دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

مقتدا منصور  جمعرات 24 نومبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ صرف ہم ہی نہیں، بلکہ ترقی یافتہ دنیا بھی فکری پسماندگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ معروف سائنسدان اور سماجی دانشور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ امریکا جہاں دنیا کی بہترین جامعات ہیں، سائنسی اور معاشی ترقی اپنے عروج پر ہے اور تحمل، برداشت اور قبولیت کی ایک درخشاں تاریخ رہی ہے، وہاں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص اپنی انتخابی مہم محض اس بنیاد پر چلاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کا امریکا میں راستہ روک دے گا جب کہ پہلے سے موجود مسلمانوں کی رجسٹریشن کرائے گا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ ان نعروں کی بنیاد پر کامیابی بھی حاصل کرلیتا ہے۔ گویا مسلمانوں کے شہری حقوق کو پابند یا محدود کرنا اب امریکیوں کی اولین ترجیح ہوچکی ہے۔

اس سلسلے میں دو انتہائی اہم ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔ پہلا ردعمل ویٹی کن سے پوپ نے جاری کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود امریکا کی سرزمین پر مہاجر ہے، اس کا مہاجرین کے بارے میں نقطہ نظر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

دوسرا بیان یہودی تنظیم کے سربراہ جوناتھن بینٹ کاہے۔ جو کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کرایا گیا تو ان کی یہودی تنظیم بھی خود کو مسلمانوں کے طور پر رجسٹر کرائے گی۔ یہ بیانات بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے دور میں روشنی کی کرن ہیں۔ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ مغرب (یورپ و امریکا) جو گذشتہ دو صدیوں سے جمہوریت ، ہمہ دینیت اور آزادیِ اظہار کی مثال رہا ہے، رفتہ رفتہ ان ارفع و اعلیٰ تصورات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ گذشتہ چار دہائیوں کے دوران مسلمانوں کا منفی تشخص دنیا کے سامنے لانے کی مہم چلائی گئی ہے ۔ کیونکہ دنیا میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعہ میں کسی نہ کسی شکل میں مسلمان ہی نظر آتا ہے۔ مگر اس پہلو کو دانستہ نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس راہ پر خود سرمایہ دار دنیا نے لگایا ہے جس نے مسلمانوں کی کم علمی، کوتاہ بینی اور جذباتیت کو نہایت چابکدستی کے ساتھ کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کیا۔

جنگجویانہ عسکری تنظیموں کی سرپرستی اور مالی اعانت کرکے مسلمانوں کے تصور جہاد کو اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ لیکن جیسے ہی سرد جنگ اپنے اختتام کو پہنچی، ان منصوبہ سازوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئیں۔ وہ عسکری تنظیمیں جو سرد جنگ کے زمانے میں مغرب کے منصوبہ سازوں کی آنکھ کا تارا ہوا کرتی تھیں، دہشت گرد قرار پائیں۔

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ۔اول ،سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب سوویت یونین کی حلیف جماعتوں کا اتحاد وارسا معاہدہ(Warsaw Pact) ختم ہوگیا تو اصولی طور پر نیٹو(NATO) کو بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس کا مقصد کمیونزم کا عالمی سطح پر راستہ روکنا تھا۔ مگر اس کا کئی ارب ڈالر کا سالانہ بجٹ اس کے جاری رہنے کا سبب بنا۔

دوئم، اس مقصد کے لیے ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی جو پروفیسر سیموئل ہنٹنگٹن نے اپنی تصنیف’’ تہذیبوں کا تصادم‘‘{The clash of civilizations کے ذریعہ پوری کر دی۔ انھوں نے دنیا کے لیے ایک نیا دشمن تخلیق کردیا۔ یہ نیا دشمن مسلمان ہیں جو پروفیسر ہنٹنگٹن کے مطابق صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی تہذیب کے دشمن ہیں اور اسے ختم کردینے کے درپے ہیں۔ یوں نیٹو کے تسلسل کو جواز مل گیا۔

حالانکہ یہ ایک غلط تصور ہے۔ اگر تاریخ کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمان گذشتہ دو صدیوں سے بالعموم اور پہلی عالمی جنگ کے بعد سے بالخصوص مغرب کے منصوبہ سازوں کی جانب سے کیے جانے والے فکری، سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال اور چیرہ دستیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ترکی کا اندورنی معاملہ تھا، لیکن جس انداز میں مشرق وسطیٰ میں اس کے خلاف بغاوتیں کرائی گئیں اور باغی عناصر کی سرپرستی کی گئی، اس نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یورپ کے بارے میںان گنت سوالات پیدا کیے۔ پھرمشرق وسطیٰ کی غیر فطری تقسیم اور اسرائیل کا قیام ، وہ اقدامات تھے، جو مغرب کے بارے میں منفی جذبات ابھارنے کا سبب بنے۔ لیکن مغرب نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا رخ انتہائی ذہانت اور چابکدستی کے ساتھ کمیونزم کی طرف موڑ دیا۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کے منصوبہ ساز جو پوری دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظاموں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہتے ہیں، اپنے اقدامات کا بھی ناقدانہ جائزہ لیں  تاکہ انھیں یہ معلوم ہوسکے کہ دہشت گردی کی شکل میں آج جو فصل کاٹی جارہی ہے، وہ خود ان کی اپنی بوئی ہوئی ہے۔ انھیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ بحران کی کڑیاں 1980 کی دہائی میں کیے گئے فیصلوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ جب سوویت یونین کوگرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انتہائی سفاکانہ فیصلے کیے گئے۔

کچھ خلیجی ممالک کی مالی اعانت سے دنیا بھر سے جنگجو جتھے پاکستان بھیجے گئے، جہاں ان کی تربیت کا بندوبست کرکے انھیں افغانستان بھیجا جاتا تھا تاکہ جنگ میں جھونکا جا سکے۔ ان کی ہر سنگین سے سنگین غلطی اور لغزش سے صرف نظر کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی جنیوا معاہدے پر دستخط ہوئے، امریکا انھیں بے یار و مددگار چھوڑ کر اس خطے سے بے نیاز ہوگیا۔

ایک سفاکانہ اقدام یہ بھی کیا گیا کہ پاکستان کی دفاعی امداد پر پریسلر ترمیم کے ذریعہ مختلف شرائط عائد کردی گئیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ پاکستان کو دفاعی امداد جاری کرنے کے لیے امریکی صدر پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی عدم موجودگی کے بارے میںNoC جاری کریں گے۔ جب تک روسی افواج افغانستان میں موجود رہیں، امریکی صدر یہnos جاری کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی آخری روسی فوجی وہاں سے نکلا، امریکی صدر نے NoC جاری کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

یہ صورت حال 2001میں 9/11کے سانحہ تک جاری رہی۔9/11 کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکی منصوبہ سازوں کا منظور نظر ہوگیا۔ مگر اس بار پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے، جنھیں اس  نے امریکا کی آشیر باد اور خلیجی ممالک کی مالی امداد سے تیار کیا تھا۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی منصوبہ ساز ناقص منصوبہ بندی کے باعث ایک کے بعد دوسرے جال میں پھنستے چلے چلے جاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب کسی ریاست کی مقتدرہ کے سامنے واضح اہداف نہ ہوں اور اس کے منصوبہ ساز ایڈہاک بنیادوں پر پالیسی سازی کے عادی ہوچکے ہوں، تو اس کا حال پاکستان جیسا ہوتا ہے۔ پاکستان پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ ’’کھایا پیاکچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔ یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر الگ بحث کی ضرورت ہے چونکہ بات امریکا کی ہو رہی ہے، اس لیے گفتگو کو اس کی پالیسیوں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔

امریکا نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جو پے در پے احمقانہ اقدامات کیے، وہ خود اس کی معیشت، عالمی سیاست میں کردار اور اندرونی خلفشار کا باعث بنے ہیں۔ 1980 کے عشرے میں ایران کے ساتھ شروع ہونے والی مخاصمت۔1990میں عراق پر حملہ اور مسلمانوں کو کمیونزم کی جگہ عالمی امن کا دشمن قرار دینا، وہ اقدامات تھے  جنہوں نے نفرتوں کی ایک نئی فصل بوئی۔ پھر9/11کو بنیاد بناکر پہلے افغانستان پر حملہ۔ اس کے بعد2003میں انسان کش ہتھیاروں (Weapons of mass destruction) کو بہانہ بناکر عراق پر کیے جانے والے حملے نے نفرتوں کی خلیج کو مزید گہرا کیا۔

افغانستان 1980سے لہولہان ہے جب کہ عراق جو مشرقی وسطیٰ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوا کرتا تھا، بدترین تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا۔ معاملات یہیں پر نہیں رکے، بلکہ اس دہائی کے آغاز میں مشرق وسطیٰ کے چند ممالک میں عوامی بے چینی کو ’’عرب بہار‘‘ کا نام دے کر اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ انھیں سیاسی،سماجی اور معاشی عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ لیبیا اور شام اس حکمت عملی کی بدترین مثال ہیں۔

آج یمن، شام، عراق، لیبیا سمیت کون سا ایسا ملک ہے، جہاں سیاسی استحکام ہو۔ شام کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے، جب کہ ایک کروڑ شہری دربدر خاک بسر ہوچکے ہیں۔ اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ داعش جیسی متشدد تنظیموں کی تشکیل اور ان کی پس پردہ مالی اعانت میں امریکی منصوبہ سازوں کا ہاتھ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بدامنی کا مقصد اسرائیل کے وجود کو قائم رکھنے اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔

اس لیے ڈونلڈ جان ٹرمپ صاحب ، پہلے تو آپ اپنے خلاف امریکا کے طول وعرض میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر توجہ دیجیے۔ پھر قصر ِابیض (وائٹ ہاؤس )کے تہہ خانے، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی خفیہ الماریوں میں موجود فائلوں پر نظر ڈال لیجیے گا۔آپ کو اپنے پیش روؤں کی ان عیارانہ حکمت عملیوں کی داستانیں مل جائیں گے۔اس لیے عرض ہے کہ دوسروں پہ الزام دھرنے اور ان پر بے جا قدغن عائد کرنے سے پہلے’’ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔