ہزار سال کی مہلت

زاہدہ حنا  منگل 22 نومبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ایک نہایت ذہین اور اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے بے قرار نوجوان جس کی عمر صرف 21 برس ہو، وہ کیمبرج سے اعلیٰ ڈگری لے کر آیا ہو اور اپنے شعبے میں آسمان کی انتہاؤں تک پرواز کے منصوبے بنا رہا ہو۔

وہ دوستوں اور استادوں کو نئے سال کی رات مدعو کرتا ہے اور سب سے مبارکبادیں وصول کررہا ہے، کیونکہ کیمبرج میں اس نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اچانک اسے اور اس کے برابر میں بیٹھے ہوئے دوستوں کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بڑی گڑبڑ ہوگئی ہے۔

گلاس میں شراب انڈیلتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور اسے ٹھیک سے نظر نہیں آرہا۔ اس سے پہلے جب وہ کیمبرج میں تھا تب بھی اسے احساس ہوتا تھا کہ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ ہے۔ قریبی دوست اس کی اس کیفیت کو دوسروں سے چھپاتے ہیں، لیکن وہ سراسیمہ ہوجاتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ ایک ناقابلِ علاج مہلک اعصابی بیماری کی شروعات ہے۔

یہاں سے اس شخص کی ناقابلِ یقین زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں اس کے قریبی دوستوں کا خیال تھا کہ وہ ایک ناکام انسان کی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ ڈاکٹروں نے اسے زندہ رہنے کے لیے صرف 2 برس دیے تھے۔ ایسے میں وہ تقدیر سے لڑنے کا تہیہ کرتا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسی شام اس کی ملاقات جین سے ہوئی جو اس کی جیون ساتھی بننے والی تھی۔

یہ نوجوان جس کا نام اسٹیفن ہاکنگ تھا۔ وہ قلم اٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا، یہ اعصابی بیماری ناقابل علاج تھی، یہ اس کی سماعت اور قوت گویائی کو رفتہ رفتہ کھارہی تھی۔ وہ لکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ بیساکھی، چھڑی اور دیوار کے سہارے چلتا اور جب گفتگو کرتا تو اس کے جملے ناقابلِ فہم ہوتے۔ ہاکنگ جانتا تھا کہ وہ وقت سے لڑرہا ہے۔

اعصابی بیماری نے پوری شدت سے اس کے بدن پر حملہ کیا تھا لیکن اس کا ذہن ابھی تک پوری طرح فعال تھا اور وہ ذہنی طور پر طبعیات کی مشکل گتھیاں سلجھانے اور نئے فارمولیشن پر قادر تھا۔ ان ہی عذابوں سے گزرتے ہوئے دو برس کے اندر ہاکنگ نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرلی اور پھر دنیا نے جس طرح آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کی شہرت سنی تھی۔ ان ہی دنوں ’’بگ بینگ‘‘ کی تھیوری سامنے آئی۔

1976 میں یہ نظریہ اتنا مستحکم ہوچکا تھا کہ ایک امریکی ماہر طبیعات نے وہ کتاب لکھ دی جس کا نام ’پہلے تین منٹ‘ تھا۔ یہ وہ اولین تین منٹ تھے جن میں ہماری کائنات نے جنم لیا۔ ان ہی دنوں سائنس کے افق پر اسٹیفن ہاکنگ نمودار ہوا جو ’بلیک ہول‘ کی طلسم ہوشربا ہمیں سنا رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ ان کا حجم اور ان کی مقناطیسیت اتنی زیادہ ہے کہ وہ پاس سے گزرنے والی کہکشاؤں کو بھی نگل لیتے ہیں۔

ہاکنگ کی زندگی ناقابل یقین واقعات اور معاملات سے عبارت ہے۔ وہ کئی آپریشنوں سے گزرا۔ اس کے دوستوں نے اس کے لیے جو کچھ کیا وہ بھی ناقابل یقین کے زمرے میں آتا ہے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک خصوصی وہیل چیئر ڈیزائن کی اور اس سے بھی بڑھ کر کمپیوٹر کے ذریعے اس کی آواز کو زندہ کرنے کا معاملہ تھا۔

اس ایجاد نے اس کا تحقیقی کام بہت سہل کردیا اور وہ دوسرے سائنس دانوں سے گفتگو اور بحث مباحثے میں جٹ گیا۔ اس کی کتاب ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ جسے امریکا اور برطانیہ میں ناشروں نے ڈرتے ڈرتے شایع کیا تھا، ان کے تمام اندازے غلط نکلے اور وہ کتاب جس کی 40 ہزار جلدیں شایع ہوئی تھیں، وہ اشاعت کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے لاکھوں تک جا پہنچی۔ اس کے فرنچ، روسی، کوریائی، سپنیش اور اطالوی میں ترجمے ہوئے۔

اردو بھی خوش نصیب ہے کہ دو مختلف افراد نے اس کو ترجمہ کیا اور اس شعبے سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ امریکا میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دانشور نے کہا کہ جن لوگوں کو اس بارے میں تشویش تھی کہ یہ کتاب فروخت بھی ہوسکے گی یا نہیں، انھیں یہ بات جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ صرف امریکا میں اس کی 6 لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

’بلیک ہول‘ کے نظریے نے جہاں ہاکنگ کو بہت شہرت دی، وہیں اس پر بہت سے اعتراض ہوئے اور اب اس کا ایک اور دھماکا خیز بیان سامنے آیا ہے۔ یہ تازہ ترین بیان اس نے 16 نومبر کو دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم نے دنیا کی بے پناہ آبادی اور زمین کے وسائل کو بیدردی سے استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر لیے ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ دنیا سے انسانی نسل ختم ہونے میں بہ مشکل ہزار برس رہ گئے ہیں۔ ہمیں انسانی نسل کو بچانے کے لیے خلاء میں سفر جاری رکھنا پڑے گا۔ نسل انسانی کا مستقبل صرف اسی بات سے محفوظ ہے، اگر ہم انسانوں کو اپنے نظام شمسی کے مختلف سیاروں میں پہنچائیں اور وہاں ان کی رہائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔

یہ بات چند دنوں پہلے اس نے کیمبرج یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران کہی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ انسان کے لیے مصنوعی ذہانت یا تو ایک معجزہ ثابت ہوگی یا اس کی تباہی کا سبب بن جائے گی۔ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی، دنیا بھر میں اینٹی بایوٹک کی مزاحمت اور ایک دوسرے سے جنگ میں مبتلا ایٹمی طاقتیں نہیں جانتیں کہ وہ ان مسائل سے کس طرح نبرد آزما ہوں۔

گذشتہ برس ہاکنگ، نوم چومسکی کے ساتھ 20 ہزار محققوں اور سائنس دانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ایسی کسی بھی تحقیق پر مکمل پابندی لگادی جائے جو مہلک ہتھیاروں کو تیار کرنے کے علاوہ انھیں کسی انسانی مداخلت کے بغیر نشانے پر لگا سکیں۔ وہ اور دوسرے کئی دانشور یہ بھی کہتے ہیں کہ آج ہمارے بنائے ہوئے روبوٹ ہمارے تابعدار ہیں، لیکن اس وقت کیا ہوگا جب ان کے پروگرام میں سے بعض بندشیں ہٹالی جائیں گی۔ہم نے اپنے بنائے ہوئے روبوٹس کو ہمیشہ بہترین بلکہ انسان سے کہیں زیادہ بہتر بنانا چاہا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس وقت کیا ہوگا جب روبوٹ ہمیں اپنی تابعداری پر مجبور کردیں گے۔

ہاکنگ کا ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ ہمارے اردگرد کے سیاروں میں کوئی مخلوق موجود ہے۔ وہ ہم سے پوچھتا ہے کہ اگر یہ مخلوق کل ہم پر حملہ آور ہوتی ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا نہیں دے گی، جس طرح ہم بیکٹیریا کا ستھراؤ کردیتے ہیں۔

ہاکنگ کی اگر آپ تصویر دیکھیں تو شاید آپ کو اس پر ترس آئے۔ ایک شخص جو مٹھی بھر ہڈیوں کا مجموعہ ہے، جس کے موٹے کوٹ اس کے نحیف جسم کو چھپاتے ہیں، جو اپنی آنکھوں کی جنبش سے لوگوں پر اپنا مافی الضمیر واضح کرتا ہے، جس کی آواز انسانی نہیں اور جو ڈھنگ سے سن نہیں سکتا لیکن اس وقت وہ سائنس کی دنیا کا سلیبریٹی ہے۔ اس کی وہیل چیئر بجلی سے چلتی ہے اور اس کا ذہن روشنی کی رفتار سے کام کرتا ہے۔

اپنی تمام معذوریوں اور مجبوریوں کے باوجود ساری دنیا میں گھومتا ہے۔ وہ انٹارکٹیکا ہو آیا ہے۔ اس نے آبدوزوں میں سفر کیا ہے۔ وہ خلا کا سفر کرنا چاہتا ہے۔ اسے جب یہ پیشکش کی گئی کہ وہ اگر خلائی سفر کرنا چاہے تو خلائی جہاز میں نشست اسے مل جائے گی، یہ سنتے ہی اس نے حامی بھرلی، وہ کہتا ہے کہ اب سے 50 برس پہلے جب مجھے میری معذوری کے بارے میں بتایا گیا اور ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کے ساتھ میں صرف 2 برس زندہ رہ سکتا ہوں، اس وقت میں نے تقدیر سے لڑنے کا تہیہ کرلیا تھا اور آج میں آپ سب کے سامنے موجود ہوں۔

میرا بدن جس طرح کمزور ہوتا گیا، میرا ذہن اسی رفتار سے ترقی کرتا گیا۔ میں آج اپنے ہاتھ استعمال نہیں کرسکتا، لکھ نہیں سکتا لیکن میں نے وہ طریقے ایجاد کیے جن کے ذریعے میں اپنے ذہن سے ساری کائنات کا سفر کرسکتا ہوں اور یہ کہ یہ کائنات کس طرح کام کرتی ہے۔

میرا مستعد ذہن میری زندگی کے لیے لازم ہے۔ میری دو تہائی زندگی اس خوف میں گزری کہ کوئی بھی لمحہ آخری لمحہ ہوگا اور اس نے مجھے ہر منٹ کو کارآمد طور سے استعمال کرنا سکھایا۔ میں بچہ تھا تو رات میں آسمان اور ستاروں کو دیکھ کر سوچتا تھا کہ یہ سب کہاں سے آئے ہیں۔ بڑا ہوا تو کائنات کے بارے میں سوچتا ہوں اور اس بارے میں کہ زندگی کا مفہوم کیا ہے اور کائنات کیوں موجود ہے؟

میں نے بہت سے سوالوں کے جواب ڈھونڈ لیے ہیں اور دوسرے سوالوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے میری وہیل چیئر کے پہیے زمین پر ہیں لیکن میں خواب دیکھتا رہوں گا۔ انسانی جستجو کی کوئی حد و انتہا نہیں۔ یہ ہے جسمانی طور پر ایک معذور اور ذہنی طور سے دیوقامت ہیرو کا قصہ۔ اس سے ہم کیا کچھ نہیں سیکھ سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔