آرتھرائٹس عام مرض نہیں… بروقت علاج نہ ہو تو نتیجہ معذوری کی شکل میں نکل سکتا ہے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 21 نومبر 2016
شعبۂ صحت کے ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

شعبۂ صحت کے ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

آرتھرائٹس ایک ایسی بیماری ہے جو نہ صرف ہڈیوں اور جوڑوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ جسم کے مختلف حصوں مثلاََ دماغ، دل، پھیپھڑے، آنکھ، جلد، گردوں ، شریانوں غرض کے ہر حصے کو متاثر کرسکتی ہے۔

اس مرض کی 100سے زائد اقسام ہیں جو پیدائش سے لے کر بڑی عمر تک کے لوگوں کو لاحق ہوسکتی ہیں۔ ’’آرتھرائٹس ‘‘ کے بارے میں آگاہی کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحت کے ماہرین نے گفتگو کی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر صالحہ اسحاق
پاکستان سوسائٹی آف روماٹولوجی کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ آپ آرتھرائٹس، روماٹزم اور روماٹوائڈ آرتھرائٹس کی ماہر ہیں اور اس حوالے سے پاکستان اور امریکا میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

آرتھرائٹس میں 100مختلف قسم کی بیماریاں آتی ہیں اور کوئی بھی ایسی بیماری جو جوڑوں پر اثرانداز ہو، آرتھرائٹس ہوسکتی ہے۔ عام طور پرپاکستان میں rheumatoid arthritisپایا جاتا ہے۔ آرتھرائٹس کی سب سے خطرناک قسم اوسٹیو آرتھرائٹس (osteo arthritis)ہے جسے degenerative arthritis بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں عمر کے ساتھ ساتھ ہڈیاں گھس جاتی ہیں۔

آرتھرائٹس نہ صرف جوڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جیسا کہ anky losing spondylits کمر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح آرتھرائٹس ،آنکھوں ، پھیپھڑوں، گردے ، دل اور پٹھوں سمیت جسم کے مختلف حصوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو آرتھرائٹس کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جس میں آنکھوں کی بینائی جا سکتی ہے اور جسم کے دیگر اعضاء ناکارہ ہوسکتے ہیں۔ مختلف قسم کے آرتھرائٹس کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ genetic transfer ہوسکتی ہے۔

اگر یہ مرض والدین میں ہو تو بچوں کو منتقل ہوسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نسل میں منتقل ہو۔ اوسٹیو آرتھرائٹس ہر شخص کو ہوتا ہے کیونکہ عمر کے ساتھ ساتھ ہڈیاں گھس جاتی ہیں۔ آرتھرائٹس جینیاتی بھی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے لگنے والی کوئی بیماری بھی آرتھرائٹس کی وجہ بن سکتی ہے۔ جلد کی بیماریpsoriasisکی وجہ سے psoratic arthritis ہوسکتا ہے یا پھر یورک ایسڈ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی آرتھرائٹس ہوسکتا ہے۔آرتھرائٹس ایک سال سے لے کر 100 سال کی عمر تک کے لوگوں کو ہوسکتا ہے۔

جوڑوں میں در د اور کھچاؤ، تھکاوٹ، وزن میں کمی، نیند کی خرابی وغیرہ اس کی علامات میں شامل ہیں۔ بعض آرتھرائٹس جوڑوں پر بعد میں اثرانداز ہوتے ہیں لیکن جسم کے کسی دوسرے حصے کو پہلے متاثر کرتے ہیں۔ آنکھ سے شروع ہونے والے آرتھرائٹس میں بینائی کمزور ہونے لگتی ہے ، جب مریض آنکھ کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ آرتھرائٹس کا شک ہونے پر ہمارے پاس بھیجتے ہیں اور پھر مختلف ٹیسٹوں کے بعد بیماری کا پتہ چلایا جاتا ہے۔ آرتھرائٹس، مرد وخواتین دونوں میں ہوتا ہے جبکہ rheumatoid arthritis عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

پاکستان میںrheumatoid arthritis زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ ankylosing spondylits سے بھی کافی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ankylosing spondylits کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے، یہ زیادہ تر 17سے 30سال کی عمر کے نوجوان لڑکوں میں ہوتا ہے جنہیں کمر کے نچلے حصے میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ اس کی تشخیص ہونے میں لوگوں کو 5سے 10سال لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ عام ڈاکٹرز کے پاس جاتے رہتے ہیں اور انہیں مرض کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی ۔ یہ پاکستان میں پائی جانے والی آرتھرائٹس کی دیگر اقسام کی نسبت قدرے عام ہے۔ اس کے علاوہ gout، lupus اور osteoporosis بھی عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ امریکا میں معذوری کی سب سے بڑی وجہ آرتھرائٹس ہے۔

ہمارے ملک میں بھی معذوری کی دو بڑی وجوہات دل کی بیماریاں اور آرتھرائٹس ہیں لہٰذاجیسے ہی جوڑوں میں درد، کھچاؤ ،سوجن یا اس قسم کی علامات ہوں توڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ بلڈ ٹیسٹ اور ایکسرے کے بعد ڈاکٹر rheumatologist کے پاس بھیجتے ہیں اور پھر وہ اس کی تشخیص کرتے ہیں۔ کچھ قسم کے آرتھرائٹس ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن بعض کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اس مرض کا شکار بچے ہوں یا بڑے، اگر ان کا علاج جاری رہے تو نارمل زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اگر علاج میں دیر ہو یا درمیان میں علاج روک دیا جائے تو پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔اس مرض کے ابتدائی مہینوں میں جوڑوں کو بغیر کسی نقصان کے اس کا علاج کرلیا جاتا ہے لیکن اگر پہلے کچھ مہینوں میں علاج نہ ہو تو جوڑ خراب ہوجاتے ہیں۔

ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 15سے 16ملین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کو آرتھرائٹس لاحق ہوتا ہے۔پاکستان میں آرتھرائٹس کی تمام اقسام کا علاج موجود ہے مگر بدقسمتی سے لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔اس کے علاوہ ہمارے پاس تمام ادویات دستیاب نہیں ہے مگر جوادویات موجود ہیں وہ مہنگی ہیں۔

ہمارے ملک میں ہیپاٹائٹس، دل کی بیماریوں، کینسر وغیرہ کے لیے بہت زیادہ کام ہورہا ہے لیکن آرتھرائٹس کے بارے میں آگاہی نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے لوگ ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور انہیں وہ علاج اور ادویات نہیں ملتی اور جو اس مرض کے لیے ضروری ہیں۔ افسوس ہے کہ حکومت نے ابھی تک اس مرض کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ ہم لوگوں میں اس مرض کے بارے میں آگاہی پیدا کررہے ہیں کیونکہ اس طرح حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور پھر لوگوں کو سہولیات بھی ملیں گی۔ہماری ایسوسی ایشن آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لیے فری کلینکس بھی لگا رہی ہے، اس کے علاوہ مریضوں کو مفت ادویات کی فراہی کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت بھی جاری ہے ۔

ڈاکٹر سمائرہ فرمان راجہ
آرتھرائٹس کیئر فاؤنڈیشن کی سینئر ممبر ہیں اور 2017ء میں آپ پاکستان سوسائٹی آف روماٹولوجی کی صدر بنیں گی۔ آپ ماہرروماٹولوجسٹ ہیں اور پاکستان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

آرتھرائٹس کوئی عام بیماری نہیں ہے ۔ جوڑوں میں درد، سوجن، اکڑاؤ، مادہ کا اکٹھا ہونا، ہڈیوں کی توڑ پھوڑ وغیرہ آرتھرائٹس کی علامات میں شامل ہیں۔ اس مرض سے جوڑوں کی اندرونی جھلیاں متاثر ہوجاتی ہے اور اگر بروقت علاج نہ ہوں تو اس کا نتیجہ معذوری کی شکل میں نکلتا ہے۔موسمی بیماریوں، وائرس، کن پیڑے، ہیپاٹائٹس ، پیٹ کی خراجی، پیشاب کے امراض، گلا خراب و اس طرح کی دیگر بیماریوں کی وجہ سے جوڑوں میں سوجن پیدا ہوسکتی ہے، یہ دراصل آرتھرائٹس ہوتا ہے لیکن وقتی ہوتا ہے اور تقریباً 6ہفتوں میں جوڑوں کی سوجن کا مسئلہ خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے۔

رو ماٹک فیور ایک بیماری ہے جو کم عرصے کے آرتھرائٹس میں شامل ہے، اس میں گلا خراب ہونے کے کچھ عرصے بعد جوڑ سوج جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ روماٹک ہارٹ ڈیزیز ترقی پزیز ممالک اور ہمارے ملک میں بھی ہے،اس سے بعد میں دل کے سوراخ چھوٹے ہوجاتے ہیں اور یہ مرض نوجوانوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہر مرتبہ گلے کی خرابی اور جوڑوں میں سوجن روماٹک فیور نہیں ہوتا۔اگر جوڑوں کی بیماری چار سے چھ ہفتوں میں ٹھیک نہیں ہوتی تو پھر اس کے ساتھ دیگر بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہے ۔

جن میں گھنٹیا بھی شامل ہے۔آرتھرائٹس کی ایسی بہت ساری قسمیں ہیں جو جوڑوں کے ساتھ ساتھ دماغ، آنکھیں، دل، پھیپھڑے، انتریاں و دیگر حصوںکوبھی متاثر کرتی ہیں اور خون کی شریانیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔ اس کی ایک قسم vasculitis ہے جس میں جوڑ وں کے ساتھ ساتھ شریانیں بھی سوج جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جسم کا متعلقہ حصہ کام نہیں کرتا، اس طرح فالج بھی ہوسکتا ہے اور گردہ و دل بھی فیل ہوسکتا ہے۔ جیسے بے شمار طرح کا بخار ہوتا ہے اسی طرح آرتھرائٹس کا بھی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے اور ایک ماہر ہی اس کی تشخیص کرسکتا ہے۔

بعض اوقات آرتھرائٹس سے خون کا عارضہ ہوتا ہے، خون کے خلیے کم ہوجاتے ہیں، بون میروناکارہ ہوجاتا ہے اور اس سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔آرتھرائٹس کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے، عمومی طور پر لوگ صرف بڑی عمر میں ہڈیوں کے گھس جانے یا جوڑوں میں درد کو آرتھرائٹس سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ساری بیماریاں مختلف شکل میں بچوں میں بھی ہوتی ہیں۔

ان میں بیشتر بیماریاں ایسی ہیں جو جان لیوا نہیں ہوتیں لیکن ان سے زندگی کم ہوجاتی ہے اور عمر بھر کی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اگر اس کی بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے تو معذوری سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی 20کروڑ ہے لیکن پورے پاکستان میں روماٹولوجی کے بہت کم سینٹرز ہیں ۔فاطمہ میموریل ہسپتال میں روماٹولوجی کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے لیے پہلا سینٹر منظور ہوا اور اب پاکستان میں 36کے قریب روماٹولوجسٹ ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں روماٹولوجسٹ کی آسامی نہیں ہے، پمز ہسپتال اسلام آباد اور شیخ زید ہسپتال لاہور میں اس کے لیے آسامیاں ہیں جبکہ دیگر سرکاری ہسپتالوں میںاس حوالے سے کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ پاکستان میں صحت کے مسائل بہت زیادہ ہیں جبکہ ان پر خرچ بہت کم کیا جاتا ہے۔

ہمارے پاس غریب لوگ آتے ہیں اور ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس مرض کا شکار لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔ ہماری فاؤنڈیشن نے مختلف جگہ کلینکس بنائے ہیں، ہم غریب مریضوں کو مفت علاج معالجہ فراہم کر رہے ہیں مگر ہمارے پاس وسائل محدود ہیں۔ ہم آرتھرائٹس کے حوالے سے آگاہی مہم بھی چلا رہے ہیں، عام لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ڈاکٹروں کی تربیت بھی کررہے ہیں۔

ہماری اس ٹریننگ کی وجہ سے ڈاکٹروں میں بھی آگاہی پیدا ہوئی ہے اور اب وہ ملک بھر سے مریضوں کو ہمارے پاس بھیج رہے ہیں۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے مختلف طرح کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، ان میں بعض ٹیسٹ بہت مہنگے بھی ہوتے ہیںجو غریب کی پہنچ سے باہر ہیں۔ آرتھرائٹس کیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہم فری ادویات و علاج معالجہ کا خرچ بھی اٹھا رہے ہیں جبکہ فاطمہ میموریل ٹرسٹ بھی ہمیں سہولیات فراہم کرتا ہے۔

عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر درد یورک ایسڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یورک ایسڈ کی وجہ سے goutہو سکتا ہے یا گردوں کے خراب ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ goutاور آسٹیو آرتھرائٹس بھی آرتھرائٹس کی اقسام ہیں۔ سب سے پہلے مرض کی قسم دیکھی جاتی ہے بعد ازاں اس کا علاج کیا جاتا ہے۔

انفیکشن سے بچاؤ، حفاظتی ٹیکے اور ورزشن انتہائی ضروری ہے۔ بعض اوقات مرض پیچیدہ ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ مرض آرتھرائٹس ہے یا کینسر ، ایسی صورتحال میں بہت سارے ٹیسٹ کرنے پڑتے ہیں اور پھر کہیں جا کر اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے لہٰذا اگر بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے تو بہت ساری پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔دنیا میں اس بیماری کے اعداد و شمار انتہائی تشوشناک ہیں۔ ہر 3میں سے 1شخص کسی نہ کسی قسم کے آرتھرائٹس کا شکار ہے اور یہی اعداد و شمار پاکستان میں بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ماسوائے چند ایک طریقوں کے، پاکستان میں اس بیماری کے حوالے سے نئی تحقیق اور جدید علاج کے تمام طریقے موجود ہیں لیکن لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔

اداروں میں اس مرض کے حوالے سے ٹریننگ کا فقدان ہے، پوسٹ روماٹولوجی کے ڈیپارٹمنٹ نہیں ہیں، اس کے لیے ہسپتالوں میں آسامیاں نہیں ہیں لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ ہسپتالوں میں روماٹولوجی کے سینٹر زبنائے اور ڈاکٹر تعینات کیے جائیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی فلاح کا کام کریں اور اس میں ہم سب کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر ہارون جہانگیر
پنجاب کے شعبہ صحت کے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ہیں۔ آپ کی اس شعبے میں بہت خدمات ہیں ۔ آپ اس وقت نان کمیونی کیبل ڈیزیز اور مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے خصوصی پروگرام چلا رہے ہیں۔

مرض کی بروقت تشخیص ،معیاری علاج اور لوگوں کو امراض کے حوالے سے آگاہی دینا ،حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اس کے لیے سرکاری سطح پر شعبہ صحت کی بہتری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھا کام کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ہمارے مینڈیٹ میں ہے کہ ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیو، رورل ہیلتھ سینٹرز و دیگر بنیادی ہیلتھ یونٹس میں علاج معالجے کی سہولیات کو بہتر کیا جائے تاکہ مرض کی بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔ اس کے علاوہ out reach پروگراموں کو عوام تک پہنچایا جاسکے تاکہ عوام میں آگاہی پیدا ہوسکے۔ ہم نے 3سال قبل نان کمیونی کیبل ڈیزیز اور مینٹل ہیلتھ کا پروگرام ترتیب دیا۔

اس حوالے سے ابتداء میں ہم پانچ اضلاع میں گئے اور سینئر ڈاکٹروں کو جوڑوں کے درد،روماٹک ہارٹ ڈیزیز و دل کی دیگر بیماریوں،osteo arthritisوغیرہ کے حوالے سے کیس سٹڈی دی تو 12ڈاکٹروں کے اس گروپ میں سب کا علاج ایک دوسرے سے مختلف تھا اور کسی کا علاج ہماری کتاب’’medical diagnosis current ‘‘ سے نہیں ملتا تھا۔

ہمارے ہاں ٹیچنگ ہسپتالوں میں تو شاید اچھا علاج اور تربیت ہو رہی ہے لیکن نچلی سطح پر اس کے اثرات نہیں جارہے۔حکومت نے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کا نیا محکمہ بنایا ہے۔ اس کا مینڈیٹ بھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے لے کر ’’بی ایچ یو‘‘ کو بہتر کرنا ہے۔ ہم ’’بی ایچ یو‘‘ کو چوبیس گھنٹے کام کرنے کے قابل بنا رہے ہیں، 700 یونٹس کو سہولیات فراہم کردی گئی ہیں جبکہ اس مالی سال میں مزید 103یونٹس بھی بہتر ہوجائیں گے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کو 100ملین روپے کی رقم سے بہتر کیا جارہا ہے تاکہ وہاں مریض دوست ماحول ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی تربیت کی جارہی ہے اور ان کے لیے ٹریننگ پروگراموں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم نے ڈاکٹروں کے لیے simple desk guidelines بنائی ہیں، جس میں مختلف بیماریوں کے حوالے سے رہنمائی موجودہے۔ پیدائش سے 12ماہ تک کے بچوں کے لیے early child developmentکا پروگرام تیار کیا ہے جس میں انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ و دیگر اداروں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے، اسے 9 اضلاع میں شروع کیا جائے گا جبکہ بعدازاں اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔ محکمہ صحت پنجاب کا کام صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینا ہے، اس کے لیے یونیسیف کے تعاون سے ملٹی سیکٹورل نیوٹریشن سٹریٹجی بنائی گئی ہے جس کا مقصد ماں،باپ اور بچوں کی رہنمائی کرنا ہے۔

نان کمیونی کیبل ڈیزیز اور مینٹل ہیلتھ پروگرام میں بھی صحت مند زندگی پر زور دیا جارہا ہے، اس میں پیدائش سے لے کر 25سال کی عمر تک کے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔نان کمیونی کیبل ڈیزیز کا پروگرام نیا ہے، ہم ہر چیز کو فوری ٹھیک نہیں کرسکتے لیکن ہم پوری محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ پہلی مرتبہ out patientمیں ہر سطح کے ہسپتالوں میں triad deskقائم کیا جارہا ہے۔ اس میں قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف وغیرہ موجود ہوگا تاکہ علاج کا بہتر معیار، فوری تشخیص اور بروقت علاج ممکن بنایا جاسکے۔

ہم اینڈرائڈ سسٹم متعارف کروا رہے ہیں جس سے صوبے بھر کے ’’بی ایچ یو‘‘ اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کے ڈاکٹرز آپس میں منسلک ہوں گے۔ اس سسٹم کے ذریے وہ مریض کو متعلقہ ڈاکٹر کے پاس بھیجیں گے، اس طرح ہمارے پاس ڈاکٹروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ مریضوں کا ڈیٹا بھی آجائے گا جس سے معاملات بہتری آئے گی۔ تمام بیماریاں ہمارے نوٹس میں ہیں، ہم مرحلہ وار کام کررہے ہیں لہٰذا بہت جلد صحت کے نظام میں بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر احمد سعید
پاکستان سوسائٹی آف روماٹولوجی کے خزانچی اور ماہر روماٹولوجسٹ ہیں۔ آپ روماٹولوجی کے بارے میں لوگوں میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی تربیت کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں۔

جسم کے مدافعتی نظام میں خرابی کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہونے والے بیماریوں کے ایک بڑے گروپ کا تعلق روماٹولوجی سے ہے۔ اس میں روماٹوائڈ آرتھرائٹس، anky losing spondylitis، SLE اور دیگر بیماریاں شامل ہیں۔ SLEایک ایسا مرض ہے جو عمومی طور پر نوجوان خواتین میں ہوتا ہے لیکن یہ مردوں اور بچوں میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس مرض میںجلد اور جوڑوں کی بیماری، خون کے خلیوں کی کمی ، گردوں کی خرابی و اس طرح کے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اگر ان کا بروقت علاج نہ ہو پھر گردوں کے فیل ہونے کا 50فیصد خطرہ ہوتا ہے اور پھر ڈائلسز کروانا پڑتا ہے۔ rheumotologist،آرتھرائٹس کے علاج کے اصل ڈاکٹرز ہیں لیکن وہ تنہا کام نہیں کرسکتے، انہیں دوسرے ڈاکٹرز کے تعاون کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ٹیچنگ ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔

روماٹولوجی میں جو ادویات دی جاتی ہیں ان میں بھی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مضر اثرات نہ پڑیں۔ مریضوں کے مختلف قسم کے ٹیسٹ وغیرہ کروائے جاتے ہیں جن کے لیے دوسرے ڈیپارٹمنٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مرض کے حوالے سے 85فیصد ادویات موجود ہیں ۔ آرتھرائٹس کی بعض اقسام کے لیے روایتی ادویات ہی دی جاتی ہیں لیکن اگر مرض پیچیدہ ہوجائے تو اس کی ادویات کافی مہنگی ہوتی ہیں۔ آرتھرائٹس کے حوالے سے سب سے اہم احتیاطی تدابیر یہ ہے کہ سگریٹ نوشی سے پر ہیز کیا جائے۔آرتھرائٹس کی 100اقسام ہیں، ان کا ابتدائی دنوں میں علاج آسان اور سستا ہے لیکن اگر یہ پیچیدہ ہوجائے تو اس سے مستقل معذوری بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

آرتھرائٹس multi system diseases ہیں اور کوئی بھی ان سے متاثر ہوسکتا ہے۔ کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو آرتھرئٹس تو ہیں لیکن وہ جوڑوں کی درد کی صورت میں واضح نہیں ہوتیں بلکہ ان کی پہلی علامت کسی اور حصے میں خرابی ہوسکتی ہے۔ اس میں آنکھ کی سوجن بھی ہوسکتی ہے اور بعد میں واضح ہوتا ہے کہ یہ آنکھ نہیں بلکہ جوڑوں کی بیماری ہے۔ آرتھرائٹس کی اقسام luppus، rheumatoid arthritis سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں جبکہ anky losing spondy litis میں مرد زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔

اسی طرح goutمردوں میں زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ خواتین میں بھی ہوتا ہے۔آرتھرائٹس کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ اس مرض کے حوالے سے ڈاکٹروں کے لیے ٹریننگ پروگراموں کی بھی ضرورت ہے۔ہم ڈاکٹروں کی ٹریننگ کررہے ہیں، آنکھ کے ڈاکٹروں، جنرل فزیشنز،فیملی فزیشنز و دوسری میڈیکل سوسائٹیاں ہمیں اپنے ڈاکٹرز کی ٹریننگ کے لیے بلاتے رہتے ہیں اور ہم انہیں ان بیماریوں کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں pediatric rhematologistنہیں ہیں، صرف ڈاکٹر فرمان راجہ کے علاوہ شاید ہی ملک میں کوئی اور ڈاکٹر ہو۔

اس شعبے کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور امید ہے آئندہ کچھ سالوں میں بہتر ہوجائے گا۔ ہم آرتھرائٹس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ابھی منزل بہت دور ہے۔ اس وقت پاکستان میں 20لاکھ آرتھرائٹس کے مریض ہیں جبکہ صرف 35روماٹولوجسٹ ہیں جو اس مرض کے علاج کے لیے ناکافی ہیں۔ ہمارا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے مطالبہ ہے کہ rheumotology کے حوالے سے ٹیچنگ cadreکی سیٹ رکھی جائے تاکہ وہ ا س کو آگے لیکر چل سکیں اور ڈاکٹروں کی ٹریننگ کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔