ہم ایک ہیں

فرح ناز  ہفتہ 26 نومبر 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود انڈیا، پاکستان سے گاہے بگاہے چھیڑ چھاڑ میں لگا ہوا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بھارت سوچ بیٹھا ہے کہ تھوڑی جنگ کر ہی لیں، نریندر مودی بحیثیت انڈیا کے وزیراعظم کے شاید تعصبانہ حد کو پار کرنا چاہتے ہیں، گوکہ جانتے ہیں اچھی طرح سے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ہماری افواج بہترین افواج، مگر مودی کو جنگی جنون چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا ۔ نیلم وادی میں بس پر حملہ اور معصوم شہریوں پر فائرنگ۔ صبح کے واقعات پر رات گئے تک وزیراعظم پاکستان کی طرف سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا کہ پاکستانیوں کے بکھرے ہوئے جذبات کو سہارا مل سکے۔

تمام حکومتی ارکان کو ایسی چپ لگ جاتی ہے جیسے یہ کوئی معمول کی بات ہو۔ ہاں اگر عمران خان کوئی پریس کانفرنس کرلیں تو فوراً ہی پریس کانفرنس ہوتی ہے اور فوراً ہی 4، 6 حکومتی لوگوں کے بیانات آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر اس طرح کے حملے اور حکومتی ارکان کا ردعمل نہ آئے تو کیا کہیے۔ بہرحال سی پیک کا منصوبہ جیسے جیسے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے ویسے ویسے انڈیا کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ پاک افواج اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ملک میں امن، دہشت گردی کا خاتمہ جیسے مقاصد کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

ہم دعا گو ہیں کہ امن و سکون کے ساتھ دونوں ممالک اپنی بہترین صلاحیتیں اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کرسکیں۔ جنرل راحیل شریف بھی اپنا عہد پورا کرکے جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ہم تمام عوام نئے آنے والے جنرل کے منتظر ہیں۔ اپنے وقت میں جنرل راحیل شریف نے بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ نئے جنرل بھی اسی طرح عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔

سی پیک کا بہترین منصوبہ یقیناً عوام کی زندگیاں بدل سکتا ہے، بے شمار نگاہیں اس منصوبے پر لگی ہوئی ہیں۔ بھارت نے جو سب میرین بھیجی تھی اس کو بھی پاک افواج نے ناکام و نامراد واپس بھیج دیا، چاروں طرف سے دشمن کی نگاہوں میں رہنے والے اس ملک میں اتحاد و محبت کی شدید کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بس اللہ پاک اس وطن عزیز کو سنبھالے ہوئے ہے ورنہ ہم سب نے اس کا ستیا ناس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

یقیناً گوادر ایک بہترین پورٹ بن کر ابھرے گا اور ہمارے صوبہ بلوچستان کو بھی فائدہ ہوگا، چین و پاک دوستی کا عمل گرم جوشی کے ساتھ جاری ہے، ترکی کے صدر نے بھی پاکستان کا کامیاب دورہ کیا، گوکہ بہت ہی گرم جوشیوں کا موسم ہے، اس پر انڈیا کی چھیڑ خانیاں۔ جب بھی کشمیر کے مسئلے پر تیزی آتی ہے اور دنیا میں مسئلہ کشمیر ابھرتا ہے انڈیا اپنی بدمستیاں بھی تیز کردیتا ہے۔ پورے کشمیر کو لہو لہو کرنے والے انڈیا نے اگر ٹیڑھی آنکھ سے بھی ہمارے وطن عزیز کی طرف دیکھا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

اگر انڈیا یا مودی خوابوں کی جنت میں رہتے ہیں تو ان کو اب اپنی آنکھیں پوری کھولنی چاہئیں، یہ پچھلا دور نہیں، اب جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارے جوانوں کے جذبات بھی بہترین اور شاندار ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے جو بھی گلے شکوے تھے ایک دوسرے سے جو بھی بغض ہو مگر جب بات وطن عزیز تک پہنچے تو یقیناً مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی ہی بہترین نمونہ ہو سکتی ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنا شاندار ٹینیور پورا کرکے جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والے جنرل بھی بہترین صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ ملکی سیاست بھی گرم و سرد موسم کے ساتھ بس چل رہی ہے، چاہے وہ پانامہ کیس ہو یا پھر الیکشن 2018 تک سفر۔

نجومی سے لے کر وکیلوں کے خیالات اب باقاعدگی کے ساتھ سوشل میڈیا کا حصہ بنتے ہیں۔ عمران خان کی نئی انگوٹھی ہو یا عمران خان کا نیا نکاح، سب پر لوگوں کی نظر گہری رہتی ہے ۔ سوشل میڈیا ایک پاور بن چکا ہے۔ تو یقیناً اب ضرورت ہے کہ اس سوشل میڈیا پر ہی دشمنوں کی چالوں کے بھید کھولے جائیں، اور کھلتے بھی رہتے ہیں، مگر جس طرح سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ انھوں نے آدھی جنگ پاکستان سے اپنے چینلز پاکستان میں پھیلا کر جیت لی ہے۔ اسی طرح ہم نے بھی اب اپنی پوری کوشش کرنی ہے کہ ہماری اپنی پروڈکشن ہمارے لوگوں کے لیے بہتر انٹرٹینمنٹ ہو، مقابلہ بازی کی فضا ہوتی ہے تو پھر کام کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے، ہم ان چینلز کے ذریعے اپنی عوام کو بہت کچھ مثبت دے سکتے ہیں۔

انڈیا نے ہر طرف سے ہم پر کڑے وار کیے ہیں، پروگرامز کے لیے فنڈنگ سے لے کر ملکی حالات خراب کرنے کی فنڈنگ تک اور ہم میں سے ہی بہت سے لالچ کی بنا پر ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ لالچ وبا کی طرح اس لیے پھیل رہا ہے کہ بے انتہا شدید بے روزگاری نے ہمارے ملک میں اپنے پنجے جما لیے ہیں۔ بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی، شدید مہنگائی، لوگ جائیں تو جائیں کہاں صرف ایک طبقہ تمام تر زندگی کی سہولیات کو انجوائے کر رہا ہے اور دشمنوں کا آلہ کار بھی بن رہا ہے۔

این جی اوز کی فنڈنگ نے بھی کنفیوژن پھیلایا ہے، کہیں یہ مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں، کہیں انصاف کی بات کرتے ہیں اور کہیں مجرموں کو پھانسی سے بچانا چاہتے ہیں۔ جس کی فنڈنگ جس کے لیے ہے وہ کام کر رہا ہے، مگر ایک عذاب کی صورت میں ہمارے ملک میں جو انتشار پھیل رہا ہے کیا یہ لوگ ان سے ناواقف ہیں؟

ہمارے ملک کی سرحدیں، ایران، افغانستان، انڈیا سے ملتی ہیں اور ہماری افواج کی پہلی ذمے داری بھی سرحدوں کی حفاظت ہے جس کو وہ بڑی ذمے داری سے ادا بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ملک تو ہم سب کا ہے، آزادی کی نعمت تو ہم سب کی ہے، ہمارے آبا و اجداد سے لے کر ہماری اگلی نسلیں تک اسی ملک کی محبت میں گرفتار ہیں۔

کوئی بھی ناگہانی مصیبت کے وقت ہم سب کے جذبے عروج پر پائے گئے، زلزلہ ہو، سیلاب ہو، ناگہانی بارشیں ہوں، کراچی سے لے کر اسلام آباد تک کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جو امدادی کاموں میں شامل نہ ہو۔ یہ ہیں ہمارے جذبے اور ان کی شدت۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ دشمن ہمارے جذبوں کی شدت سے خوب واقف بھی ہے۔ چند ضمیر فروش چند مفاد پرست کروڑوں کے جذبات سے کھیل نہیں سکتے۔ انڈیا کا جنگی جنون اس کے اپنے لیے بہت خطرناک ثابت ہوگا، انڈیا کی کئی ریاستیں آزاد ہونا چاہتی ہیں، کشمیری عوام سالہا سال سے قربانیاں دے رہے ہیں اور اب پوری دنیا پاکستان سمیت کشمیر کا پرامن حل چاہتی ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوا پھر وہ غلامی کی زنجیریں کیوں پہنے؟

کمزور لوگ غلام بن جاتے ہیں مگر کشمیر کے لوگ بہت بہادر اور نڈر ہیں انھوں نے آج تک غلامی تسلیم نہیں کی اور پہلے دن سے آج تک آزادی کے لیے ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ہم سب پاکستانیوں کے جذبے سرحدوں پہ کھڑے جوانوں سے لے کر گھروں میں موجود خواتین تک اپنی آزادی اور حفاظت کے لیے شدید ترین ہے۔ انڈیا نے اگر زبردستی بھی ہم پر جنگ مسلط کی تو یہ خود انڈیا کے لیے بہت برا تجربہ ہوگا۔ انڈیا اپنے لوگوں کو آگ میں نہ جھونکے۔ خود بھی امن میں رہے اور اپنے پڑوسیوں کے لیے بھی امن کی فضا قائم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔