ہم کو ٹرمپ نے خط لکھا (پہلا حصہ)

نادر شاہ عادل  اتوار 20 نومبر 2016

ایک عرصے تک ہم یہ مصرعہ گنگناتے رہے ہیں کہ
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

لیکن گزشتہ روز چشم تصور نے دیکھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہم نے جو غنائی خط لکھا تھا اس کا اتنا اثر دلپذیر ہوا کہ موصوف نے بے انتہا مصروفیات کے باوجود فوراً جواب بھی بھیج دیا۔ البتہ فرق دونوں خطوط کے بین السطور میں خوشی اور غم کا حسیں امتزاج کا ہے۔ ایک طرف فتحیاب اور بدمست ٹرمپ کے خط کے مندرجات فتح و شادمانی کے جذبات سے لبریز تھے، تو دوسری جانب ٹرمپ اتنے رنجیدہ خاطر تھے کہ کچھ نہ پوچھئے، بس یوں سمجھئے دنیا کا جولیس سیزر جیتنے کے بعد کبھی خوشی کبھی غم کی تصویر بن کر رہ گیا۔

اس نے سارے تجزیے، مخالفانہ، موافقانہ مضامین اور سلگتے کالم پڑھ ڈالے اور اپنے دلفریب تبصروں کے ساتھ مکمل ڈائری شاید مجھے بصورت خط بھیج دی، جس کا ایک ایک لفظ شکوہ سنجی کی ایک درد بھری اور الف لیلوی داستان تھا، ایک کتھارسس تھا جس میں سفید فام امریکیوں کی انتخابی تقسیم پر ٹرمپ نے ہمیں اشکبار بھی کیا اور حقائق سے متصادم امریکیوں کی قلب ماہیت، دلجوئی، برہمی اور فرسٹریشن سے آگاہی بھی عطا کی۔ تاہم ہم سے اپنی فتح مندی کا درد فراخ دلی کے ساتھ شیئر کیا۔ Thank U ٹرمپ بابا۔

آپ تو خط میں جیسے چلا چلا کر کہہ رہے ہوں کہ ’’برہم و بیزار امریکیو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے، میں غارت گر ہوش ہرگز نہیں ہوں۔ میں نے تو ہلیری کے مقابل آپ سے بس ووٹ مانگے تھے، یہ جرم ہلیری نے بھی کیا تھا، وہ آئین کے تحت مسکرا مسکرا کر ووٹ مانگتی رہیں اور مجھ منہ پھٹ پر الزام ہے امریکا کی رسوائی کا، اور یہ کہ میں نے آپ لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ماورائے آئین ایسی ممنوعہ، معیوب یا سیاسی طور پر غلط باتیں کیں جو دنیا کے بیشتر سیاست دان کرتے ہیں، یا وہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

میرا ایجنڈا عظیم تر امریکا تھا، آخر وہ رہنما کون ہے جسے اپنا ملک عزیز نہیں ہوتا۔ پھر بابا جی نے مجھ سے سوال کیا کہ ڈیئر جرنلسٹ! بتائیے آپ کے لیڈر کیا ملک ڈبوتے ہیں؟ میں کسی کارواں کا رہبر نہ تھا۔ کارپوریٹ کلچر کا کچرا سمجھا گیا، مجھے تو عالمی میڈیا کی اکثریت نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ ٹرمپ کا سفید فام تفاخر کے رنگ میں ڈوبا خط شوخی تحریر میں نقش فریادی تھا جو ٹرمپ کے قلم سے باہر نکل کر کہہ رہا تھا کہ میں نے الیکشن جیت کر کون سا جرم کیا ہے، میں نے کون سی ایسی باتیں کیں جو غلط تھیں۔ ہاں میری شوخیٔ گفتار قابل گردن زنی ہے، یہ میری مجبوری ہے، میں میر تقی میر، انیس، غالب، اقبال و فیض کا شعری لہجہ کہاں سے لاتا۔

ایک فاتح صدر کی اپنی جیت پر آنسو بھری کتھا ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے کہ اسے قارئین سے کیسے چھپا سکتے ہیں۔ اگرچہ ملکی و غیر ملکی میڈیا ہمیں باور کرا رہا ہے کہ پاکستان تاحال ٹرمپ کی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں، مگر یوں بھی نہیں ہے کہ وہ ایک مسلم ایٹمی طاقت سے ترک تعلق یا پھر التفات خسروانہ کے بیچ منجدھار میں کوئی فیصلہ نہ کر پائے ہوں۔ ساجد تارڑ کی پلیا موجود ہے، سلسلۂ جنبانی میں دیر کاہے کی۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار بے پایاں تزویراتی گہرائیوں میں اتر گئے ہیں کہ کرین بنا کیسے اوپر آئیں۔

اس لیے عرض ہے کہ پاکستان سے تجدید وفا یا اس بااعتماد حلیف کو گلے لگانے کے لیے ٹرمپ کو نہیں ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ عالمی جنگل کا شیر ناراض ہے تو کسی ڈپلومیٹ لومڑی کو تلاش کیجیے، ٹرمپ کی بزم میں جانے اور ’’ساقیا جام پلادے‘‘ کی دلکش سفارتکاری ہمارے بزرجمہروں کے ذمہ ہے۔ پاکستان کے پاس تھینک یو امریکا کی جو پرانی ٹیمپرنگ کی ہوئی گیند ہے اسے امریکا کے کورٹ میں ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔

اگر بھارت امریکا کی گود میں بیٹھ سکتا ہے اور ہمیں وہ اپنی آنکھ کا کانٹا سمجھے تو قصور کس کا؟ ٹرمپ تو پہلے ہی الزامات کے بوجھ تلے اس طرح دب چکا ہے جس طرح ہماری اپوزیشن جماعتوں نے پانامہ لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو دستاویزات کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔ خطے میں پاکستان کی کلیدی اہمیت کا جادو ٹرمپ کے سر چڑھ کر اسی وقت بولے گا جب ہمارے جادو میں اثر بھی ہو۔ بہرحال اب آئیے ٹرمپ بابا کا پورا خط پڑھتے ہیں جو ان کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ نے ہمیں بذریعہ ڈرون بھیجا ہے۔ یہ خط نذر قارئین ہے۔

ڈیئر مسٹر شاہ!
خط لکھنے کا شکریہ۔ آپ نے میری انتخابی مہم سے پہلے جن دو صاحبان فکر و نظر، مائیکل مور اور جان مون بیوٹ کے انداز نظر اور پیش بینی کا ذکر کیا ہے میں ان کا بھی مشکور ہوں اور ان ناراض ووٹرز کا بھی جو میری جیت سے خوش نہیں اور سڑکوں پر نکل آئے ہیں، شاید انھیں بھی پاکستانی عمرانیات کا دھرنا پسند آیا ہے، میں کوشش کروں گا کہ آپ کو ان تمام امریکیوں اور دیگر دوستوں کے افکار و خیالات سے آگاہ کروں جنہوں نے مجھے نت نئے القابات سے نوازا ہے جن کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میرے ابا نے مجھ میں مضمر تعمیر کی خرابی جوانی میں ڈھونڈ لی تھی اور مجھے فوج میں بھیجنے کا ارادہ کیا مگر حالات مجھے شوبز سے کوئے ملامت یعنی دشت سیاست میں لے آئے، جہاں مجھے مصلوب کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، مگر مجھے فکر نہیں، کیونکہ ایسا پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔

تین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف عدالتی محاصرے میں ہیں، پاکستانی اپوزیشن جماعتیں پاناما لیکس کیس لڑ رہی ہیں، نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں، مگر مجھ غریب بلین ڈالر بزنس مین پر سیاسی، تاریخی، معاشی، قومی، عالمی، غرض یہ کہ ہر طرح کے الزام لگ چکے ہیں۔ لہٰذا میری کوشش ہوگی کہ آپ کی نالج کے لیے ان کا سرسری جائزہ پیش کروں، مثلاً میرے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا، لیکن جو آرا پیش کی گئیں وہ میری ذات کے حوالہ سے امریکا کے سیاسی نظام، امریکی عوام اور دنیا کی سپر پاور کی طاقت کے دیوالیہ پن کی کہانی ہے۔

مختلف الخیال مبصرین، کالم نویسوں، سیاسی مفکرین، سربراہان مملکت و حکومت، مورخین، دانشور، سٹریٹجک ماہرین اور اقتصادی جادوگروں، اینکرز اور نسوانی تحریک سے وابستہ گروپوں نے میری تصویر کے دونوں رخ دکھائے ہیں۔ کہیں میں ہیرو اور کہیں زیرو ہوں۔ کسی نے کہا کہ ٹرمپ کی آمد سفید فام تفاخر کا سائے سے نکل آنے کا اعلان ہے، ابراہم لنکن اور رونالڈ ریگن کے بعد یہ بھی دن دیکھنے تھے کہ کوئی ٹرمپ سامنے آئے گا، فرانسیسی دانشور ایلن بودیو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ 30 کی دہائی والا فاشسٹ ہے، اس کی جیت ’’فرانسیسی اصطلاح میں دلکش رات کا دہشت انگیز واقعہ ہے‘‘، بودیو کہتا ہے کہ جمہوری فسطائیت کا دور آگیا، یہ گلوبلائزڈ سرمایہ داری کی تاریخی فتح ہے، لیکن 8 نومبر امریکا سمیت موضوعی و معروضی تناظر میں اشتراکی روس اور چین جب کہ عالمی معیشت کی اجتماعی بصیرت اور سماجی قوانین کا سقوط ہے۔

ایک انداز نظر یہ سامنے لایا گیا کہ ٹرمپ جیسی باتیں کوئی مائی کا لال بھی نہیں کر سکتا، یعنی وہ کسی سیاست دان کو بھی اوئے موٹے سور کہہ سکتا ہے، کسی خاتون اینکر کو مست جوانی کہہ کر پکار سکتا ہے، ایسی واہیات وڈیوز میں نمودار ہوسکتا ہے جس کا امریکی عہدہ صدارت پر متمکن ہونا مشکل ہوجائے، اس کے باوجود اسے خفیہ قوتوں نے جتوایا کیونکہ اس کے حامی اس کی ہر ادا پر جان نثار کرنے کو تیار ہوئے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔