ٹیکسی ڈرائیور کا پاکستان

اقبال خورشید  منگل 22 نومبر 2016

ایک خستہ حال، دھول سے اٹی سڑک پر میری اس سے ملاقات ہوئی۔

کراچی کی سڑکیں عوام دشمن ہیں۔ یہ تنگ اور پرشور ہیں۔ ان پر بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ کیچڑ کھڑا ہے۔ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ جگہ جگہ اسپیڈبریکر ہیں، اور ان پر دھواں سا چھایا رہتا ہے۔ کہتے ہیں، وقت اصل دولت ہے، اور یہ سڑکیں شہریوں کا سارا وقت چاٹ لیتی ہیں۔ انھیں پاٹنے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ چند میل کا فاصلہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ اس دوران رش، دھکم پیل، آلودگی، شور، ٹریفک جام؛ آپ دفتر میں آٹھ گھنٹے کام کرکے اتنا نہیں تھکتے، جتنے ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں تھک جاتے ہیں، اور گھر پہنچ کر اپنی تھکن، چڑچڑاہٹ اور اکتاہٹ اہل خانہ پر انڈیل دیتے ہیں۔۔۔

تو ایک اکتائی ہوئی سڑک پر میری اس سے ملاقات ہوئی۔ کراچی کا قدیم علاقہ، تین ہٹی آج تنگ بے ربط سڑکوں، پرانے مکانات، دھول مٹی، ٹریفک جام اور پریشانی کا عکاس ہے۔ وہاں کوئی درخت نہیں، کہیں سبزہ نہیں، راحت کا کوئی منظر نہیں۔ اور کراچی کے بیش تر علاقے آج اسی حال میں ہیں۔ وہیں، اس پرشور علاقے کے فٹ پاتھ پر کھڑے، جب ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا، تو اس کے ڈرائیور نے، ایک سچے ٹیکسی ڈرائیور کے مانند، ٹریفک اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے سڑک کے بیچ ہی گاڑی روک دی۔ میں نے یہ سوچ کر کہ سڑک پر موجود ہر شخص اذیت کا شکار ہے، اِس اذیت میں کچھ اضافہ ہو بھی جائے، تو کیا مضائقہ، اس حرکت کو خوش دلی سے قبول کیا، اور ٹیکسی کی اگلی سیٹ پر جا بیٹھا، تاکہ سفر کی اذیت کم کرنے کے واسطے اس سے کچھ گپ شپ کرسکوں۔

وہ باریش تھا۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ۔ ایک آنکھ کا تازہ تازہ آپریشن کروایا تھا۔ سر پر ایک رومال ڈال رکھا تھا، جو کچھ عرصے قبل فیشن میں آیا، تو لڑکے بالے گلے میں ڈالے گھومنے لگے۔ یقینی طور پر وہ ساٹھ کا ہندسہ عبور کرگیا تھا۔ ہماری منزل شیرشاہ کا علاقہ تھا۔ اگر آپ کراچی کے باسی نہیں، تب بھی اس علاقے سے واقف ہوں گے کہ ادھر مشرف دور میں ایک بڑا پل گرا تھا، اور پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ اس واقعے نے ہمارے ہاں ’’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘‘ کی قلعی کھول دی۔ حادثے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ الزامات لگے، تحقیقات ہوئیں، پھر کیا ہوا؟ کسے خبر۔

تو ہم شیرشاہ کی سمت جاتے تھے، جس کی کباڑی مارکیٹ میں زرداری دور میں، جب کراچی میں پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی نامی خونیں تکون کی حکومت تھی، اور ووٹر سے زیادہ ووٹر کی لاش اہم تھی، تب اس شیرشاہ کی مشہور کباڑی مارکیٹ میں بھتے کے نام پر، لسانیت کے نام پر، سیاست کے نام پر بڑا قتل عام ہوا۔ کراچی لاشوں کا شہر ہے صاحب۔ اور اس کی سڑکیں شہریوں کی دشمن ہیں!

پہلے ہی جملے نے خبر کر دی کہ اس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اٹک سے، جو کبھی کیمبل پور کہلاتا تھا، ادھر سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ کبھی وہاں اکبر نے ایک قلعہ تعمیر کیا تھا۔ ’’مگر ہم یہیں بڑا ہوا ہے۔‘‘ اس نے وضاحت کرنا ضروری جانی۔ ’’سولہ سال کی عمر سے گاڑی چلا رہا ہے۔ پہلے ٹرک چلاتا تھا۔‘‘

جب ہم نے ٹیکسی کی عمر پوچھی، تو ہنسا۔ ’’اس کی عمر تم سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سن 72ء کا ہے۔‘‘

ہم بہت سے گڑھے عبور کر چکے تھے۔ شیرشاہ کا پل قریب تھا۔ حادثے کا تذکرہ نکل آیا۔ کرپشن پر بات ہوئی۔ اس نے سرکاری مشینری کو، بیوروکریسی کو، پاکستان کے مسائل کی جڑ ٹھہرایا تھا۔ ’’یہاں ہر شخص کہتا ہے، ہم ٹھیک ہے، ہم ایمان دار ہے۔ اگر سب ایمان دار ہیں، تو 70 سال میں پاکستان نے ترقی کیوں نہیں کی؟‘‘

گفتگو نے تب یکدم اہمیت اختیار کرلی، جب اس بزرگ نے، جو ہمیں بڑی اپنائیت سے ’’تم کو نہیں پتا، تم ابھی بچہ ہے!‘‘ کہہ چکا تھا، یہ شکوہ کیا کہ ہمارے ہاں عوام میں شعور کی کمی ہے۔۔۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا تھا، کیونکہ یہ میرا کرب تھا، یہ میرے الفاظ تھے، میری کہانی تھی۔ اور جب تاسف سے سر ہلا تے ہوئے شعور کی کمی کو ہم نے ناخواندگی سے جوڑا، تو اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔ کچرا کنڈی سے اٹھتا دھواں گاڑی میں داخل ہورہا تھا۔

’’تعلیم تو ٹھیک ہے، مگر اولاد کی تربیت بھی تو کرو ناں۔ ماں باپ کو تو اب فرصت نہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘ وہ سچ کہہ رہا تھا۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے یہ شہر پرسکون تھا۔ کشادہ تھا۔ یہاں کے باسیوں میں تہذیب تھی۔ صبر تھا۔ امن تھا۔ اب تو بس یہ سوال ہے: اِس دشت میں ایک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی!

’’ہمارے ہاں غربت تو ہے، مگر وہ مسئلہ نہیں۔‘‘ وہ بولنے کے موڈ میں تھا۔ ’’ادھر غریب کے بچے کے پاس موقع نہیں ہے۔ وزیراعظم کا بچہ تو باہر چلا جائے گا، میرا بچہ کہاں جائے؟‘‘

گاڑی کا ٹائر گڑھے میں گیا تھا۔ مجھے شک گزرا، وہ حکمران خاندان کی بات کر رہا ہے۔ شاید پانامہ لیکس اور عدالت میں چلنے والے کیس کی اسے خبر، اور جب اس نے کہا: ’’لیڈر لوگ اپنے فائدے کے لیے عوام کو سڑکوں پر خوار کراتے ہیں‘‘ تو یقین ہوگیا کہ اس کا اشارہ عمران خان کی سمت ہے، مگر جب پوچھا: بابا جی آپ اخبار پڑھتے ہیں؟ تو اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’بس کبھی کبھی، خواہ مخواہ ٹینشن ہوتی ہے۔‘‘

منزل قریب تھی، اور ایک سوال مجھ میں سانس لیتا تھا، جو میں ہر اس شخص سے، جو مسکراتا ہے، ہنستا ہے، قہقہہ لگاتا ہے، ضرور پوچھتا ہوں۔ سوال کہ وہ دہشت گردی کے بارے میں کیا سوچتا ہے، انتہاپسندی کے بارے میں اس کی کیا رائے؟ تو میں نے اس شخص سے، جو جلد دوسری آنکھ کا آپریشن کروانے والا تھا، یہ سوال کر ڈالا۔

’’اگر کوئی دہشت گرد ہے، تو اسے پکڑو ناں۔ یہ پولیس تو ہمیں تنگ کرتا ہے۔ انھیں پتا ہے کون دہشت گرد ہے، کہاں سے آتا ہے، کہاں جاتا ہے۔ مگر اسے پکڑتا نہیں۔‘‘ اس نے سادگی سے، جو اس کے مزاج کا حصہ تھی، وہ بات کہہ دی، جسے بیان کرنے کے لیے تجزیہ کار محفل سجاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد بولا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کا رزق دوسرے انسان سے جوڑا ہے۔ دوسرے انسان سے نفرت کرو گے، تو پاکستان کیسے ترقی کرے گا۔ ہمارا باپ بولتا تھا، انسان سے محبت کرو۔‘‘

میں منزل پر پہنچ چکا تھا، اترنے کو تھا، اور مسرور تھا کہ آج ایک عام پاکستانی نے، سڑک پر زندگی گزارنے والے آدمی نے، ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا تجربہ اور مشاہدہ مجھ سے بانٹا۔ اپنے سادہ، مگر کھرے، ستھرے خیالات سے آگاہ کیا۔ اور یوں ان تنگ، پرشور، دھول سے اٹی سڑکوں کی اذیت سے میرا دھیان ہٹ گیا۔ کچرا کنڈیاں اور ٹریفک جام زیادہ پریشان نہ کرسکے۔ تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ گاڑی موڑتے ہوئے وہ مسکرایا، اور اپنی دانائی کی زنبیل سے آخری موتی نکال کر مجھے سونپا۔ ’’تم بہت سوال کرتا ہے۔ زیادہ سوچا مت کر۔ ابھی تم بچہ ہے۔‘‘

وہ ٹوٹی پھوٹی، تنگ، سیاہ سڑک کی سمت جارہا تھا کہ وہیں اس کا رزق تھا، لوگوں سے جڑنے میں، ان سے محبت کرنے میں۔ وہ سڑک کی سمت جارہا تھا، جہاں کوئی درخت نہیں تھا، سبزہ نہیں تھا، راحت کا کوئی منظر نہیں تھا۔ یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کا پاکستان تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔