پولیومہم کے رضاکاراور مجاہدین اسلام

نصرت جاوید  جمعرات 20 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پولیو کے قطروں کے خلاف مہم اچانک شروع نہیں ہوئی۔2002ء کے بعد جب اس وقت کے صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کی مضبوط حکومت ہوا کرتی تھی تو مالا کنڈ ڈویژن کی وادی سوات میں مولوی صوفی محمد ابھرے ۔انھوں نے نوجوانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ افغانستان پہنچ کر غیر ملکی افواج کا مقابلہ کرنا چاہا۔وہاں تک نہ پہنچ پائے تو اپنے پیروکاروں کو پاکستان میں شریعت کے نفاذ پر مامور کردیا۔ان ہی پیروکاروں کی صفوں میں سے مولوی فضل اللہ نے اپنا پیغام پھیلانے کے  لیے ریڈیو کی اہمیت کو دریافت کرنے کے بعد پوری طرح استعمال کیا ۔پولیو کی مدافعت کرنے والے قطرے اور انھیں پلانے والے رضا کار ان کی تنقید کا شدید نشانہ بنے ۔

پاکستان پر ان دنوں جنرل  مشرف کی حکمرانی ہواکرتی تھی۔وہ خود کو Enlightened  Moderateکہا کرتے تھے ۔خود کو ایک زمانے میں کٹر بائیں بازو کا بتانے والوں میں سے بہت سارے لوگ ان کے دیوانہ وار مرید بن گئے۔ایسے لوگوں سے جب بھی ملاقات ہوتی تو بڑے جوش سے مجھے سمجھایا کرتے کہ امریکا نے ایک زمانے میں سوویت یونین کو توڑنے کے  لیے پاکستان میں ایک فوجی آمر کے ذریعے مذہبی انتہاء پسندی کو فروغ دیا تھا۔نائن الیون کے بعد اس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔اب ضرورت ’’روشن خیالی‘‘ کی آن پڑی ہے اور اسے پھیلانے کا ٹھیکہ جنرل مشرف کو دے دیا گیا ہے۔وہ لوگ جو خود کو واقعی ترقی پسند سمجھتے ہیں، انھیں مشرف کی وردی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کا پورا ساتھ دینا چاہیے ۔

مجھے خود کو ایک نظریہ ساز لکھاری سمجھنے کا خبط کبھی بھی لاحق نہیں رہا۔عام سا صحافی ہوں۔جو نظر آتا ہے لکھ ڈالتا ہوں اور نظر آنے والی چیزیں جن منزلوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں انھیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔اسی لیے اپنے ترقی پسند دوستوں کی ہدایات پر عمل نہ کرسکا۔مشرف کو ایک فوجی آمرہی سمجھتا رہا جو ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتا تھا خواہ اس کے  لیے اسے ’’روشن خیال‘‘ ہونا پڑے یا ’’رجعت پسند‘‘۔

میری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر میں مشرف کے پورے دور میں ایک بھی ایسے ’’ترقی پسند‘‘ کو دریافت نہ کرسکا جس نے اس کے ’’روشن خیال‘‘ دور کے پیدا کر دہ امکانات کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ابلاغ عامہ میں کوئی معرکتہ آلارا کارنامے سرانجام دئیے ہوں ۔ہاں اس دور میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر ہمارے ملک کے بڑے شہروں کے Farm Housesمیں فیشن شوز ضرور منعقد ہونا شروع ہوگئے تھے ۔موسیقی سے شغف رکھنے والے ایسے گروپ بھی پیدا ہوگئے جو نیویارک اور لندن کے بازاری لہجہ میں شاہ حسین اور بلھے شاہ کی چند کافیاں گانا شروع ہوگئے ۔

اسلام آباد اور لاہور کے بہت ہی خوشحال گھرانوں نے ان کی سرپرستی شروع کردی ۔میں نے اپنے تئیں شاہ حسین اور بلھے شاہ کو ایک زمانے میں بڑے شوق سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی ۔ڈاکٹر فقیر محمد کی مرتب کردہ اور مستند سمجھی جانے والی وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘ کی ایک جلد بھی خریدی۔مگر آج تک کسی ایک نشست میں دو یا تین صفحات سے زیادہ نہ پڑھ پایا اور خود کو کبھی پنجابی کلاسیکی شاعری کا سنجیدہ طالب علم نہیں سمجھا ۔مجھے پورا یقین ہے کہ میرے جن خوشحال دوستوں کے گھروں میں منعقدہ محفلوں میں بڑے اشتیاق سے جدید انداز میں بلھے شاہ وغیرہ کو گانے والوں کے کیسٹس سنائے جاتے تھے ان کا پنجابی شاعری کے بارے میں علم مجھ سے بھی زیادہ محدود تھا۔مگر میرے یہی دوست مجھے بہت جوش سے بتایا کرتے تھے کہ بلھے شاہ وغیرہ کو ڈرم اور گٹار کی سنگت میں گانے والے نوجوان موسیقار پاکستان میں’’صوفی ازم‘‘ کو فروغ دے رہے ہیں ۔جنرل ضیاء الحق کے زیرسرپستی اس ملک پر مسلط کر دہ ‘‘مذہبی انتہاء پسندی‘‘ کا اصل توڑ بلھے شاہ کو ڈرم اور گٹار کے ساتھ گانے میں پوشیدہ ہے ۔

بہرحال’’صوفی ازم‘‘ کو سنگیت کے ذریعے پھیلانے والے کئی گروپ آئے ۔مگر ہمارا معاشرہ ویسا ہی ہے جیسا افغانستان میں جہاد کی تیاریاں کرتے ہوئے ہم نے بنانے کی کوششیں کی تھی۔’’جنون‘‘ اب تبدیلی کی سونامی لانے میں  مصروف ہوگیا ہے۔سونامی والا انقلاب مگر انتخاب کے ذریعے آنا ہے اور ’’چوروں،لٹیروں اور جعلی ڈگری والوں‘‘ کی اسمبلیاں فی الوقت تو یوں نظر آرہا ہے کہ آئندہ تین سے چار مہینوں تک اپنی جگہ موجود رہیں گے۔انتظار کرنا ہوگا ۔ان کی آئینی مدت ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا ۔میں تو انتظار کے یہ مہینے ایک کونے میں بیٹھ کر گزارنے کو تیار ہوں ۔مگر ان خدشات کا کیا توڑکروں جو بڑے تواتر سے اس جانب اشارہ کررہے ہیں ۔اب انتخاب کے ذریعے ایک اور جمہوری حکومت نہیں بلکہ پتہ نہیں کیسے اور کیوں’’اہل ،ایمان دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت آئے گی ۔یہ حکومت چن چن کر بدعنوان سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرے گی۔

معیشت کے جمود کو توڑنے کے لیے غیر مقبول مگر طویل المدتی معنوں میں چند ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔شاید اسی حکومت کی راہ بنانے جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اتوار  کو بڑی طویل جلاوطنی کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر اتررہے ہیں۔سیاست کے بجائے ریاست کو مضبوط بنانے۔ پاکستان کا ایک فکر مند شہری ہوتے ہوئے میں بھی اپنی ریاست کو مضبوط بنانا چاہتا ہوں۔میرے ناقص علم کے مطابق ہماری آئندہ نسلوں کو دائمی معذوری سے بچانے کے لیے یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ کم عمربچوں کو پولیوکی مدافعت کرنے والے قطرے پلائے جائیں ۔مگر ہمارے ہاں سوات کے مولوی فضل اللہ کے زمانے سے یہ خوف بھی پھیل رہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پولیو کی مدافعت کے نام پر مہیا کردہ قطرے کچھ ایسے مواد پر مشتمل ہیں جو کرہ ِارض پر مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روک دے گا۔پولیو کے قطروں کے بارے میں پھیلائے گئے اس تاثر کی ابھی پوری طرح نفی نہیں ہوپائی تھی کہ خبر آگئی کہ امریکی جاسوسوں نے بچوں کو مدافعتی ٹیکے اور پولیو کے قطرے پلانے والے رضا کاروں کا بہروپ لے کر ایبٹ آباد کے اس گھر کا پتہ چلایا تھا جہاں اسامہ بن لادن اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ پورے پانچ سال سے دنیاوی معاملات سے قطع تعلق کیے روزمرہ کی عام زندگی گزارہے تھے۔

اسامہ بن لادن کو بچوں کی صحت کے نام پر کام کرنے والے رضا کاروں کے ذریعے ڈھونڈ کر امریکا نے میرے ملک پر ڈرون حملوں سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔پاکستان میں شرمناک حد تک حقیر معاوضہ لے کر گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے والے 24ہزار کے قریب رضا کار اب خیبر پختون خواہ اور کراچی کے بہت سارے علاقوں میں امریکی جاسوسوں کے سوا اور کچھ نہیں سمجھے جارہے۔چونکہ عالم اسلام اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مبتلا سمجھا جارہا ہے اس لیے کچھ خود ساختہ’’محافظینِ اسلام ‘‘ ان رضا کاروں کا قتل بھی ضروری قرار دے رہے ہیں اور عالم اسلام کی واحد ’’ایٹمی ریاست‘‘ ان رضا کاروں کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔میری خواہش ہے کہ لاہور اُترنے کے بعد پاکستانی ریاست کو مضبوط بنانے کی خاطر ڈاکٹر طاہر القادری پہلے قدم کے طورپر اپنے استقبال کے  لیے آنے والے لاکھوں پرستاروں کو ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کے ساتھ گھر گھر جاکر ہماری آنے والی نسلوں کو دائمی معذوری سے تحفظ دینے کا بندوبست کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔