خوش آمدیوں اور چاپلوسوں کے نرغے میں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 26 نومبر 2016

لوگ آلوؤں کی مانند ہوتے ہیں۔ جب آلو زمین سے نکال لیے جاتے ہیں تو ان کو پھیلا دیا جاتا ہے، منڈی میں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانے کے لیے ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، بڑے بڑے علیحدہ، درمیانے درجے کے علیحدہ اور چھوٹے چھوٹے علیحدہ۔ اس تقسیم کے بعد ان کو بوریوں میں بند کرکے ٹرکوں پر لادا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جسے سب کسان استعمال کرتے ہیں، لیکن ایک شخص ایسا بھی ہے جو یہ طریقہ استعمال نہیں کرتا۔ اس کسان نے کبھی آلوؤں کو پھیلایا ہے، نہ تقسیم کیا ہے، لیکن وہ منڈی میں دوسروں سے اچھی قیمت بھی وصول کرتا ہے۔

اس کی کامیابی پر حیران ایک کسان ہمسائے نے اس سے پوچھا، تمہارا راز کیا ہے؟ تم آلوؤں پر محنت نہیں کرتے اور قیمت بھی زیادہ پاتے ہو؟ میرا طریقہ بڑا سادہ ہے۔ کسان نے جواب دیا، میں آلوؤں کو ٹرک میں بھرتا ہوں اور شہر کو جانے والا غیر ہموار راستہ اختیار کرتا ہوں، آٹھ میل کے دھچکوں والے سفر سے چھوٹے آلو نیچے چلے جاتے ہیں، درمیانے درمیان میں رہ جاتے ہیں اور بڑے بڑے آلو اوپر آجاتے ہیں۔

یہ اصول صرف آلوؤں پر ہی صادق نہیں آتا، یہ زندگی کا بھی اصول ہے، زندگی کا قانون بھی ہے، یہی قانون ہم سب پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم سب بھی زندگی کے غیر ہموار راستوں پر چلتے ہیں، جو ہمت اور حوصلہ مند ہوتے ہیں وہ اوپر آجاتے ہیں اور جو ہمت ہار جانے والے ہوتے ہیں وہ نیچے چلے جاتے ہیں اور اپنی ہمت اور امید ہار جاتے ہیں۔

ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ ’’مشکل وقت گزر جاتا ہے، محنتی لوگ باقی رہتے ہیں‘‘۔ تم اگر آج مشکل وقت سے گزر رہے ہو، پریشان ہو، مایوس ہو تو میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ میرے ساتھ چند قدم ملا کر چلو، میں تمہیں ایسے بے شمار لوگوں سے ملاؤں گا جو مشکل وقت کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں، تم بھی ان میں سے ایک ہوسکتے ہو۔ تمہیں معلوم وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر انھوں نے اپنے مشکل وقت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، اس راستے کا نام ’’امید‘‘ ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس نے کسی مسافر کو کبھی مایوس نہیں کیا، کبھی کسی کو راستے میں اکیلا نہیں چھوڑا، یہ کبھی کسی کو چھوڑ کر نہیں بھاگا۔ یہ راستہ سیدھا خوشی، صحت، کامیابی، ترقی اور خوشحالی کی سمت بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

اس راستے پر چل کر ہمیشہ بڑے آلو اوپر آجاتے ہیں۔ اس راستے نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ ایک بار ایک باپ نے اپنے بیٹے سے کہا ’’بیٹے تم نے ایک مقصد متعین کرنا ہے اور اس سے کبھی پھر پیچھے نہیں ہٹنا ہے۔ جارج اس کو اچھی ذہن نشین کرلینا‘‘۔ بہت بہتر پاپا، جارج واشنگٹن نے جواب دیا۔ یہ ہی سبق سابق امریکی صدر جیفرسن کو اس کے باپ نے پڑھایا تھا، یہ ہی سبق ابراہم لنکن کے باپ نے بیٹے کو سکھایا تھا۔

یہ سبق یاد رکھنے والے سب نامور ہوئے اور اب امریکا تو امریکا ساری دنیا ان کو جانتی ہے۔ ایک باپ نے بیٹے سے پوچھا کہ ان نامور لوگوں کی کون سی قدر مشترک تھی؟ ’’مجھے نہیں، معلوم آپ ہی بتائیے‘‘۔ بیٹے نے جواب دیا۔ ’’وہ بھاگے نہیں، انھوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا‘‘ باپ نے جواب دیا اور ساتھ ہی بیٹے سے پھر پوچھا ’’کیا تمہیں آزاد میک انگل کا نام یاد ہے؟‘‘ ’’نہیں وہ کون تھا؟‘‘ ’’دیکھا تم کو یہ نام اس لیے یاد نہیں کہ یہ امید نہ رکھنے والا انسان تھا، بھاگ جانے والا‘‘۔

یہاں ایک بہت ہی سیدھا سادہ ساسوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہمیشہ چھوٹے آلو ہی کیوں اوپر آتے ہیں اور بڑے آلو کیوں نیچے چلے جاتے ہیں؟ اس کی بڑی ہی سیدھی سادی سے وجہ ہے، دراصل ہم سب خوشامد، چاپلوسی، منافقت، جھوٹ، فراڈ، دھوکا دہی، فریب و مکر کے راستے کے مسافر ہیں، ہم نے اپنے لیے پہلے ہی روز اسی راستے کا انتخاب کیا تھا، اس راستے پر چل کر ہمیشہ چھوٹے آلو ہی اوپر آتے ہیں اور بڑے آلو نیچے رہ جاتے ہیں۔

ظاہر ہے ایک شریف، نیک، اصول پسند، محنت پسند اور سیدھا سادہ سا آدمی نہ تو خوشامد پسند ہوتا ہے اور نہ ہی وہ چاپلوسی کرنا جانتا ہے، اور نہ ہی وہ شاطر اور منافق ہوتا ہے، چونکہ وہ انتہائی ناپسندیدہ مسافر ہوتا ہے، اس لیے باقی سب مسافر اسے انتہائی شک و شبہ کی نگاہوں سے گھورتے رہتے ہیں اور پھر سب خوشامدی، چاپلوس، جھوٹے اور منافق مل کر اسے پیچھے کی سمت دھکیلنا شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ پیچھے ہوتے ہوتے بالکل ہی پیچھے پھینک دیا جاتا ہے اور پھر اس کا ذکر صرف داستانوں کی حد تک رہ جاتا ہے۔

آج آپ جو ملک کے چاروں اطراف خوشامدیوں، جھوٹوں، چاپلوسوں اور منافقوں کا راج دیکھ رہے ہیں، اس کی اصل میں یہ ہی وجہ ہے۔ ایسا کریں آپ خود ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں، آپ کسی نہ کسی طرح چھپ کر ملک کے اقتدار کے تمام ایوانوں کا خود تفصیلی جائزہ لے لیں، ان میں موجود تمام کرداروں اور ان کے رویوں کا مفصل پوسٹ مارٹم کرلیں، ان کی حرکات و سکنات کا بغور معائنہ کرلیں، ان کی باتیں اپنے گنا ہگار کانوں سے خود سن لیں، تو پھر آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹے آلو کس طرح اوپر آجاتے ہیں۔

اس کے بعد آپ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کے اردگرد بیٹھے اور موجود شخصیات کی باتیں پھر اپنے گناہگار کانوں سے سن لیں اور آخر میں ملک کے تمام اداروں اور محکموں کے بڑے بڑے افسران کا بھی چھپ چھپا کر تفصیلی معائنہ کرکے بھی دیکھ لیں اور جب آپ یہ سب کچھ کرچکے ہوں گے تو آپ اپنی پوری طاقت سے جئے خوشامد، جئے منافقت، جئے چاپلوسی کے نعرے لگارہے ہوں گے اور اپنی شرافت، نیکی، سچائی، دیانت داری پر ملامت کر رہے ہوں گے اور ایک نامور عظیم خوشامدی اور چاپلوس بننے کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہوں گے تاکہ ایک روز آپ بھی کسی بڑے ایوان میں اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں یا ملک کے کسی بڑے سیاسی کردار کے مشیر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیں، تاکہ ملک کے باقی لوگ آپ کی بھی خوشامد اور چاپلوسی کرنے لگ جائیں۔

اور ساتھ ہی ساتھ آپ اپنے بچوں کو یہ نصیحت اور وصیت کرچکے ہوں گے کہ بچو! اگر تم نے پاکستان میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو پھر شرافت، نیکی، سچائی، دیانت داری کے پاس غلطی سے بھی کبھی نہ پھٹکنا اور ہمیشہ خوشامد، چاپلوسی اور منافقت کا دامن پکڑے رکھنا تاکہ ملک کے تمام طاقتور اور بااختیار شخص ہمیشہ تمہارے حامی و ناصر رہیں اور تمہاری زندگی چین و سکون و آرام اور خوشحالی میں گزرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔