بھارت کا جنگی جنون

نسیم انجم  اتوار 27 نومبر 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

کنٹرول لائن پرچار بچوں کی شہادت نے پاکستان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے تحقیق کی درخواست کرے اور اس واقعے کا  ڈوزیئراقوام متحدہ کے حوالے کیا، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ میں پہل کی جاتی ہے۔  بھارتی فوج نے کھوئی رٹہ سیکٹر میں آبادی کو نشانہ بنایا تھا، شہید ہونے والوں میں دو بہنیں اور ایک ان کا بھائی اور ایک بچی بھارتی افواج کے ظلم کا شکار ہوئی تھی، یہ بچی بھی تینوں بہن بھائیوں کی قریبی رشتے دار تھی۔

بھارت نے فائرنگ کرنے اورمعصوم لوگوں کو شہید کرنے کا ہی بیڑہ نہیں اٹھایا ہے بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے تحت ہر روز ایک نئی حرکت کرتا ہے۔ پچھلے دنوں جب جنوبی ساحلوں پر بھارتی بحریہ کی آبدوز خفیہ مشن پر تھی پاک بحریہ نے فلیٹ یونٹس کی مدد سے سراغ لگایا۔ آبدوزوں نے تعاقب کرکے پاکستانی ساحلوں سے دشمن کی آبدوز کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس واقعے کو ایک دن بھی  بھارتی ڈرون طیارہ آزاد کشمیر میں 60 میٹر اندر گھس آیا تھا، ڈرون میں ویڈیو بنانے والا کواڈ کوپٹر تھا اور یہ پاک فوج کی چوکیوں اور فوجی آپریشن کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

بھارت گزشتہ کئی سالوں سے بلا اشتعال فائرنگ کرنے میں مصروف ہے سرحدوں کے قریب بسنے والے گاؤں کے سادہ لوح نہتے اور معصوم دیہاتیوں پر اسی طرح فائرنگ کرتا ہے جس طرح فضا میں اڑنے والے معصوم پرندوں کا شکار کیا جاتا ہے، اس کے اس بزدلانہ اقدام کا پاکستان ہمیشہ جواب دیتا ہے لیکن جنگی جنون مودی کے سر پر سوار ہے۔ ان حقائق اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے بزدل بھارتی فوجیوں کو بڑا کرارا سا جواب دیا کہ ’’7 شہادتوں کے بدلے ہم نے 11 گیارہ بھارتی فوجی مار گرائے، گویا اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔‘‘

اس واقعے کے بعد مودی کو سمجھ لینا چاہیے اور بھارت کو مردانگی دکھا کر اپنے ہلاک فوجیوں کا ببانگ دہل اعلان کرنا چاہیے۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ پاک فوج سب سے سخت جان فوج بن چکی ہے اور روایتی و غیر روایتی جنگ کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ یقینا افواج پاکستان دنیا بھر کی نمبر ون فوج ہے، شکست کا لفظ اس کی لغت میں درج نہیں ہے۔

دھوکے سے وار کرنا اور اپنی طاقت کا مظاہرہ موقع بے موقع کرنا بزدلی کی نشانی ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ آمنے سامنے کھڑے ہوکر دو ٹوک بات کرتی ہیں یا جنگ کا اعلان کرتی ہیں۔ لیکن بھارتیوں کا وطیرہ روز اول سے ہی ایسا ہے اس نے پاکستان کو کبھی تسلیم نہیں کیا اسے پاکستان کی کامیابی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اب سی پیک کے منصوبے اور اس کی کامیابی نے اسے مزید چراغ پاکر دیا ہے، ہوش و ہواس اس سے رخصت ہوگئے ہیں، اس کا بس نہیں چل رہا ہے کہ وہ کس طرح کامیابی کو ناکامی میں بدل دے۔ لیکن بھارت کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اب وہ اپنی اوچھی حرکتوں سے باز رہے وقت گزر چکا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھے گا، نفرت، تعصب تو اس کی گھٹی میں شامل ہے۔ اور حقیقت سے نظریں چرانا اپنے پڑوسیوں بلکہ اپنے ہم وطنوں پر تشدد و بربریت کا مظاہرہ کرنا اسے ورثے میں ملا ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود وہ انسانیت نہیں سیکھ سکے۔

وحشی اور غیر مہذب قوم کے نام سے آج تک اپنے کارناموں کی وجہ سے پکارے جاتے ہیں اسی حوالے سے البیرونی نے لکھا ہے کہ غیروں کو ہندو قوم ناپاک سمجھتی ہے، اسی وجہ سے ان سے ملنا، جلنا، شادی بیاہ کرنا اور مل کر ایک ساتھ کھانا کھانا جائز نہیں سمجھتے ہیں، ہندوؤں میں کسی شخص کو جو ان کی قوم سے نہیں انھیں اپنے لوگوں میں شامل کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے اور یہ ایسی حالت ہے جو ہر رشتہ توڑ دیتی ہے اور کامل طور پر منقطع کردیتی ہے۔ لیکن آج کے ماڈرن زمانے میں ہندو مسلمان آپس میں شادیاں کر رہے ہیں، مسلمانوں نے ہندوؤں کے رسم و رواج اپنا لیے ہیں۔

نکاح بھی ہوتا ہے اور پھیرے بھی ڈالے جاتے ہیں۔ لباس فراش، رہن سہن، حرام، حلال کسی بھی چیز کی تفریق نہیں، ان حالات میں بھی عوام اور حکومت متعصب ہی رہی، اگر تھوڑی بہت گنجائش بھی تھی تو مودی نے آکر پوری کرکے مسلمانوں سے نفرت و درندگی کی خونی تاریخ رقم کردی مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی بھی چھین لی۔ گائے کے ذبیحہ پر اتنا ظلم پہلے کبھی نہیں سنا جتنا آج اس تنگ نظر مودی نے مسلمانوں پر ڈھایا ہے۔

ہنری کسنجر کے قول کے مطابق مسلمان اور ہندو سیکڑوں سال ایک ساتھ رہے، لیکن وہ ایک دوسرے کو قبول نہ کرسکے اس کی وجہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہندو کی شخصیت سات پردوں میں نہاں اور مسلمان کا ظاہر و باطن کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے، فکر ونظر کا یہ تضاد دونوں کے طرز تعمیر میں بھی چھلکتا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی عمارتیں اور ان پر نقش و نگار اس کا واضح ثبوت ہیں۔

ہندوستانی سرکار کی ذہنیت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی کل تھی وہ قتل و غارت پر مکمل یقین رکھتے ہیں، مار دھاڑ اور نہتے مسلمانوں کا قتل کرنا ان کا مشن ہے، قیام پاکستان کے وقت بھی ان کا یہی رویہ تھا، کانگریس، ہندو اور سکھ تنظیموں نے پاکستان کو بے شمار مصائب سے دو چار کیا، مشرقی بنگال اور مشرقی پنجاب کے کئی حصوں میں مسلمانوں کو ان کے آبائی گھروں سے نکال کر پاکستان جبراً جانے پر مجبور کیا۔

ایان اسٹیفن نے لکھا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے بہیمانہ تشدد اور مسلمانوں کا قتل و غارت منصوبہ بندی کے تحت کیا۔ ان خونی واقعات میں ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ افراد بے رحمی سے قتل کیے گئے، اس تباہی و بربادی اور قتل انسانی میں مسلمانوں کے ہاتھوں بہت کم ایسے واقعات رونما ہوئے جو بلوائیوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھے۔

ہندوستان کو پاکستان کی آزادی ایک آنکھ نہ بھائی قیام پاکستان کے وقت انھوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر غیر منصفانہ رویے کی مثال قائم کردی 31 اگست کو قائد اعظم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ’’ہندوستان کی تقسیم اب آخری اور قطعی طور پر ہوچکی ہے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ بلاشبہ اس عظیم اور خودمختار مسلم حکومت کی تعمیر میں سخت ناانصافیاں کی گئیں، جہاں تک ممکن تھا، ہم کو دبایا گیا اور ہمارے رقبے کو کم کیا گیا ہے اور ہم پر جو آخری ضرب لگائی گئی وہ باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ ہے یہ ایک غیر منصفانہ، ناقابل فہم، بلکہ مکروہ فیصلہ ہے، لیکن یہ فیصلہ غلط ہو، غیر منصفانہ و مکروہ ہو، عادلانہ فیصلہ نہ ہو، بلکہ سیاسی فیصلہ ہو، بہرحال ہم اس کی پابندی کا وعدہ کرچکے ہیں۔ لہٰذا اس کی پابندی ہم پر واجب ہے ایک زندہ قوم کی طرح ہمیں اسے قبول کرلینا چاہیے۔ یہ ہماری بدقسمتی سہی، لیکن ہمیں چاہیے کہ یہ مزید ضرب بھی ہم ہمت و ثبات اور بہ امید فلاح برداشت کریں۔‘‘

ریڈ کلف کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی فضا کو ہموار کیا گیا، جس کا ذکر قائد اعظم نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔ تاریخ ایسی شہادتوں سے بھری ہوئی ہے۔ سرحدی کمیشن کے ہندو رکن مہرچند مہاجن اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’’میرا اصرار تھا کہ لاہور پاکستان کے بجائے ہندوستان کے حصے میں آنا چاہیے، ابھی یہ بحث و مباحثہ جاری ہی تھا کہ اس دوران کمیشن کے چیئرمین ریڈ کلف نے کہا کہ تم لاہور اور کلکتہ دونوں کیسے حاصل کرسکتے ہو، میں نے اس پر احتجاج کیا، بہرحال ریڈ کلف کی ہیرا پھیری نے جو علاقے پاکستان میں شامل ہوئے تھے انھیں ہندوستان کے خطے میں شامل کردیا گیا۔

اس طرح گورداسپور کا علاقہ بھارت کو نہ ملتا تو کشمیر پر اس کا قبضہ کرنا ناممکن تھا۔ بقول جسٹس دین محمد کے کہ بھارت کو نوازنے کے لیے یہ سازش کی گئی تھی اور یہ ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے مسلم اکثریت والے علاقے بھی جو پاکستان کو ملنے چاہیے تھے وہ بھارت کے قبضے میں آگئے۔

اثاثوں اور فوجی سازوسامان کی تقسیم بھی غیر منصفانہ تھی، صدر جنرل ایوب خان Friends Not Masters میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں فوج کے پاس نہ کوئی منظم یونٹ تھا، گولہ بارود نہ ہونے کے برابر تھا حالت اتنی خراب تھی کہ شروع کے سالوں میں ہر فوجی کو مشق کے لیے صرف 5 کارتوس ایک سال کے لیے درکار تھے۔ لیکن آج معاملات برعکس ہیں، فوج کو اللہ نے پوری دنیا میں وقار عطا کیا ہے اور پاکستان خوشحالی کی طرف رواں دواں ہے۔ بھارت کی طرح کسی بھی محاذ کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار نہیں ہے۔ اسلحہ سازی میں خود کفیل ہے۔  ترکی نے پاکستان سے 50 ملین ڈالر مالیت کے 52 مشاق طیاروں کی خریداری کی بات کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔