جناب! پاناما لیکس کے ثبوت اداروں کو ہی ڈھونڈنا ہونگے

رحمت علی رازی  اتوار 27 نومبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی پولیس جرائم کی نرسری کا درجہ رکھتی ہے اور اس نے جرائم کو پال پوس کر معاشرے میں دندنانے کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے جب کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے سستے اور فوری انصاف کے لیے جامع، ٹھوس اور قابلِ عمل پالیسی نہ بنائے جانے کی وجہ سے عدلیہ کو فوری فیصلے کرنے کے بجائے تاریخیں، ضمانتیں اور اسٹے آرڈر دینے پر لگا دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج عدالتیں مقدمات کے التوا کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔

یہاں انصاف اسلیے نہیں مل پاتا کہ عدالتوں میں جو استغاثہ پیش کیا جاتا ہے وہ اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ عدالتوں کو مجبوراً ملزمان بری کرنا پڑتے ہیں‘ بڑے بڑے کیسوں میں عدالتوں کو ثبوت نہیں ملتے‘ پانامالیکس پر بھی عدالت کو ثبوت نہیں مل رہے‘ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے تو نیند کی گولیاں کھا کر سوئے ہوئے ہیں، انہیں کوئی زحمت بھی کیوں دی جائے، حالانکہ قانونی طور پر ثبوت تو ملک کے اہم ترین اداروں کو ہی ڈھونڈنا ہونگے۔

جو ثبوت مٹا دیے گئے ہوں ان کے نشانات تک پہنچنا کسی فردِ واحد کا نہیں، اداروں کا کام ہے‘ قوم کے مجموعی مفاد کے لیے فرانزک ماہرین کو کوئی فرد ذاتی اخراجات پر کیونکر ہائر کریگا؟ کپتان یہ ثبوت کبھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے‘ انھوں نے تو چھ ماہ قبل بھی اپنے بااعتماد ساتھیوں کو نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے فرانزک ماہرین تلاش کر کے ان کی خدمات حاصل کرنے کی ذمے داری سونپی تھی تا کہ وہ اپنی توپوں کا رُخ نوازشریف کی طرف کر سکیں لیکن وعدے کے باوجود یہ تینوں رہنما آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ہراجلاس میں شرکت تو ضرور کرتے ہیں لیکن فرانزک ماہرین کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ خود مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں میں ملوث ہیں، تاہم یہ نہیں معلوم کہ آف شور کمپنیوں میں ان کا کتنا سرمایہ لگا ہوا ہے‘ 11 اپریل کو سینٹرل لندن میں ایک ساتھی کے دفتر میں فرانزک ماہرین کی ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ بھاری فیس طلب کیے جانے کے سبب ان کی خدمات حاصل نہیں کی جا سکیں‘ کہا جاتا ہے کہ اس ساتھی نے بھی، جو پاناما کے حوالے سے عدالتی کمیشن کے قیام کے سلسلے میں ہر اجلاس میں موجود ہوتے ہیں، ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے درجنوں آف شور کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں۔

یہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ ہی تھی کہ جب عمران خان کے وکیل سے فاضل عدالت نے مطالبہ کیا کہ ثبوت پیش کریں تو ان کا کہنا تھا، جو کچھ ہمارے پاس تھے وہ ہم نے عدالت کے سپرد کر دیے ہیں، اگر عدالت کو ثبوت چاہییں تو وہ انویسٹی گیشن کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ بعد میں حامد خان نے سیکڑوں صفحات پر مبنی ثبوت پیش کیے تووہ پکوڑے جلیبی والوں کا اثاثہ نکل آئے‘ آخر یہ انویسٹی گیشن کریگا کون؟ سپریم کورٹ تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ انویسٹی گیشن ایجنسی نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انویسٹی گیشن کی ضرورت پیش آئی تو کسی اور ادارے یا ایجنسی کی طرف رجوع کرنا پڑیگا اور وہ ادارہ نیب کے سوا اور کونسا ہو سکتا ہے، مگر عدالتِ عظمیٰ توخود ہی نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے اور پاناما تحقیقات کے لیے اب اس کی خدمات لینے کا عندیہ بھی دیدیا ہے، اگر ایسا ہوا بھی، تو عمران خان کو کون مطمئن کریگا، جو نیب پر مسلسل سنگباری کرتے آئے ہیں اور اس کی غیرجانبداری پر ہمیشہ ہی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اگر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کو ملک کے اس واحد اعلیٰ احتسابی ادارے پر یقین ہے اور وہ اسی سے پاناما لیکس کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں تو اس کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے، سوائے اس کے کہ وہ ایک کمیشن تشکیل دے، اور کوئی چارہ کار نہیں رہتا، لیکن فاضل جج صاحبان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر عدالت کے سامنے فریقین مطلوبہ دستاویزات اور شواہد پیش کر دیں تو عین ممکن ہے کہ کمیشن کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے اور عدالت کسی نتیجہ پر پہنچ جائے کیونکہ چیف جسٹس یہ فرما چکے ہیں کہ عدالت اس کیس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی تفتیش کے لیے پاناما جائینگے بلکہ عدالت کے سامنے اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کا جلد از جلد فیصلہ ہو جائے تا کہ بقول ان کے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا جا سکے۔

کچھ مخصوص قانونی اور سیاسی حلقے اس بات پر مخمصے پیدا کر رہے ہیں کہ یہ کیس پیچیدہ سہی لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب وزیراعظم کے مستقبل کا سوال ہے اور اس کی گہرائی میں جائے بغیر اسے جلدی سے نمٹانے کی کوشش انصاف کے بنیادی اُصولوں کے خلاف ہو گی لہٰذا سپریم کورٹ کو صرف وہی کرنا چاہیے جو آئین اور قانون اسے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

حکمرانوں کے طبلہ نواز اس حجت پر مصر ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق سپریم کورٹ نہ تو خود ایک تفتیشی ادارے کی حیثیت سے کام کر سکتی ہے، نہ اس کام کے لیے کمیشن تشکیل دے سکتی ہے اور نہ ہی کمیشن کے لیے ٹرمز آف ریفرنس بنا سکتی ہے‘ کمیشن کی تشکیل کے لیے نئے قانون کی ضرورت ہو گی کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت کمیشن کی تشکیل سے ایک بے فائدہ اور غیرمؤثر کمیشن ہی بن سکے گا۔

پاناما پیپرز کمیشن کو بااختیار بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے نیا قانون ناگزیر ہو گا تاہم یہ مرحلہ ٹی او آرز کی تیاری کے بعد آ سکتا ہے‘ بہت سے لوگوں کے نزدیک سپریم کورٹ کو اس کیس کی سماعت ہی نہیں کرنا چاہیے تھی کیونکہ یہ دو سیاسی دھڑوں کے درمیان جھگڑا ہے اور سیاسی مسائل کو قانونی ذرائع سے حل نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا کیا گیا تو اس کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب قانونی موشگافیوں کا عمیق علم رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ پاناما کیس کی سماعت کرنیوالا کمیشن کسی کے گناہگار یا بیگناہ ہونے کا فیصلہ کیے بغیر حقائق پر مبنی صرف رپورٹ پیش کر سکتا ہے اور درخواست گزاروں کو کہہ سکتا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے لیے ٹرائل کورٹ یا الیکشن کمیشن میں پیش کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ خود میموگیٹ کیس میں ٹی او آرز تیار کرنے اور کمیشن کے دائرہ کار کا تعین کر چکی ہے، اسی طرح وہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے آرٹیکل 184(3) اور آرٹیکل187 کو اکٹھا استعمال کر کے ٹی او آرز بنا سکتی ہے اور جوڈیشل کمیشن کا دائرہ کار طے کر سکتی ہے۔

پاناما لیکس کی اب تک کی صورتحال کے مطابق پی ٹی آئی کے ٹی او آرز صرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کے احتساب پر مبنی ہیں جب کہ حکومتی ٹی او آرز کا ہدف وہ تمام پاکستانی ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں‘ اس طرح سپریم کورٹ پہلے تمام فریقین سے جواب لے گی اور پھر اس انتہائی اہم کیس میں پیشرفت کے لیے ٹی او آرز تشکیل دیگی۔

یہ کمیشن، انکوائری ٹیمیں لندن اور پاناما بھیج سکتا ہے تا کہ وزیراعظم کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ اور اراضی کی رجسٹری کے بارے میں تفصیلات حاصل کی جا سکیں‘ جہاں تک آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے اختیار کا تعلق ہے تو اس آرٹیکل کے مطابق آرٹیکل 199 کے تحت کسی قسم کے تعصب کے بغیر اگر سپریم کورٹ اسے عوامی اہمیت کا معاملہ سمجھتی ہے اور اس میں حصہ دوم کے باب ایک میں دیے گئے بنیادی حقوق میں سے کسی ایک کا اطلاق کرے تو وہ اس آرٹیکل کے تحت قدم اٹھا سکتی ہے‘ نیا بننے والا کمیشن پاناما لیکس کی مکمل تفتیش اور تحقیقاتی سماعت کر سکتا ہے۔

2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے تحقیقاتی کمیشن نے تو درخواست گزاروں سے شواہد طلب کیے تھے مگر اب یہ ہو سکتا ہے کہ مجوزہ کمیشن پاناما کیس کی تحقیقات کرے اور درخواست گزاروں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ساکھ کا جائزہ لے‘ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 42(a) اثاثوں کی تفصیلات کے بارے میں غلط اقدامات سے متعلق ہے۔

پس اگر حقائق پر مبنی رپورٹ میں ثابت ہوتا ہے کہ مریم نواز وزیراعظم نوازشریف کے زیرکفالت تھیں مگر انھوں نے الیکشن کمیشن میں پیش کیے گئے اثاثوں میں اپنی جائیداد کی تفصیلات نہیں دیں تو اس صورت میں سپریم کورٹ درخواست گزاروں سے کہہ سکتی ہے کہ وہ وزیراعظم کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن سے رابطہ کریں۔

اب بنیادی سوال یہ جنم لیتا ہے کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے گا یا سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ خود ہی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کریگا؟ پاناما پیپرز سے متعلق ہونیوالی پیشرفت پر گہری نظر رکھنے والوں کو قوی امید تھی کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ دوسری یا تیسری سماعت پر کمیشن کے قیام کا اعلان کریگا مگر ایپکس کورٹ کے مختصر حکم پر پائے کے قانونی ماہرین بھی تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد کمیشن کی تشکیل کا اعلان کریگی بھی یا نہیں؟

سماعت کے بعد ایپکس کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مختصر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ فی الحال سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ عدالت دستاویزات کی جانچ پڑتال کرے تا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ کمیشن تشکیل دینا ہے یا نہیں، حالانکہ کیس کی پہلی دو سماعتوں کے دوران ایپکس کورٹ نے چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں آبزرویشن دی تھی کہ عدالت وزیراعظم کے گھر والوں کا جواب موصول ہونے کے بعد کمیشن کی تشکیل کا اعلان کریگی۔

کمیشن کی تشکیل کے علاوہ ایپکس کورٹ نے درخواست گزاروں اور مدعاعلیہان پر واضح کیا تھا کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے بنائے جانے والے ضوابط کار کا فیصلہ بھی ایپکس کورٹ ہی کریگی، اسی لیے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے یکم نومبر کو تمام درخواست گزاروں اور مدعا علیہان کو پیشکش کی تھی کہ وہ کمیشن کی تشکیل پر رائے دیں‘ اس کے بعد تین نومبر کو ہونیوالی سماعت کے دوران ایپکس کورٹ نے کونسل کو ہدایت کی کہ وہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کی جانب سے جواب جمع کروائیں، اس کے بعد ہی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا جا سکے گا۔

یہ معمول کی بات ہے کہ ایپکس کورٹ کمیشن کی تشکیل کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھ سکتی ہے جب تک کہ وہ تمام درخواست گزاروں اور مدعاعلیہان سمیت تمام فریقین کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کی جانچ پڑتال نہ کرلے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن صرف نوازشریف نے نہیں کی بلکہ اور سیاستدانوں اور سیانوں نے بھی کی ہے لہٰذا ان کا احتساب بھی کیا جائے، اس مقصد کے لیے کسی محبِ وطن نے ایسے سوا پانچ درجن اعلیٰ حضرات کی نشاندہی کی ہے جسکی پاناما لیکس سے ملتی جلتی ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیرسماعت ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 64 سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات نے 3 سو ارب ڈالر غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے اور قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا‘ نوازشریف کے صاحبزادوں نے برطانیہ میں 149 جائیدادیں خریدیں جب کہ درخواست میں فریق بنائے گئے تمام سیاستدانوں نے بیرون ملک اثاثے بنا کر ملک کو کنگال کیا‘ ان سیاستدانوں کی طرف سے بیرون ملک بینکوں میں رکھے گئے پیسے وطن واپس لا کر ملک کی حالت تبدیل کی جا سکتی ہے اور حقیقی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

غور کیا جائے تو یہ بھی پاناما لیکس کا ضمنی مقدمہ ہے جس میں شریف خاندان اور نون لیگ کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاستدانوں کو ملوث کیا گیا ہے‘ نااہلی کا فیصلہ آنے پر خدشہ ہے کہ حکمرانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کے اہم عہدیداروں کی اکثریت واش ہو سکتی ہے اور اس بھرپور سیاسی نقصان کا سارا فائدہ تحریکِ انصاف کو ہو سکتا ہے مگر مدعاعلیہان کے خلاف تحقیقات میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے چنانچہ ممکن ہے لاہور ہائیکورٹ یہ کیس بھی سپریم کورٹ کو فارورڈ کر دے کیونکہ جماعت اسلامی کا پاناما لیکس پر داخل کیا گیا کیس بھی اسی نوع کا ہے اور اس نے سپریم کورٹ میں سب کے احتساب کے لیے مزید ٹرمز آف ریفرنس بھی جمع کروائے ہیں۔

اس حوالے سے دائر کی گئی ایک نئی متفرق درخواست میں امیر جماعت اسلامی کی طرف سے دوٹوک موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں متعدد کمیشن قائم ہوئے تاہم ان کی سفارشات اور نتائج سے کچھ حاصل نہیں ہوا‘ مجوزہ کمیشن کا مقصد صرف اور صرف پاناما پیپرز میں نام آنیوالے تمام افراد کے غیرقانونی اقدامات کو سامنے لانا ہے جس کے لیے مزید ٹی او آرز میں شرائط لگائی گئی ہیں کہ کمیشن کی سماعت میں عوام کو شامل ہونا چاہیے، کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے کم از کم 25 دن کی مہلت دی جائے، انکوائری کمیشن پاناما پیپرز پر تحقیقات کے لیے فوری سماعت کرے۔

کمیشن کی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی جائے اور عدالت قصور وار کو سزا سنائے‘ کمیشن کی تمام کارروائی سودمند ہو‘ قانون کے مطابق ہو اور تمام تحقیقاتی ایجنسیاں کمیشن کے ساتھ تعاون کریں‘ کمیشن کے سامنے ہرشہری کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی شہری کے خلاف شکایت کر سکے جس نے پاکستان میں یا پاکستان سے باہر غیرقانونی اثاثے بنائے ہیں، رقم منتقل کی ہے یا حقائق چھپائے ہیں یا غلط معلومات فراہم کی ہیں لہٰذا مجوزہ کمیشن کو پابند بنایا جائے کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے معاملے پر عدالت کو تجاویز فراہم کرے۔

لگتا یوں ہے کہ شہبازشریف آئندہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے خود کو مریم نواز سے زیادہ موزوں وارث سمجھتے ہیں‘ انہیں یقینِ واثق ہے کہ پنجاب میں کھربوں کی کرپشن پر کسی کا دھیان نہیں، نہ ہی کوئی اسے ثابت کر پائے گا، سو پانامالیکس سے بری الذمہ ہونے کے لیے انھوں نے اپنی اہلیہ تہمینہ درانی سے سوشل میڈیا (ٹوئٹر) پر ایک بیان جاری کروایا جس میںکہا گیا ہے، ’’سعودی عرب میں اباجی کی وفات کے بعد شہباز اور عباس شریف مرحوم کو تین نائٹس برج فلیٹس میں سے ورثے میں کچھ نہیں ملا اور واضح طور پر یہ فلیٹس کبھی شہبازشریف کے نہیں رہے‘ مذکورہ فلیٹس اباجی (میاں شریف) کے تھے اور نہ ہی وہ تین بھائیوں میں ورثے کی تقسیم میں اثاثوں کا حصہ ہیں‘‘۔

مدعاعلیہان کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی شہنشاہیت کے خاتمہ کے لیے عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر واجب ہوگیا ہے کہ وہ خدا کو حاضرناظر جان کر ایسا فیصلہ کریں جو عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق ہو اور ایسے تمام افراد کو عبرت کا نشان بنا دیں جنھوں نے اس ملک کو کنگال کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کو جنرل راحیل شریف کے کردار کو مثال بنانا چاہیے اور بادشاہت ختم کر کے فوج کی طرح سیاست میں بھی نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے ورنہ یہ بدترین جمہوریت، آمریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیگی۔

حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوںکی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے‘ محض اشتہاری مہموں اور خیالی گوشواروں سے تباہ حالی کو نہیں چھپایا جا سکتا‘ ہر روز اربوں روپے کے اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلا کر قوم کو فریب دیا جا رہا ہے‘ اب سپریم کورٹ نے پاکستان کے مستقبل کی چابی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تو یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں‘ عدالت کو اطمینان سے اپنا کام کرنے دیا جائے‘ عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے کیونکہ دُنیا میں تنازعات کے حل کا یہی مہذب طریقہ ہے، اس سے ہٹ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

وزیراعظم پر اپنے خاندان کے حوالے سے بھاری ذمے داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا دفاع سرکاری ذرائع اور میڈیا کی طاقت سے نہ کریں اور اس نازک موڑ پر بالغ نظری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں‘ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اپنے حق میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر کے بجائے اپنے اہلِ خانہ کی پوشیدہ جائیدادوں کے گوشوارے جمع کرائیں اور رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم پاناما لیکس کی تحقیقات سے قبل ہی اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیتے‘ اب تونواز شریف کے ’’یارِخاص‘‘ جاوید ہاشمی نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مفید مشورہ دیا ہے کہ اگر پاناما لیکس پر وزیراعظم استعفیٰ دیدیں تو اس سے ملک کو فائدہ ہو گا، نقصان نہیں ہو گا کیونکہ آئین کے مطابق بھی ملک وزیراعظم نہیں بلکہ اس کی کابینہ چلاتی ہے‘ پاناما کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے اور اس میں نیا موڑ آیا ہے۔

نوازشریف کو اس معاملے پر استعفیٰ دیکر اپنی پارٹی کی تربیت کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ حکومت کے تمام فیصلے وہ خود اور ان کی فیملی کرتی ہے چنانچہ سپریم کورٹ کو یہ جمہوری بادشاہت ختم کرنے کے لیے پاناما لیکس کے حتمی فیصلے سے قبل یوسف رضا گیلانی والا پیمانہ لاگو کرتے ہوئے نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے اور شریف خاندان سے باہر کسی بھی شخص کو وزیراعظم بنائے جانے کے احکامات صادر فرمانے چاہییں‘ کوئی سخت فیصلہ لینے سے ہی بے لگام بدعنوانی کا راستہ مسدود ہو سکتا ہے‘ کرپشن کا خاتمہ ہر پاکستانی کا مطالبہ ہے‘ کرپشن کے خاتمے سے ہی ملکی مسائل حل ہونگے۔

آخر میں ہمارے ایک قاری، محمدخالد محمود کا خط پیش ہے جنہیں عمران خان کی طرح انصاف نہیں ملا‘ ان کا کیس لیبر ڈیپارٹمنٹ سے متعلق ہے۔ رقمطراز ہیں: میرا انتخاب 1980ء میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر (گریڈ17) بذریعہ پنجاب پبلک سروس کمیشن ہوا اور اس بابت محکمہ لیبر کو اطلاعی لیٹر 3 مارچ 1980ء کوجاری ہوا۔ محکمہ لیبر نے باقاعدہ تقرری کرنے میں تین ماہ لگا دیے اور مورخہ 31 مئی کو تقرری لیٹر جاری کیا۔ اس مثال سے اس وقت کی اور آج کی گورننس میں نمایاں فرق کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند دہائیاں پہلے جن معمولی ایشوز میں مہینے لگتے تھے، آج کی گورننس میں عملاً کئی سال گزر جاتے ہیں اور معاملات پھر بھی التوا کا شکار رہتے ہیں۔

1990ء میں مجھے گریڈ18 میں عارضی ترقی دی گئی لیکن مستقل ترقی کو زیرالتوا رکھا گیا۔ میں نے اپنے حق کے لیے انتظامی اور عدالتی سطح پر 10 سال تک جدوجہد کی‘ سپریم کورٹ کے سال 2012ء کے فیصلہ (رپورٹ نمبری SCMR-544-2013) کی رُو سے محکمہ لیبر نے مجھے گریڈ 18 میں ترقی کا فیصلہ جاری کرنا تھا تاہم اس عمل میں تاخیری حربے اختیار کیے گئے اور مجھے ترقی دیے بغیر مارچ 2014ء میں سروس سے ریٹائر کر دیا گیا۔

اس تاخیر کے پیش نظر میں نے چیف منسٹر پنجاب کے نام درخواست گزاری جس پر چیف منسٹر آفس نے محکمہ لیبر کو ہدایات جاری کیں مگر بدقسمتی سے ان پر بھی عمل نہ ہو سکا تو بامرِ مجبوری مجھے سیکریٹری لیبر کو8 مارچ 2014ء کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنا پڑا۔ میں نے اس سلسلہ میں ہیومین رائٹ سیل لاہور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا جن کی جانب سے 24 مارچ 2014ء کو سیکریٹری لیبر کو تاکیدی لیٹر لکھا گیا۔

ادھر 19 فروری 2014ء کو بلائی گئی ڈی پی سی میٹنگ میں میری پروموشن کا کیس منظور ہو گیا اور بعد از خرابی بسیار 29 اپریل2014ء کو بالآخر میرا پروموشن آرڈر جاری کر دیا گیا‘ یوںمجھے 22 سالوں کے طویل انتظار اور مسلسل جدوجہد کے بعد گریڈ 18 میں ترقی مل تو گئی مگر دلی ہنوز دور بود۔ ترقی ملنے کے بعد ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے میری ریٹائرمنٹ کے لیے ترمیمی آرڈر برائے گریڈ18 جاری کیا گیا‘ بہ ایں ہمہ بقایا جات کی ادائیگی کے لیے گریڈ18 کی پوسٹ بھی منظور کرائی گئی۔

اس ساری کارروائی کے مکمل ہونے اور پنشن اور واجبات جاری ہونے میں مزید 7 ماہ لگ گئے جسکے باعث مجھے شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ 22 سال کے طویل عرصہ میں متواتر عدالتی و محکمہ جاتی چکر کاٹ کاٹ کر میں تقریباً کنگال ہو کر رہ گیا اور قانونی کارروائیوں کی وجہ سے مجھے کثیر مالی اخراجات برداشت کرنا پڑے جس سے میرے گھر کا مالی و معاشی نظام چوپٹ ہو گیا۔ ازاں بعد جب 9 جون 2014ء کو موواوور کیس برائے گریڈ19 محکمہ لیبر ویلفیئر میں جمع کرایا اور اس کے ساتھ اے جی پنجاب کی طرف سے جاری کردہ اسکیل18 کی آخری اسٹیج مکمل کرنے کا اصل سرٹیفکیٹ بھی مہیا کیا مگر چیف منسٹر اور چیف سیکریٹری کی طرف سے متعدد ہدایات کے باوجود کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا‘ یہ تاخیری حربے اڑھائی سال سے جاری ہیں‘ متعلقہ محکمہ جات کو قائل کرنے کے لیے میں مسلسل خط و کتابت بھی جاری رکھے ہوئے ہوں مگر تمام محکمے خط و کتابت کو غیر ضروری قرار دیکر کیس واپس محکمہ لیبر کو ارسال کر دیتے ہیں۔

کوئی راستہ نظر نہ آنے پر مجھے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور میں نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ (نمبری 30738/2015) دائر کر دی۔ فاضل عدالت نے سیکریٹری لیبر کو کیس کا فیصلہ 8 ہفتوں کے اندر اندر کرنے کا حکم جاری فرمایا جس پر محکمہ لیبر کو 31 نومبر 2015ء کو میرا کیس محکمانہ کمیٹی میں پیش کرنا پڑا اور کمیٹی نے سالانہ رپورٹس کی درستی کی شرط کے ساتھ مورخہ 1-12-1993 سے گریڈ 19 کے لیے موواوور کی منظوری بھی دیدی تاہم اب لیبر ڈیپارٹمنٹ نے سالانہ رپورٹس (1989 تا 1993)کی عدم موجودگی کا ایشو اٹھا دیا ہے حالانکہ رپورٹیں قبل ازیں محکمہ لیبر میں موجود تھیں جن کو مختلف کیسوں کے فیصلوں کے وقت محکمہ لیبر نے 5 مرتبہ محکمانہ کمیٹی میں پیش بھی کیا‘ نیز 1992ء سے 1994ء تک بار بار منظوری حاصل کرنے کے عارضی کرنٹ چارج پروموشن آرڈرز خود محکمہ لیبر نے ہی جاری کیے تھے اور ان ترقیوں کو محکمہ لیبر خود سپریم کورٹ کے روبرو تسلیم بھی کر چکا ہے جس کی وضاحت فاضل عدالت کے 5 دسمبر 2014ء کے فیصلہ کے پیرا نمبر4 میں صاف موجود ہے۔

واضح رہے کہ اے سی آر خفیہ ریکارڈ ہوتا ہے جسے محفوظ رکھنا محکمے کی اپنی ذمے داری ہوتی ہے نہ کہ متعلقہ اہلکار کی، چنانچہ میں نے لاہور ہائیکورٹ کے مجریہ 13 اکتوبر 2015ء کے حکم پر 12 ماہ تک عملدرآمد نہ کیے جانے کے ضمن میں محکمہ لیبر کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھجوا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ لیبر مزید تاخیری حربے کے طور پر کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ مجھ جیسا ایک مظلوم ملازم، جس نے کسی بھی خطا کے بغیر 34 سال ایک ہی سکیل میں رہ کر گزارے، بدستور 22 سال سے اپنی حق رسی کے لیے انتظامی و عدالتی دروازوں پر بار بار دستک دے رہا ہے۔

دفتری معمول کے مطابق میرا سادہ سا کیس حل کرنے کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں گورننس نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ متعلقہ افسران من مانی کرنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ چونکہ دفتری نظام میں نمٹائے جانے والے اُمور کے لیے حکومتی انتظامات کے تحت ’’سیکرٹریٹ کا ہدایت نامہ‘‘ اور ’’ون ونڈو آپریشن پالیسی‘‘ میں باقاعدہ ٹائم فریم دیا گیا ہے لیکن سسٹم میں وہی فرسودہ من مانی کا رجحان پایا جاتا ہے اور ٹائم فریم پالیسی میں بھی متاثرہ فریق کے نقصان کے بروقت ازالے کی کوئی صورت موجود نہ ہے، حتیٰ کہ خود ون ونڈو آپریشن تشکیل دینے والے کو بھی ضرورت کے وقت اس کا فائدہ نہیں پہنچا، یہی وجہ ہے کہ متاثرین کو دفاتر میں ہونیوالی تاخیر کی اذیت، فالو اپ اور عدالتی چارہ جوئی پر مالی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

ہماری رائے ہے کہ ایسے حربوں کے عوض یومیہ بنیاد پر عوضانہ کی ادائیگی کا بندوبست کیا جائے تا کہ متاثرین کی مشکلات کا مداوا ہو سکے‘ یہ بندوبست یقیناً گڈ گورننس اور انصاف کے بنیادی تقاضے پورے کرنے کا سبب بنے گا اور اس سے گورننس کے مرجھائے چہرے پر بڑی حد تک رونق آ جائے گی‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری اس تجویز پرمتعلقہ اداروں بشمول لاہور ہائیکورٹ، وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری پنجاب کو سخت نوٹس لینا چاہیے اور متعلقہ اداروں کو بھی اس حساس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے لاکھوں کیس عدالتوں میں جاتے ہیں اور حقدار اپنے جائز حق سے محروم رہتے ہیں۔

اسی نظام کے شکار خط گزار محمدخالد محمود کے ساتھی دیگر 5 سینئر افسران بھی گریڈ18 میں اپنے پروموشن کے حق کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے ریٹائرمنٹ لے کر گھروں کو چلے گئے‘ اور بھی نجانے کتنوں کو اس محکمانہ بے حسی کی بھینٹ چڑھنا پڑاہو گا اور مستقبل میں بھی نجانے کتنے اس سے متاثر ہونگے! وزیراعلیٰ پنجاب کو بے بسی کی تصویر بنے ان مظلوم اور لاوارث متاثرہ افراد کو فوری انصاف دیکر مظلوموں کی دُعائیں لینی چاہییں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔