فلم ہو یا ٹی وی ڈرامہ انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں، عائشہ خان

کلچرل رپورٹر  بدھ 23 نومبر 2016
فلم بینوں کے مثبت رسپانس نے انڈسٹری کو نئی زندگی دی، فلموں کے ذریعے ثقافت کوبھی پروموٹ کیا جانا چاہیے، انٹرویو۔ فوٹو: فائل

فلم بینوں کے مثبت رسپانس نے انڈسٹری کو نئی زندگی دی، فلموں کے ذریعے ثقافت کوبھی پروموٹ کیا جانا چاہیے، انٹرویو۔ فوٹو: فائل

لاہور: نئے فلم میکرز نے بالی ووڈ کے مقابلے میں اچھی فلمیںبنا کر ثابت کردیا کہ انھیں اگر وسائل دیے جائیں تو مایوس نہیں کریں گے، فلم ہو یاٹی وی ڈرامہ انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں۔ فلم بینوں کے مثبت رسپانس نے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی زندگی دی ہے۔

ان خیالات کا اظہار معروف ماڈل واداکارہ عائشہ خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلموں کے ذریعے ثقافت کو بھی پروموٹ کیا جانا چاہیے، نئے ٹیلنٹ نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم مقبول اور فاسٹ میڈیم ہے، وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی  فلم میں سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک سنہری دور تھا ہمارے پاس پڑھے لکھے اور باصلاحیت ڈائریکٹر، تکنیکار، رائٹر، نغمہ نگار، فنکار، موسیقار اور گلوکار تھے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود  یادگار فلمیں تخلیق کیں کہ جن کا آج بھی طوطی بولتا ہے۔دوسروں کی طرح ہم نے فلم میکنگ کے بدلتے رحجانات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہ کرسکے ، جس کا خمیازہ  بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

عائشہ خان نے کہا کہ  موجودہ حالات میں فلم ایک پراڈکٹ کی طرح ہے، جس کے اچھے بناؤسنگھارکے ساتھ اس کی کامیاب پروموشن بھی ضروری ہے۔ پاکستانی فلموں کی کامیابی کا کریڈٹ فلم بینوں کو بھی جاتا ہے کیونکہ اگریہ اپنی فلموں کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید فلم انڈسٹری کی بحالی ایک خواب ہی رہتی۔ ہمارے فلم میکر فلم اور سینما انڈسٹری کو بین الاقوامی مارکیٹ پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔اس کے لیے انھیں پاکستانی عوام کی سپورٹ کی مزید ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ کہ میرے نزدیک تعداد سے زیادہ معیار اہمیت رکھتا ہے۔عائشہ خان نے مزید کہا کہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا ہے، اسی لیے تقریبات میں بھی کم ہی جاتی ہوں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔