ہمیں دوزخ سے نہ ڈراؤ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 23 نومبر 2016

اگر کوئی پاکستانی یہ کہتا ہے کہ اسے دوزخ سے نہ ڈراؤ وہ تو پہلے ہی دوزخ میں رہ رہا ہے تو آپ ہی کہیے کہ وہ کیا غلط کہتا ہے۔ بس فرق اتنا سا ہے کہ وہ سچائی کو مان رہا ہے اور کھلے عام اعتراف کر رہا ہے۔ ہم چونکہ ڈرپوک واقع ہوئے ہیں اس لیے رہ تو دوزخ میں رہے ہیں لیکن بتاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، اس کے باوجود پھر بھی اگر کوئی صاحب اس بات پر بضد ہوں کہ وہ دوزخ کے مکین نہیں ہیں تو پھر حضور اعلیٰ آپ ہی بتا دیجئے کہ کون سی ایسی اور تکلیف، اذیت، عذاب، وحشت اس دوزخ میں ہوں گے، جنھیں ہم یہاں نہیں بھگت رہے ہیں۔

کیا ہمیں دنیا بھر کی بھوکوں کا سامنا نہیں ہے، کیا دنیا بھر کی گندگیوں میں ہمارے دن رات بسر نہیں ہوتے ہیں، کیا دنیا بھر کی لوٹ مار، کرپشن، ڈاکوں، قبضوں، اسٹریٹ کرائمز کو ہم نہیں بھگت رہے ہیں، کیا ہمیں دنیا بھر کی اخلاقی برائیوں کا سامنا نہیں ہے، کیا ہمارے ملک کے انسان چند روٹیوں کی خاطر اپنے جسموں کے اعضا نہیں بیچ رہے ہیں، کیا چند روٹیوں کی خاطر انسان اجتماعی خودکشیاں نہیں کررہے ہیں، کیا چند روپے نہ ہونے کی خاطر انسان رگڑتے، سسکتے، بلکتے، خون تھوکتے اپنی جانیں نہیں دے رہے ہیں، کیا بیس کروڑ انسان پانی، بجلی، گیس کے لیے تڑپ نہیں رہے ہیں، کیا ہمارے چاروں طرف وحشیانہ خیالات گھومتے نہیں رہتے ہیں، کیا ہمیں تمام قسم کی عدم برداشتوں کا سامنا نہیں ہے، کیا ہمیں ہر طرح کی بیماریاں لاحق نہیں ہیں؟ اب آپ ہی بتلا دیجئے کہ یہ دوزخ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟

ہمارے عذابوں میں مبتلا نہ ہونے کی آخر ایسی کون سی علامات وہ دیکھ رہے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آرہی ہے۔ کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ ہمارے ملک کے انسان اب انسان نہیں رہے، بلکہ تیزاب بن چکے ہیں۔ کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ ملک میں چاروں طرف نفرتوں اور تعصبوں کے علم لہرا رہے ہیں۔ انسان انسا ن کا دشمن بن چکا ہے۔

کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ بے موت مرنے والے کے منہ پر بھی کلمہ ہے اور اسے مارنے والا بھی کلمہ پڑھ رہا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں چاروں اطراف ایسے آئینے نہیں لگے ہوئے ہیں جن میں انسانوں کی صورتیں مسخ ہوجاتی ہیں، ایک آئینے میں ناک بہت لمبی ہوجاتی ہے، تو دوسرے میں منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے تو تیسرے میں قد چھوٹا ہو جاتا ہے۔

کیا یہ بھی غلط ہے کہ ہم سب کے سب الجھنوں کے مریض بن چکے ہیں۔ کیا ہمارا سماج منجمد نہیں ہوگیا ہے اور تمام تاریکیاں اور تمام دکھ احساسات کی شکل اختیار کرکے لوگوں پر طاری نہیں ہوگئے ہیں۔ کیا یہ بھی غلط ہے کہ رجعت پسندوں اور بنیاد پرستوں نے انسانوں کی عقل، شعور، سوچ اور فکر کو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ کیا ملک میں چاروں طرف مردہ ہوائیں نہیں چل رہی ہیں، جو ہر زندہ چیز کو مردہ کرتی جا رہی ہیں۔

یاد رکھیں تمام عذاب، تمام المیے، تمام اذیتیں، تمام تکلیفیں مل کر انسان میں عدم برداشت کو جنم دے دیتی ہیں، پھر اس سے بڑا عذاب، المیہ، تکلیف اور اذیت کوئی اور نہیں رہتی، کیونکہ عدم برداشت سے زیادہ اور کوئی چیز وحشت ناک نہیں ہوسکتی۔

نامور ماہر نفسیات نپولین ہل لکھتا ہے ’’جب انسانی ترقی کا افق شعور اور آگہی کی کرنوں سے منور ہوگا اور وقت کے ساحل کی ریت سے جہالت اور ضعیف الاعتقادی کے قدموں کے نشان مٹ جائیں گے تو انسان کے گناہوں کی کتاب کے آخری باب میں یہ لکھ دیا جائے گا کہ سب بڑا گناہ جو انسان سے سر زد ہوتا آیا ہے، وہ عدم برداشت ہے۔ عدم برداشت کے تلخ ترین مظاہر مذہبی، نسلی اور معاشی تعصبات اور تفریق سے جنم لیتے ہیں۔

خدایا! ہم تیرے فانی بندے کب تک اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ ہمارے عقائد اور نسل سے تعلق نہ رکھنے والے لوگ زندہ رہنے کے حقدار نہیں ہیں اور ہر وقت انھیں نیست و نابود کردینے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے۔ ہم اس دنیا میں تھوڑا عرصہ جینے کے لیے بھیجے گئے ہیں، ہمارا یہاں قیام ایک شمع کی مانند ہے جو جلائی جاتی ہے، تھوڑا عرصہ روشن رہتی ہے اور پھر ٹمٹا کر بجھ جاتی ہے۔ ہم یہاں ایسی زندگی کیوں نہیں گزارتے کہ جیسے ایک قافلے کے لوگ کسی جگہ مختصر قیام کے دوران گزارتے ہیں، تاکہ جب قافلے کی روانگی کی منادی جسے موت کہنا چاہیے، ہو تو ہم اپنے اپنے خیمے اکھاڑ کر خاموشی سے نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہونے کو ہر وقت تیار ہوں اور ہم بلا خو ف و خطر روانہ ہوسکیں۔

مجھے امید ہے کہ جب میں اگلی دنیا میں پہنچوں گا تو وہاں مجھے کوئی یہودی، غیر یہودی، کیتھولک، پروٹسٹنٹ، جرمن، انگریز یا عیسائی میں تفریق کرنے والا نہیں ملے گا۔ سب ایک دوسرے کے بھائی، بہن ہوں گے، رنگ، نسل اور عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہ کریں گے اور چونکہ میں نے ہمیشہ عدم برداشت سے دامن بچا کر رکھا ہے، میں اس لافانی جہاں میں سکھ اور چین سے رہوں گا۔‘‘

انسانی تاریخ میں جتنا نقصان انسان اور انسانیت کو عدم برداشت نے پہنچایا ہے اتنا نقصان تمام جنگوں، لڑائیوں، وباؤں اور بیماریوں نے نہیں پہنچایا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی مکمل نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ ہم سب نامکمل اور ادھورے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو ایک دوسرے کو نامکمل ہی قبول کرنا پڑتا ہے اور ہم سب ایک دوسرے سے مکمل ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اسی ساری کوشش کا نام زندگی ہے، لیکن ہم پھر بھی آخری وقت تک مکمل نہیں ہوپاتے ہیں اور نامکمل اور ادھورے ہی لوٹ جاتے ہیں۔

عدم برداشت اس لیے سب سے زیادہ وحشت ناک اور دہشت ناک بیماری ہے، اس بیماری میں مبتلا انسان اپنے آپ کو مکمل اور پورا سمجھنے کی عبرتناک غلطی کر بیٹھتا ہے اور یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اس کے علاوہ سب نامکمل ہیں لیکن وہ مکمل ہے۔ وہ تمام خامیوں، برائیوں سے مبرا ہے، پاک ہے۔ باقی سب ناپاک ہیں۔

یہ بیماری صرف نظریوں اور عقیدوں پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی تباہیاں اور بربادیاں تمام رشتوں، ناتوں اور تعلقات پر بھی ہوتی ہیں اور زیادہ ہولناک تباہیاں اور بربادیاں اس وقت اور پھیلتی ہیں جب اس بیماری میں مبتلا شخص کو کوئی اختیار مل جاتا ہے تو پھر وہ پورے سماج کو کھنڈرات میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر ہر جگہ سے خاک اڑتی پھرتی رہتی ہے اور اس کے ملبے میں دبے زخمی انسان تڑپتے رہتے ہیں، پھر وہ سماج دوزخ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس میں رہنے والے دوزخی بن جاتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی پاکستانی یہ کہتا ہے کہ اسے دوزخ سے نہ ڈراؤ وہ تو پہلے ہی سے دوزخ میں رہ رہا ہے تو آپ ہی بتلائیے وہ کیا غلط کہہ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔