صف بندیاں کیسی ہونے والی ہیں (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  اتوار 20 نومبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

یوں تو جس دن سے دنیا کو نسل‘ رنگ اور زبان کی بنیاد پر قومی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تو اسی دن سے عالمی سطح پر ایک اور رسم کی بنیاد رکھی گئی کہ اب لوگوں‘ قوموں یا ملکوں کو ان کے مذہب کے نام سے نہیں پکارا جائے گا۔ پہلے مسیحی یورپ کی ترکیب بلکہ عیسائی دنیا اور غیر عیسائی دنیا کی تقسیم عام تحریروں میں مل جاتی تھی لیکن کوئی مضمون نگار تذکرہ نہ بھی کرے‘ ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ اب تو بس یورپ ایشیا‘ امریکا کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ عیسائی دنیا یوں تو بظاہر ایک نظر آتی ہے لیکن گزشتہ ایک ہزار سال سے یہ دو بنیادی حصوں مشرق و مغرب میں تقسیم ہے۔

مشرق و مغرب تو علاقائی تقسیم ہے‘ اصل میں ایک طبقے اور علاقے کے عیسائی اپنے آپ کو Orthudox  یعنی راسخ العقیدہ عیسائی کہتے ہیں جو زیادہ تر روس اور مشرقی یورپ کے ممالک میں رہتے ہیں جب کہ دوسرے طبقے کے عیسائی اپنے آپ کو  Catholic یعنی عالمگیر یا ہمہ گیر عیسائی کہتے ہیں جن کا سربراہ ’’پوپ‘‘ ویٹکن سٹی میں ہوتا ہے۔ انھی کیتھولک عیسائیوں میں سے ایک گروہ نکلا جسے  Protestant یعنی معترض یا مصلح عیسائی کہا جاتا ہے۔ عیسائی مذہب کو معاشرتی اور سیاسی زندگی سے دیس نکالا‘ دو جدید نظریات نے دیا‘ مشرقی یا راسخ العقیدہ عیسائی علاقوں یعنی روس اور مشرقی یورپ میں کمیونزم نے عروج پکڑا‘ جو ایک جرمن نژاد یہودی کارل مارکس کی تحریروں سے پیدا ہوا‘ جب کہ مغربی دنیا میں سیکولر نظریات نے عیسائیت کو ریاست بلکہ معاشرت سے بھی نکال باہر کیا۔ جدید مغربی تہذیب کا غلغلہ اس قدر بلند ہوا کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ دونوں نے اسے تہذیبی‘ معاشرتی اور سیاسی طور پر قبول کر لیا اور مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر خاموش ہو گئے۔

دوسری جانب مشرقی عیسائیت یا راسخ العقیدہ  (Orthodox) چرچ پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی۔ کمیونزم نے گرجا گھروں‘ مسجدوں اور یہودی عبادت گاہوں پر تالے لگا دیے۔ کارل مارکس کے اس مقولے ’’مذہب ایک افیون ہے‘‘ پر عمل کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی زندگی سے بھی خارج کرنے کی پوری کوشش کی گئی‘ سیکولر ازم نے مذہب کو موم کی ناک بنایا اور ہم جنس پرست شادی تک کے لیے اس سے جواز ڈھونڈ نکالے جب کہ کمیونزم نے اسے جبراً ختم کرنے کی کوشش کی۔ پورے مشرقی یورپ اور روس میں اس جبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیت لوگوں کے سینوں میں ایک مستقبل احتجاج کے طور پر زندہ رہی۔ ویسے بھی ان کا ’’راسخ العقیدہ‘‘ مذہب مغربی کیتھولک عیسائیت سے مختلف اور سیدنا عیسیٰؑ کی تعلیمات کے زیادہ قریب تھا۔

یہ ان یونانی عیسائیوں کی روایات کا امین تھا جن کے ہاں تصوف عام تھا‘ وہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کے براہ راست تسلسل کے قائل تھے‘ ان کے نزدیک وہ تمام مقامات جہاں عیسائیت پلی بڑھی‘ جیسے اسکندریہ‘ یروشلم‘ روم اور قسطنطنیہ سب برابر تھے جب کہ کیتھولک ویٹیکن اور پوپ کی مرکزیت کے قائل تھے اور ہیں۔ سب سے اہم فرق یہ ہے کہ مغربی عیسائیت اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر چڑھ کر تمام عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر گئے ہیں جب کہ مشرقی راسخ العقیدہ عیسائی اس بات پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اعمال اور تزکیہ نفس کو بخشش کی بنیاد سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نہ تو انھوں نے سیکولر طرز زندگی کو قبول کیا اور نہ ہی کیمونزم کے نظریات کو۔ مغربی طرز زندگی نے مغربی عیسائیت پر اسقدر غلبہ حاصل کیا کہ پوپ حتیٰ کہ ہر پادری سے داڑھی کا تصور ہی ختم کروا دیا جب کہ آرتھوڈکس عیسائیت میں آپ کو داڑھی بھی ملے گی اور وہ سور کے گوشت کو بھی حرام قرار دیتے ہیں۔ ایتھوپیا کے آرتھوڈوکس چرچ نے اس پر مکمل پابندی لگوا رکھی ہے۔ یہ وہی ایتھوپیا ہے جسے رسول اکرمﷺ کے زمانے میں حبشہ کہا جاتا تھا اور جب مکہ کے قریش نے مظالم کے پہاڑ توڑنا شروع کیے تو آپؐ  نے صحابہ کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کے لیے کہا تھا کیونکہ قرآن پاک کی المائدہ کی آیت نمبر82 عیسائیوں کے حسن سلوک کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔

مغربی عیسائیت تو اب مکمل طور پر سیکولرازم اور لبرل ازم کے غلبے میں ہے بلکہ وہ تمام ممالک جہاں اکثریت کا مذہب عیسائیت ہے وہ عیسائی کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ ان کے کسی شناختی دستاویز پر مذہب کی کوئی علامت موجود نہیں۔ اس سب کے باوجود بھی وہ عیسائی ہیں اور اس تعصب کا اظہار کبھی دہشتگردی اور کبھی انسانی حقوق کے الفاظ کے پیچھے چھپ کر بخوبی کرتے ہیں بلکہ مسلم دنیا سے شدید نفرت بھی کرتے ہیں۔ اس نفرت کی وجہ ان کا سیکولر ازم اور لبرل ازم بھی ہے اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیت بھی۔

دوسری جانب جب کمیونسٹ روس ٹوٹا تو جہاں چھ مسلمان ریاستیں وجود میں آئیں‘ ریاستیں بھی ایسی جن کے لوگوں کے دلوں میں جذبہ جہاد موجزن تھا‘ وہیں راسخ العقیدہ یعنی آرتھو ڈوکس عیسائیت بھی روس اور مشرقی یورپ کی زندگی میں لوٹ آئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روس میں ہر سال ایک ہزار چرچ نئے تعمیر ہو رہے ہیں یا پرانوں کو از سر نو بحال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت روس میں 34,764  گرجا گھر ہیں جہاں باقاعدہ عبادت ہوتی ہے۔ کمیونزم کے زمانے میں23 ہزار گرجا گھروں کو مسمار کر دیا گیا تھا‘ ان سب کو دوبارہ تعمیر کرایا گیا ہے۔ کمیونسٹ روس کے خاتمے کے بعد وہ لوگ جو خود کو عیسائی کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔

دنیا کی معتبر تحقیقی تنظیم  PEW کے مطابق 1991ء سے  2008ء تک یہ تعداد 31 فیصد سے 72 فیصد تک جا پہنچی۔ روس میں اس وقت 361 بشپ‘ چالیس ہزار پادری  ,445(Priest)خانقاہیں (Monestries) اور 471 مذہبی تدریسی ادارے (Convents) موجود ہیں۔ اس وقت روس اور مشرقی یورپ میں جو فضا ہے اس میں عیسائیت اور مذہبی زندگی ایک مقبول قدر بن چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب روس نے کریمیا سے الحاق کا اعلان کیا تو پیوٹن نے ببانگ دہل کہا کہ روس ایک عیسائی ملک ہے اور یہ مغرب کے سیکولرازم کا سب سے زیادہ مخالف ہے‘ یہیں پر روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ نے اپنی تقریر میں یورپ کو “Decadent West” یعنی زوال پذیر مغرب کہہ کر پکارا۔ اس نے کہا ’’مغربی ممالک کی اکثریت اپنی ماضی کی اقدار سے دور جا چکی ہے‘ خصوصاً عیسائی اقدار سے۔ یہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن شیطان پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی تباہی کا راستہ ہے جو انھیں ہم جنس شادیوں اور خاندانی نظام کی تباہی کی طرف لے آیا ہے‘‘۔ اس وقت روس کے اخباروں میں جو مضامین شایع ہو رہے ہیں‘ پیوٹن اور اس کے ساتھی جس طرح کی گفتگو کر رہے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کا ’’نیو ورلڈ آڈر‘‘ ایک شیطانی اصطلاح ہے جس کے پیچھے پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی ہوس پوشیدہ ہے۔

روس کے اکثر دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم ایک یہودی  شرارت تھی جس نے ان کی تہذیب کو تباہ کیا۔ آرتھوڈوکس چرچ کے نمایندے برادر نتھینئل Brother Nathanael نے اپنے مضمون Putin VS Jews of new world order میں صاف لکھا ہے ’’2006ء تک پیوٹن نے روتھ شیلڈ کا قرض اتار کر روس کو یہودی ورلڈ آڈر کے شکنجے سے آزاد کرا دیا ہے اور سودی نظام سے بھی‘‘۔ روس نے اس شکنجے سے آزاد ہونے کے بعد اپنا جو تصور بحال کیا ہے اس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ (کیمونسٹ سوویت روس ایک عیسائی قدامت پرست قوم بن کر ابھر رہا ہے جب کہ امریکا ایک ’’ہم جنس پرست سوویت یونین‘‘۔ یوں آج پوری دنیا میں جو لوگ فخر کے ساتھ عیسائی کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ روس اور مشرقی یورپ کے ممالک ہیں۔

اب سورہ المائدہ کی آیت 82 کے الفاظ پر غور کریں۔ ’’اور تم یہ بات بھی محسوس کر لو گے کہ مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جو عیسائی کہلواتے ہیں۔ یہ آیت مستقبل اور مسلسل مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آج کے دور میں صرف روس اور مشرقی یورپ کی اقوام ہی عیسائی کہلوانا پسند کرتی ہیں۔ اسی آیت میں اب دشمنوں کے ذکر پر بھی غور کریں۔ ’’تم یہ بات ضرور محسوس کر لو گے کہ مسلمانوں سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کھل کر شرک کرتے ہیں‘‘۔

یہودی اور بھارت کے ہندو تو پہچانے جاتے ہیں لیکن کھل کر شرک کرنے کی ایک قسم لبرل ازم‘ سیکولر ازم اور جمہوریت میں بھی پوشیدہ ہے جب آپ حاکمیت اعلیٰ کے منصب پر انسانوں کی اکثریت کو فائز کر دیتے ہو‘ انھیں انسانوں کے لیے قوانین بنانے‘ اقدار اور اخلاق وضع کرنے کا اختیار دے دیتے ہو تو آپ دراصل اللہ کی صفت ’’الملک‘‘ کے ساتھ شرک کر رہے ہوتے ہو۔ یہ ہے صف بندی جو اب دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت‘ اسرائیل‘ امریکا‘ یورپ اور وہ مسلمان ملک جو اسلام نہیں قومیت کی منافقت پر قائم ہیں جب کہ دوسری جانب پاکستان‘ چین‘ روس‘ اور دیگر دوسرے ممالک کی صف بنتی جا رہی ہے۔ کیا یہ صف بندی مستقبل ہو گی یا نہیں۔ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب قرآن کی ہدایت اور سید الانبیاءﷺ کی احادیث کی رہنمائی میں موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔