف فوری توجہ دی جانی چاہیے، کیوںکہ لاہور کا شمار اب ایشیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ موسم سرما میں جب بارش کا سلسلہ رک جاتا ہے اور سردی اور مسلسل خشک موسم میں تمام آلودگی بوجھل ہوکر فضا میں نچلی طرف آجاتی ہے تو یہ اسموگ کی شکل میں پنجاب میں ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ دھندلی فضا کی وجہ سے سردی میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیوںکہ سورج کی روشنی بہت کم زمین تک پہنچ پاتی ہے۔ یہ دھند ہماری زراعت اور معیشت پر بھی برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ہمارے ماحول میں نچلی طرف پائے جانے والے آلودہ عناصر کی ایک بڑی وجہ بھارتی پنجاب میں قائم صنعتیں بھی ہیں۔ یہ کوئلے سے توانائی حاصل کرنے والی صنعتیں ہیں۔ نہری علاقوں میں دھان کی فصل اور دریائی علاقوں میں جہاں فضا میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے، دھند بہت گہری ہوجاتی ہے اور یہ صرف اس وقت چھٹتی ہے جب بارشیں ہوتی ہیں۔ ورنہ یہ تمام آلودہ ذرات اور نقصان دہ گیسیں اور دھواں ایک دبیز چادر کی صورت زمین کو ڈھانپے رہتا ہے۔

اسی اسموگ کی وجہ سے لاہور اور نئی دہلی کو 2014 میں دس بدترین شہروں میں شمار کیا گیا تھا۔ جب تک سرحد کے دونوں طرف صنعتیں گیسوں کے اخراج کو ماحولیاتی معیار کے مطابق صاف نہیں کرتیں اور لوگ ایسی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرتے جو ماحول دوست ہو، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسے موسم میں ضروری ہے کہ لوگ گھروں میں ٹھہریں اور بلاضرورت باہر نہ جائیں اور ماسک پہنیں جیسا کہ چین کے انتہائی آلودہ شہر بیجنگ کے لوگ کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا میں سانس لینا صحت کے لیے مضر ہے، کیوںکہ اسموگی فضا میں گردوغبار کے علاوہ سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے دمہ، پھیپھڑوں میں سوزش، سانس کی نالی میں تکلیف اور دل کے امراض جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

گذشتہ ماہ حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا تھا کہ اس نے صوبے میں آلودگی روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے لاہور میں گاڑیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔

رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ اب ٹو اسٹروک انجن رکھنے والے رکشوں کی رجسٹریشن پر مکمل پابندی ہے۔ اور موجودہ ٹو اسٹروک انجن والے رکشوں کی جگہ فور اسٹروک انجن والے رکشے لے رہے ہیں، لیکن جب سڑکوں پر اتنی گاڑیاں چل رہی ہوں گی اور پرانے پٹرول اور ڈیزل انجنوں سے دھواں نکل کر فضا کو گہرا کررہا ہو تو پھر سخت قوانین کے عملی نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے سربراہ اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ اسموگی فضا کی ایک وجہ لاہور کے نزدیک اینٹیں پکانے والے بھٹے بھی ہیں۔ ان بھٹوں میں آلودہ ایندھن حتیٰ کہ پرانے ٹائر اور پلاسٹک کی ناکارہ اشیاء تک جلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ان بھٹوں سے بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کھلے مقامات پر کچرے کو آگ لگانے، گاڑیوں کی تعداد میں اضافے، فیکٹریوں اور بجلی پیدا کرنے والے جنریٹروں کا استعمال بھی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

بھٹوں کی آلودگی کا آسان حل ان کو صاف اور ماحول دوست ایندھن کی فراہمی ہے۔ ان بھٹوں کو ڈیری کی معیشت کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔ جانوروں کے گوبر سے پیدا ہونے والی بائیو گیس سے ان بھٹوں کو چلایا جاسکتا ہے، جو ماحول دوست، آسان اور آلودگی سے محفوظ طریقہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگائے، پلاسٹک کی اشیاء کو آٹھ آٹھ بار ری سائیکل کیا جاتا ہے جو کہ خطرناک ہے۔ پلاسٹک کو جلانے پر اس کے ایرو سول خطرناک فضائی آلودگی کو جنم دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں فصلوں کے انتخاب میں بھی دانش مندانہ رویہ اپنانا ہوگا۔ گندم اور چاول کی فصل کا تخمینہ پانی کی قیمت کو سامنے رکھتے ہوئے لگانا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ بدلتے موسموں کے تناظر میں پانی بہت قیمتی شے ہے، لہٰذا اسے چاول یا گندم کے بجائے نقد آور فصلوں مثلاً بادام، پستہ اور دیگر خشک میوہ جات اور سبزیاں اگانے میں استعمال کرنا چاہیے، جس سے بھرپور منافع حاصل ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے گندم کی قیمت 1250روپے مقرر کی ہے، جب کہ باہر سے ہم 800 یا 900روپے من منگواسکتے ہیں۔ اس وقت بھی گندم ہمارے پاس اضافی مقدار میں موجود ہے لیکن ہم اسے ملک سے باہر نہیں بیچ سکتے، کیوںکہ منہگی خرید کر سستا تو نہیں بیچ سکتے۔ ہم نے ایسے کاشت کار بھی دیکھے ہیں جو سوائے گندم اگانے کے کچھ نہیں کرتے، کیوںکہ گندم کی قیمت حکومت نے اچھی مقرر کی ہے۔

پرویز امیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسانوں کو بچی ہوئی فصلوں کو آگ لگانے سے روکنے کے لیے انہیں آسان قیمت پر زمین کو صاف کرنے والی مشینری دینی ہوگی، تاکہ اس فضائی آلودگی سے بچا جائے۔ یہ کام پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میںہونا چاہیے کیوںکہ یہ دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق لاہور دنیا کے دس بڑے آلودہ شہروں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر چین کا دارالحکومت بیجنگ ہے، دوسرے نمبر پر ایران کا شہر اہواز ہے، تیسرے پر منگولیا کا اولان بوتار ہے اور چوتھے نمبر پر لاہور ہے۔ اس کے بعد بھارت کا شہر نئی دہلی، سعودی عرب کا ریاض، مصر کا قاہرہ، بنگلادیش کا ڈھاکا، روس کا ماسکو اور میکسیکو کا میکسیکو سٹی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ فضائی آلودگی اتنی خطرناک ہے کہ WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نے 2012 میں ستر لاکھ لوگوں کی جان لی تھی۔ ڈھاکا میں ہر برس ہزاروں لوگ فضائی آلودگی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

یہی حال لاہور اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کا ہے۔ شہروں میں گردوغبار کا راج ہے، ملک بھر میں گیس کی عدم موجودگی میں فیکٹریاں لکڑی، کوئلہ اور ایسے ہی دوسرے آلودہ فیول استعمال کرتی ہیں۔ شہر میں گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو ٹریفک جام میں پھنس کر کاربن مونو آکسائیڈ کے بادل پیدا کرتی ہیں۔ کراچی میں بھی آلودگی کی یہی صورت حال ہے تو پھر یہاں اسموگ کیوں نہیں بنی؟ اس کی وجہ سمندر ہے۔

کراچی میں سمندر سے شہر اور شہر سے سمندر کی طرف تیز ہوائیں چلتی ہیں، جو اپنے ساتھ تمام آلودگی اڑا کر لے جاتی ہیں۔ یہی ہوا اگر کراچی میں بند ہوجائے تو پھر گرمی کی لہر جیسی قیامت خیز گرمی پڑتی ہے، جیسا کہ 2015 کا سانحہ تھا۔ لاہور میں اکتوبر، دسمبر اور نومبر میں ہوا ٹھہر جاتی ہے۔ درجۂ حرارت تیزی کے ساتھ گرتا ہے تو رات کو ٹھنڈی زمین ہوا کو ٹھنڈا اور بھاری کردیتی ہے۔

دہلی کا ذکر کیے بغیر اسموگ یا ایشیا براؤن کلاؤڈز کی بات ادھوری رہے گی۔ دہلی بھی موسم سرما میں اسموگ کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ یہاں ہم دہلی میں قائم ایک ادارے ’’سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ‘‘ (CSE)کی بات کریں گے جو ماحولیات پر کام کرنے والی مشہور این جی او ہے۔ وہ بھارت کی حکومت سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو ایک مسئلہ تسلیم کرے اور اسموگ سے نمٹنے کے لیے پلوشن ایمرجینسی نافذ کرے۔ اس ادارے کے مطابق عوامی صحت کے حوالے سے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ ہر روز بھاری مقدار میں زہریلے مرکبات سانسوں میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے اور آلودگی کو صاف فضا کے طے شدہ معیار کے مطابق نیچے نہ لایا گیا تو فضائی آلودگی عوامی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گی۔ سی ایس ای فضائی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لیے جدید آلات استعمال کرتی ہے، تاکہ دہلی میں روزانہ کی بنیاد پر آلودگی کا جائزہ لیا جاسکے۔ سی ایس ای کی سربراہ سنیتا نرائن کے مطابق ہمارے پاس حاصل ہونے والے اعدادوشمار خاصے تشویش ناک اور پریشان کن ہیں۔ ہمیں پتا چلا ہے کہ عوام کو اس سے کہیں زیادہ زہریلی فضا میں سانس لینا پڑتا ہے جو پلوشب کنٹرول کمیٹی دہلی کی مانیٹرنگ ظاہر کرتی ہے۔ یہ بات عوامی صحت کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔

سی ایس ای کا مطالبہ ہے کہ حکومت کوالٹی انڈیکس کے ساتھ ہیلتھ ایڈوائزری اور پلوشن ایمرجینسی کے اقدامات کرے، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پارکنگ کو کنٹرول کرے۔ اس کے علاوہ پاور پلانٹس، بجلی پیدا کرنے والے جنریٹر اور کھلی جگہوں پر کچرا جلانے پر پابندی عائد ہو۔ یہی اقدامات حکومت پاکستان کو بھی کرنے چاہییں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔