پیارے مروان!!

شیریں حیدر  اتوار 27 نومبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چھوٹا سابچہ اتنا چالاک کیسے ہے…‘‘

’’ اس کی ٹیلی وژن اور فون کی اسکرینوں میں دلچسپی تو دیکھیں… ‘‘

’’ ٹیلی وژن آن ہوتا ہے تو یہ اس کے سامنے stand still ہو جاتا ہے!!‘‘

’’ آج کل کے بچے تو توبہ… اسمارٹ فون کے دیوانے ہیں!!‘‘

یہ فقرے نہیں ، سوالات ہیں جو ہم ایک دوسرے سے پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ہمیں ان کے جوابات نہیں مل پاتے، کیونکہ ہم بہت معصوم ، بھولے اور لاعلم ہیں۔ پیارے مروان، میں تمہیں اپنی طرف بلاؤں اور تم منہ پھیرلو تو میں اپنا فون تمہیں چوری سے دکھا کر غائب کر لیتی ہوں، تم اس کے لالچ میں دوڑتے ہوئے میرے پاس آ جاتے ہو، میں لیٹ کر اپنا فون استعمال کر رہی ہوتی ہوں تو تم میرے پاس ضد کر کے آتے ہو اور میرے سینے پر سر رکھ کر لیٹ جاتے ہو، تمہارے اس عمل سے میرے اندر پیار اتر جاتا ہے، میں تمہیں بھینچ لینا چاہتی ہوں مگر جانتی ہوں کہ جونہی ایسا کرنا چاہوں گی، فون اپنے ہاتھ سے رکھوں گی، تم اٹھ جاؤ گے کیونکہ وہاں لیٹ کر تم اس فون کی اسکرین پر بدلتے اور حرکت کرتے رنگوں اور مناظر کو دیکھ سکنے کی وجہ سے ہی تو مجھ پر اتنا پیار لٹا رہے ہو۔

ہم سب جو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آج کل کے بچے ایسے کیوں ہیں، فون کے دیوانے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمار ے پاس ہے اور ہم اس سے نظر چراتے ہیں۔ والدین چھوٹے چھوٹے بچوں پر چیختے ہیں کہ فون کا استعمال نہ کریں ، ٹی وی نہ دیکھیں، مگر اتنے چھوٹے بچوں کو ایسا فہم کہاں، وہ تو وہی کرتے ہیں جو وہ ہمیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں، انھیں یہ چیزیں اس لیے پرکشش لگتی ہیں کہ انھوں نے ان ہی کی گودوں میں آنکھ کھولی ہے جن کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون جاگتے سوتے میں ہوتے ہیں، وہ ذرا سا اپنے ماحول کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں، انھیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی سمجھ آنا شروع ہوتی ہے تو وہ سب کو جس چیز کے ساتھ کھیلتا ہوا مصروف پاتے ہیںوہ اسمارٹ فون کی اسکرین ہے، یہ معصوم تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ یہ بھی اس جیسے انسانوں کا کوئی جزو لازم ہے جو اس کے پاس نہیں ہے، اس اسکرین پر بدلتے ہوئے مناظر اور تصاویر اس کے ننھے سے ذہن کو بھی fascinate کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہمیں۔

ہم سب چھوٹے بچوں کو ایسی حرکتیں کرتا ہوا دیکھ کر ان پر اپنا غصہ نکالتے ہیں اور چیختے ہیں… ان کی نظر کمزور ہوجائے گی، ان کے ذہن پر اثر ہو گا جیسی چیزیںہم جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر ایک آسان کام نہیں کرتے کہ جس وقت بچہ ہمارے ارد گرد ہے اس وقت ہم اسے اپنی مکمل توجہ دیں اور اپنے فون کو بند کر کے جیب یا بیگ میں رکھ لیں۔

جب یہ ننھا سا مروان سو رہا ہوتا ہے تو اس کی انگلیاں تکیے یا کشن کو swipe  کر رہی ہوتی ہیں، جاگتے میں یہ کھاتے ہوئے میز کے کونے یا پلیٹ پر swipe کر رہا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی کھلونا دیں، آئینے کے سامنے کھڑا کریںیا وزن کرنے والی مشین ہو، یہ سب چیزوں پر انگلی سے اس طرح حرکت کرتا ہے جس طرح فون کی لاک اسکرین کو کھول رہا ہو اور فون دیں تو غضب ہی ہو جاتا ہے، ڈیڑھ سال کا بچہ اسمارٹ فون کو نہ صرف آن کر لیتا ہے بلکہ اس کی اسکرین کو بدلنے، کئی بٹنوں کو دبا لینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ ہم عملی طور پراپنے بچوں کو دیتے ہیں اور ان سے کچھ اور کی توقع کرتے ہیں، بچے وہ سیکھتے ہیں جو وہ دوسروں کو کرتا ہوا دیکھتا ہے۔

یہ فون ایک ایسی بیماری ہے جس نے ہمیں اپنے دور کے دوست احباب سے قریب اور قریب کے دوست احباب سے دور کر دیا ہے… ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے دو لوگ آپس میں بات نہیں کرتے مگر ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک دنیا سجائے بیٹھے ہوتے ہیں ، فیس بک، انسٹا گرام ، ٹویٹر، واٹس ایپ(Whasapp ) سنیپ چیٹ ( snapchat ) کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے احباب کو ہم بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم کیا کھا رہے ہیں، کیا پہن رکھا ہے، فیملی کی کیا کیا مصروفیات چل رہی ہیں، ہم انھیں کتنا مس miss کرتے ہیں وغیرہ مگر جو جیتے جاگتے لوگ ہم سے چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھے ہوتے ہیں، ان سے ہم ایسی کوئی بات شئیر نہیں کرتے، انھیں اپنے جذبات نہیں بتاتے، انھیں احساس نہیں دلاتے کہ وہ ہماری زندگی کے لیے کس قدر اہم ہیں۔

ہم ان کے استعمال کو بچوں کے ذہن اور نظر کے لیے تو نقصان دہ کہتے ہیں مگر ہمیں اندازہ ہونا چاہیے کہ ہم بھی انسان ہیں اور ہمارے وجود ، نظر اور ذہن پر بھی ان ایجادات کے حد سے زیادہ استعمال سے اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ہمیں تو ان کے استعمال کا نشہ سا ہو گیا ہے۔ چند دن قبل سوشل میڈیا پر کسی نے مجھے ایک کہانی نما پوسٹ بھیجی، جس میں بتایا تھا کہ کسی اسکول ٹیچر کو اس کی ساتھی ٹیچر نے امتحانوں کا ایک سیٹ چیک کرنے کے لیے دیا، اس میں بچوں کو مضمون لکھنے کے لیے موضوع دیا گیا تھا، ’’ میری سب سے بڑی خواہش‘‘ – پرچے چیک کرتے ہوئے اس کے خیال کے مطابق زیادہ تر بچوں نے ڈاکٹر یا انجینئر بننے، دنیا میں گھومنے، خلاؤں کو سر کرنے اور کھیلوں کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کی باتیں لکھی تھیں۔

ان ہی پرچوں میں ایک بچے کے مضمون نے اسے رلا دیا، صرف رلایا ہی نہیں، ہچکیاں لے لے کر رلایا، اس نے وہ مضمون اپنے شوہر کو پڑھایا تو وہ بھی آنسوؤں سے رونے لگا کیونکہ وہ ان کے اپنے بچے کا پرچہ تھا اور اس بچے نے خواہش کی تھی کہ میں بچے کے بجائے اسمارٹ فون بن جاؤں… میرے والدین کو اپنے اسمارٹ فون مجھ سے بڑھ کر پیارے ہیں، وہ انھیں ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں، ان سے کھیلتے ہیں، ان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، کھانا کھاتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، اس کی اسکرین پر کچھ دیکھ کر وہ مسکرا دیتے ہیں تو کبھی اداس ہو جاتے ہیں اور کبھی ہنس بھی دیتے ہیں، اس کی حفاظت کی بھی انھیں فکر ہوتی ہے!! مجھ سے زیادہ ان کے لیے وہ اہم ہے۔

صرف آپ ہی نہیں، مجھے بھی آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے، ہم سب ایسے ہی ہو گئے ہیں، کہیں ہم اپنے بچوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، کہیں بہن بھائیوں کو، والدین کو اور بزرگوں کو، کہیں عزیز و اقارب کو، کہیں دوستوں کو ،کہیں ماتحتوں کو تو کہیں باس کو۔ ہم سب کو اپنے رویے اور ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ مہنگے مہنگے فون ، جتنے بھی مہنگے ہوں، ان رشتوں سے بڑھ کر قیمتی نہیں ہو سکتے جو آج ہمارے پاس ہیں، کل نہ ہوں گے تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہم نے کیا کھو دیا، یہ فون تو ٹوٹ جائیں ، کھو جائیں یا چوری ہو جائیں تو ہمیں دوبارہ مل جائیں گے مگر یہ پیارے پیارے رشتے ہمیں ایک ہی بار ملتے ہیں، ان کی کوئی قیمت نہیں اور کھو گئے تو کوئی نعم البدل بھی نہیں۔

سب سے اہم یہ مستقبل کے معمار ہیں،بچے ہیں، انھیں آپ کے پیار اور توجہ کی ضرورت ہے، انھیں وقت چاہیے، بلا شرکت توجہ چاہیے اور اہم ہونے کا احساس۔ ان کے نازک نازک دلوں کو ٹھیس تو ہمارے لہجے کی سختی، لمس میں کھردرے پن اور آواز کی کرختگی سے اور بھی برا اثر ہوتا ہے، وہ یہی سیکھیں گے اور جب وہ ہم سے ہمارے ہی لہجے میں بات کریں گے تو ہمیں کتنا برا لگے گا؟

اپنے ارد گرد دیکھیں کون بیٹھا ہے، انھیں وقت دیں ،ان سے باتیں کریں۔ کسی بزرگ کے پاس بیٹھے ہیں تو انھیں اہمیت دیں اور فون کی جھلک تک انھیں نہ دکھائیں، اگر کوئی کال آ جاتی ہے تو ان سے معذرت کر کے فاصلے پر جا کر کال اٹینڈ کریں اور اگر کسی کی زندگی یا موت کا سوال نہ ہو تو کال کرنے والے کو کہیں کہ آپ ان سے بعد میں بات کریں گے ۔والدین کے پاس بیٹھے ہوں تو اس سے بھی اجتناب کریں، اپنے فون کی بیل کو بھی بند کر دیں، چند منٹ کاوقت ہی تو آپ نکال پاتے ہیں ان کے لیے، ان چند منٹوں میں کوئی کال نہ اٹینڈ ہو گی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جب فون عام نہیں تھے تو تب بھی تو لوگ زندہ تھے بلکہ بہتر زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے سے ملتے تھے، محبت کرتے تھے اور اس کا احساس دلاتے تھے، ایک دوسرے کو اہم گردانتے تھے۔

قصور تمہارا نہیں ہے پیارے مروان، ہمارا ہے جو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ اسمارٹ فون کے بغیر ہمیں کچھ نہیں ہو گا، کسی پیارے کو وقت دینا اہم ہے نہ کہ اسمارٹ فون پر ہمہ وقت مصروف رہنا!! افسوس، ہم آج تمہیں یہ سب کچھ دے رہے ہیں اور یہی سرمایہ تم اگلی نسل کو منتقل کرو گے، ہم بیج تو چنے کے لگا رہے ہیں مگر توقع کر رہے ہیں کہ اس سے گندم کی فصل پیدا ہو گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔