نگران حکومت…شطرنج کی بساط

اسلم خان  جمعرات 20 دسمبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

الٹی گنتی کب کی شروع ہو چکی ہے۔ 16مارچ 2013ء کو پارلیمان اور چاروں صوبائی اسمبلیاں خود بخود تحلیل ہو جائیں گی۔ اگر اس معاملے کو بھی کسی بیمار ذہن یا نفسیاتی الجھائو کا شکار قانونی شہ دماغ نے الجھانے کی کوشش کی تو معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

دل کا جانا ٹھہر گیا‘ صبح گیا یا شام گیا

لیکن جمہوریت کے دور نو میں جناب آصف زرداری ’’مرد مفاہمت‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ انھوں نے چار سال  سے زائد عرصے میں تنے ہوئے رسے پر چل کر جس طرح توازن برقرار رکھا ہے، یہ انھی کا خاصا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور سب سے بڑھ کر مولانا فضل الرحمٰن جیسے مشکل حلیفوں کی حمایت کو برقرار رکھنا جناب زرداری کی مفاہمانہ فلاسفی کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ اب ایک اور جان جوکھوں والا مرحلہ درپیش ہے۔ اداروں کی پارلیمانی مدت تو اپنے فطری انجام کو پہنچنے والی ہے، اب نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ درپیش ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا،

اک اور دریا کا سامنا تھا‘ منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اٹھارویں ترمیم کی برکات سے غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل کے لیے قائد حزب اختلاف کی منظوری اور حمایت ضروری ہے۔ ایسا ہونا ماضی میں نا ممکن تھا لیکن آج کا پاکستان بدلا ہوا منظر پیش کر رہا ہے۔ بظاہر جناب نواز شریف اور ان کے حواری صدر زرداری اور ان کی سپاہ پر گرج برس رہے ہیں لیکن یہ گرجنے والے بادلوں کی طرح ہیں جو برسا نہیں کرتے۔ درون خانہ نواز شریف‘ زرداری دوستی، پیار محبت کی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک گھریلو ملازم نے انکشاف کیا تھاکہ دونوں حکمران خاندانوں کے بچوں کے دوستانہ مراسم، ہمارے مثبت سماجی رویوں کے مظہر ہیں جو شہید بے نظیر بی بی کے دور میں مستحکم بنیادوں پر استوار ہو چکے تھے۔

مارگلہ کے دامن میں آباد وفاقی دارالحکومت یخ بستہ موسم میں ٹھٹھر رہا ہے لیکن موسموں کے اتار چڑھائو سے بے نیاز‘ اس کے سدا بہار ڈرائنگ رومز میں پاکستان کی مختصر 60 سالہ تاریخ میں پہلی بار سیاسی دماغ سر جوڑے بیٹھے شطرنج کی بساط پر ایک دوسرے کو شہ مات دینے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی عقل و دانش سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ہوئے  پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ساری قوم میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جانے والے دانشور رضا ربانی ہوں یا اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے اسحق ڈار‘ یہ سب خاموشی سے نگران حکومت کے خد و خال کی نقش گری میں مصروف ہیں۔ غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کے لیے قائد حزب اختلاف کی رضا مندی ضروری ہے۔ باخبر سیانے کہتے ہیں حکمران اور حزب اختلاف میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ تو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے نگران حکومت کی نامزدگی اور تشکیل کا نازک مرحلہ  بڑی احتیاط سے سر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس معاملے میں سیاستدانوں کے خدشات کیا ہیں‘ ان کا اصل حریف کون ہے‘ پیشہ وارانہ صلاحیتوں والی کابینہ کی افواہیں کون پھیلا رہا ہے، پارلیمان کے ’’میدان کن نادیدہ سایوں کی وجہ سے لرز رہے ہیں۔ اقتدار کے کھیل کے اصل کھلاڑی تو غیر جانبدار ہو کر ایک طرف بیٹھے ہیں، پھر سیاستدانوں کے مقابل کون ہیں کیونکہ ترمیم شدہ آئین کی روح کے مطابق نگران حکومت کے لیے قائد حزب اختلاف کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے قائدین کا ہدف مشترکہ ہے، وہ باہم یک جان اور یک آواز ہو کر اس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کار خیر میں تو انھیں سونامی فیم عمران خان اور جماعت اسلامی کے درویش صفت سید منور حسن کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل کو آئین کا حصہ بنانے کا اعزاز ہمارے پیارے دانیال عزیز کو حاصل ہوا تھا جب کہ وہ  پرویز مشرف کی ایما اور منتشر خیال‘ جنرل تنویر نقوی کی قیادت میں آئین‘ پاکستان اور انتظامی ڈھانچے کی اکھاڑ پچھاڑ کا کام شروع کرنے والے تھے تو جدید انتظامی علوم اور معاشی فلاسفی کے اسباق امریکا کی مایہ ناز درس گاہ ’’بوسٹن یونیورسٹی‘‘ سے پڑھنے والے دانیال عزیز کو ہمارے ایک دوست نے غیر جانبدار عبوری حکومت اور انتقال اقتدار کے مراحل کو آئینی تحفظ دینے کی راہ سجھائی‘ پھر کیا تھا انگریزی پر کامل عبور رکھنے والے دانیال عزیز نے چند گھنٹوں میں یہ آئینی ترمیم تیار کر کے 17 ویں ترمیم کا حصہ بنا دی۔ کمانڈو مشرف کی آئینی پناہ میں کام کرنے والی گریجویٹ اسمبلی نے بہت زیادہ غور و خوض اور غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل کی شرائط کے مضمرات پر سوچ بچار کیے بغیر 17 ویں آئینی ترمیم کو منظور کر لیا۔ جب شوکت عزیز کی مدت ملازمت ختم ہوئی اور پارلیمان اپنی مقرر مدت پوری کر کے تحلیل ہوئی تو پھر وردی والے صدر مشرف اور ان کے حواریوں کے لیے سب سے دشوار مرحلہ‘ غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل تھی۔ اس وقت آئینی اور قانونی ماہرین کے ساتھ ساتھ جناب مشاہد حسین سید کا ذہن  کام آیا اور چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کو غیر جانبدار نگران وزیراعظم بنا کر درمیانی راہ نکالی گئی جب کہ نگران کابینہ میں بہت سے ماہرین کے ساتھ ساتھ میرے عزیز بیرسٹر محمد علی سیف کی لاٹری بھی نکل آئی تھی،  وہ آج تک 90 دن کے اقتدار کے ہلارے کا خراج ادا کر رہے ہیں۔ مشرف لیگ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے مشرف کے دفاع کا فریضہ دل و جان سے ادا کر رہے ہیں جب کہ مشرف کے بہت سے  ترجمان اور قانونی مشیر انھیں خیرباد کہہ چکے ہیں۔

اس کالم نگار کو گریجویٹ اسمبلی کی تحلیل اور میاں محمد سومرو کی سربراہی میں قائم کی جانے والی نام نہاد غیر جانبدار نگران حکومت کے درمیانی وقفے میں دانیال عزیز کے خلاف ان کے اپنے ساتھی وزراء کی گوہر افشانی سن کر بڑے بڑے ٹھنڈے مزاج کے حامل دوستوں کے کان بھی سرخ ہو جاتے تھے اور اب پھر وہی نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ ایک بار پھر درپیش ہے۔ یہ جناب رضا ربانی اور ان کے ساتھیوں کا کمال ہے کہ انھوں نے 17 ویں ترمیم کی تمام اچھائیوں کو جامع اور مستند 18 ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنا دیا تھا جس کے بعد غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل کا طریق کار اور اس کی تمام تفصیلات اور جرئیات کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جس کے بعد اگر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نگران حکومت کی تشکیل اور نامزدگی پر اتفاق رائے میں ناکام ہو جائیں گے تو معاملہ 6 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے گا جس میں اپوزیشن اور حکومتی  ارکان کی تعداد برابر ہو گی۔ خدانخواستہ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی نگران حکومت کے معاملے پر متفق نہ ہو سکے تو پھر چیف الیکشن کمشنر اپنی صوابدید کے مطابق نگران انتظامیہ نامزد کر دیں گے، ان کا فیصلہ حتمی ہو گا۔

الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ 16 مارچ کو اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے بعد تحلیل ہو جائیں گی۔ جناب نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری میں تمام سیاسی اور سماجی   ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نگران حکومت کی تشکیل وہ مل جل کر کریں گے جس کا صرف رسمی اعلان باقی ہے۔ یہ امر تو طے شدہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ زیرک اور دانشمند قیادت اپنی داڑھی کسی کے ہاتھ میں نہیں دے گی۔ اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرے گی۔ 2013ء کا نیا سال ہمارے لیے بڑے بڑے سرپرائز لے کر آ رہا ہے۔ تحیّر اور اِسرار کے پردوں میں چھپے معاملات اب عیاں ہونے کو ہیں۔ عام انتخابات اور انتقال اقتدار کے مراحل طے کرنا کار دشوار ہو گا۔

حرف آخر یہ کہ خلاء کبھی نہیں رہ سکتا۔ تمام دانش ور‘ سیاست کار‘ رہبر اور راہنما ایک بات جان لیں کہ صرف اور صرف مسلح افواج پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی واحد ضامن ہیں، اگر ہماری فوج نہیں ہو گی تو کوئی اور فوج اس کی جگہ لینے آ جائے گی کیونکہ خلاء  فطرت کے منافی ہے، اس لیے بہتر ہو گا کہ اپنی فوج کے ساتھ ہی گزارا کیا جائے ورنہ امن کی آشا کے سارے رنگ بکھر جائیں گے۔ وقت کی آواز سنو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔