’جن نے لہور نئیں ویکھیا‘

زاہدہ حنا  اتوار 27 نومبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ بھی دن تھے جب تھیٹر برصغیر کی ثقافتی زندگی میں لہو کی طرح گردش کرتا تھا اور ناٹک منڈلیاں کلکتہ سے کراچی تک سفر کرتی تھیں۔ ہم اگر اردو تھیٹر کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ڈاکٹر عبدالعلیم نامی ہمیں بتاتے ہیں کہ اردو اسٹیج کا خالق وہ شخص تھا جو مرہٹہ تھا، نام جگن ناتھ شنکر سیٹھ، اسی طرح اردو میں پہلا ڈراما لکھنے والا بھی ایک مرہٹہ ڈاکٹر بھاؤجی لاڈ تھا۔ وہ تاریخی حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ ابتدائی اردو ڈراما نویس گجراتی یا مرہٹے تھے اور یہ کہ گجراتی سیٹھوں نے اردو تھیٹر کی ترقی پر پانی کی طرح روپیہ بہایا۔

انیسویں صدی میں لاکھوں کا مکینکل ریوالونگ اسٹیج، ایک لاکھ کا آرگن، تین ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر ملازم منشی جو سال میں صرف ایک ڈراما لکھتا تھا، اسی طرح سینئر اداکارہ کی تنخواہ تین ہزار ماہانہ تھی۔ انیسویں صدی میں گجراتی سیٹھ اردو ڈراموں پر اس طرح روپے بہا رہے تھے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ڈرامے عوام میں کس قدر مقبول تھے۔

بات صدیوں پیچھے چلی گئی اور وہ اس لیے کہ حال کا ماضی سے رشتہ جوڑے بغیر بات نہیں بنتی۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد تھیٹر کے چند شیدائیوں نے تھیٹر کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ ان میں خواجہ معین الدین، احمد علی، کمال احمد رضوی، یوسف اسماعیل، اور منصور سعید جیسے چند پُرجوش لوگ شامل تھے لیکن ’تعلیم بالغان‘ ’مرزا غالب بندر روڈ پر‘ کی عوامی پذیرائی کے باوجود انھیں وہ مالی معاونت حاصل نہ ہو سکی جس کی بنا پر تھیٹر کراچی میں آگے بڑھ سکتا۔

کراچی میں تھیٹر کو آگے بڑھانے اور اس میں نئی روح پھونکنے میں ایک بڑا کردار یہاں کی آرٹس کونسل نے ادا کیا ہے۔ چند دنوں پہلے آرٹس کونسل میں 20 دن تک چلنے والے تھیٹر فیسٹول کا اختتام ہوا ہے۔ اس فیسٹول کی دو باتیں بہت حوصلہ افزا تھیں۔ پہلی یہ کہ اسے عوامی سطح پر پذیرائی ملی اور ہال میں کسی روز بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، دوسری اس میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت تھی۔ اس فیسٹول میں شہر کے تقریباً تمام اہم تھیٹر گروپ اور منجھے ہوئے اداکار حصہ لے رہے تھے۔ اس میں بعض اہم ڈراما نگاروں کی تحریریں سامنے آئیں جن میں تھیٹر کا ایک بڑا نام کمال احمد رضوی تھے جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔

اس فیسٹول میں شیما کرمانی کی تحریک نسواں، جس نے چند برس کے دوران تھیٹر اور نکٹر تھیٹر کے حوالے سے اپنی پہچان بنا لی ہے، اس نے بھی ایک ڈراما پیش کیا جو ایک مشہور ہندوستانی ادیب اصغر وجاہت کا لکھا ہوا تھا۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت سرحدوں پر کشیدگی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ دونوں طرف کے لوگ لہولہان ہیں اور کسی لمحے بھی کوئی سنگین حادثہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں 1947ء کے المیے کو اس کے سچے تناظر میں پیش کرنا بہت ہمت کی بات ہے۔

شیما کرمانی اور انور جعفری نے یہ کام بہت جی داری اور سلیقے سے کیا۔ آرٹس کونسل کے احمد شاہ کو بھی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اسے تھیٹر فیسٹول کا حصہ بنایا، یہ ڈراما جو ہندوستان اور پاکستان دونوں میں مشہور ہے، اس کا نام ہی دل موہ لینے والا ہے۔ ’جن نے لاہور نہیں ویکھیا‘۔ بٹوارے کے فوراً بعد لکھنؤ سے لاہور آنے والے ایک خاندان کی کہانی۔

اصغر نے یہ ڈراما 80ء کی دہائی میں لکھا تھا اور یہ ان کی خوش بختی تھی کہ 1989ء میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ہدایت کار اور ڈراما نگار تنویر حبیب نے اس ڈرامے کو ڈائریکٹ کیا۔ پہلی مرتبہ دلی میںاسٹیج ہونے والا یہ کھیل راتوں رات اتنا مقبول ہوا کہ اس وقت سے یہ کھیل اب تک سڈنی، نیویارک، دبئی اور کئی دوسرے شہروں میں کھیلا جا چکا ہے اور بے پناہ مقبول ہوا ہے۔

شیما کرمانی نے اس ڈرامے کو تحریک نسواں کے بینر تلے پہلے بھی پیش کیا تھا لیکن اس مرتبہ کے تھیٹر فیسٹول میں اس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ایک ہی روز اس کے 2 شو ہوئے اور دونوں مرتبہ ہال اپنی گنجائش سے زیادہ بھرا ہوا تھا۔ نوجوان سیڑھیوں پر بیٹھے تھے، دیوار کا سہارا لے کر کھڑے تھے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنی تاریخ کا یہ الم ناک رخ پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن کے بزرگ بٹوارے کے عذاب سے گزرے تھے، ان میں سے چند نے اپنے بچوں کو یہ الم ناک کہانیاں سنائی تھیں لیکن بیشتر خاموش رہے تھے۔ اور آج کی نسل یہ درد انگیز کہانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

یہ بٹوارے کے بعد پاکستان آنے والے ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جس نے 2 مہینے لاہور کے والٹن کیمپ میں گزارے اور اب اسے کسٹوڈین کی طرف سے ایک بڑی حویلی الاٹ ہوئی ہے۔ لکھنؤ سے آنے والے خاندان کی خوشی اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب اسے علم ہوتا ہے کہ حویلی کی اوپری منزل میں اس گھر کی اصل مالکن رتن جوہری کی بوڑھی ماں اس وقت بھی موجود ہے اور اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے خاندان کے کچھ لوگ بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گئے اور کچھ لوگ لاہور چھوڑ کر دلی چلے گئے ہیں۔

بوڑھی خاتون جو لاہور کے ایک مشہور اور مال دار جوہری کی ماں ہے، اپنے خاندان کے ساتھ محلے کے لوگوں کی سفاکی سے بہت غمزدہ ہے اس کے باوجود آس پاس کے لوگوں کے کام آتی ہے۔ دوسری طرف وہ خاندان ہے جسے رتن جوہری کی حویلی الاٹ ہوئی ہے۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ رتن کی بوڑھی ماں جلد از جلد کسی طرح دلی چلی جائے تاکہ وہ سکون سے پوری حویلی میں رہ سکیں۔

شروع کی تناتنی کے بعد لکھنؤ سے آنے والا خاندان اس بزرگ خاتون سے بہت مانوس ہو جاتا ہے۔ بچے اسے ’دادی‘ اور گھر کے بڑے اسے ’ماں جی‘ کہتے ہیں۔ کچھ غنڈے بزرگ خاتون سے حویلی کی اوپری منزل خالی کرانا چاہتے ہیں لیکن لکھنؤ والے اس کے لیے راضی نہیں۔ محلے کے ایک مولوی بھی ان سب کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رتن کی ماں جی اگر لاہور میں رہنا چاہتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے کہ وہ یہاں رہیں اور پوجا پاٹ کریں۔

کھیل کا آغاز ہوتا ہے تو اندھیرے اسٹیج پر لٹے پٹے لوگوں کا قافلہ آہستہ آہستہ گزر رہا ہے۔ چند افراد کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی لالٹین ہے۔ اس کی مدھم زرد روشنی آہستہ آہستہ گم ہو جاتی ہے اور پس منظر سے ناصر کاظمی کی یہ غزل مدہم سُروں اور دل سوز آواز میں ابھرتی ہے:

شہر در شہر گھر جلائے گئے/ یونہی جشنِ طرب منائے گئے/ ایک طرف جھوم کر بہار آئی/ ایک طرف آشیاں جلائے گئے/ کیا کہوں کس طرح سرِ بازار/ عصمتوں کے دیے بجھائے گئے/ آہ وہ خلوتوں کے سرمائے/ مجمعِ عام میں لٹائے گئے

ہال میں موجود شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔ وہاں ایسے بھی لوگ تھے جن پر سے بچپن میں سہی یہ سب کچھ گزرا تھا، ان میں سے ایک صاحب میرے برابر میں بیٹھے تھے اور میں ان کی سسکیاں سن رہی تھی۔

اس کھیل میں کتنے نازک مرحلے آتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اس میں سانس لیتے ہیں جو انسانوں کے کام آنے کو اپنا دین ایمان سمجھتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو مذہب کے نام پر کسی بوڑھی عورت کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں تاکہ اس کی جائیداد پر قبضہ کر سکیں۔ وہ مولوی ہے جو ان غنڈوں کی راہ روکتا ہے اور انھیں سمجھاتا ہے کہ انسان کے احترام سے اہم کوئی چیز نہیں۔ اس کی تکریم کرو اور اس کا دل نہ توڑو، خواہ وہ کسی بھی مذہب، کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اصل مرحلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب رتن جوہری کی ماں دنیا سے گزر جاتی ہے۔ غنڈوں کا کہنا ہے کہ اس کے ٹکڑے کر دو، دوسرے کہہ رہے ہیں ان ہی کے دھرم اور رسم و رواج کے ساتھ ان کا انتم سنسکار کرو۔

اس مرحلے پر مولوی کے جملے بہت کاری ہیں جو کہتا ہے: ’’اُس کی میت کے ساتھ آپ لوگ جو سلوک چاہے کر سکتے ہیں۔ اُسے چاہے دفن کیجیے، چاہے ٹکڑے کر ڈالیے، چاہے جو دل میں آئے کر دیجیے۔ اس کا اب اُس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے ایمان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ لیکن آپ اُس کے ساتھ کیا کرتے ہیں، اس سے آپ کے ایمان پر ضرور آنچ آ سکتی ہے۔‘‘ ان جملوں کی مولانا کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ڈھاٹے باندھے ہوئے لوگ ان پر حملہ کرتے ہیں اور ان کی جان لے لیتے ہیں۔ اس کھیل میں لکھنؤ کی اردو اور لاہور کی پنجابی ایک دوسرے کے گلے میں بانھیں ڈال کر چلی ہیں اور دل کو چیرتی چلی جاتی ہیں۔ شیما کرمانی نے ایک بوڑھی پنجابی عورت کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا اور دیکھنے والوں سے خوب داد وصول کی۔

ایک ایسے زمانے میں جب کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ دہشتگردی اور انتہا پسندی کی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ فرقہ واریت پھیلانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، اس طرح کے ڈرامے پیش کرنا اندھیرے میں چراغ جلانے کی مانند ہے۔ کراچی آرٹس کونسل، شیما کرمانی اور انور جعفری کو مبارک ہو کہ انھوں نے اتنے حساس موضوع کو اسٹیج پر پیش کیا۔ آج کی صورت حال میں اس طرح کی کوششیں اندھیرے میں چراغ جلانے کے مترادف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔