سوئس کیس: وزیراعظم کو 8اگست کی نئی ڈیڈلائن۔ سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس / بی بی سی / خبر ایجنسیاں  جمعرات 26 جولائی 2012
 کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں، عدالت قانونی پوزیشن لے چکی، ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں، زرداری ہمارے بھی صدر ہیں لیکن قانون سے بالاتر نہیں، عدالت۔ فوٹو ایکسپریس

کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں، عدالت قانونی پوزیشن لے چکی، ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں، زرداری ہمارے بھی صدر ہیں لیکن قانون سے بالاتر نہیں، عدالت۔ فوٹو ایکسپریس

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کیلیے 8 اگست تک نئی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ تاریخ تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا، عدالت نے آبزرویشن دی کہ ریاست کے دو اداروں میں تنائو ختم کرنے کیلیے سنجیدہ اور حقیقی کوششیں ہونی چاہئیں، فاصلے ختم کرنا نا ممکن نہیں۔

کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جائے گا جس کا نقصان ملک و قوم کو ہو۔ بدھ کو این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عمل درآمد کے حوالے سے عدالت کے احکام پر شدید اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ 12جولائی کا آرڈر غیر آئینی ہے، سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق عدالتی احکام پر عملدآمد نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے آرڈر پر نظر ثانی کی درخواست کی جس پر عدالت نے انھیں باقاعدہ اپیل جمع کرانے کی ہدایت کی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس سے پہلے ایک وزیر اعظم کو غیر قانونی طور پر سزا دی گئی، 7 رکنی بینچ کو 17 رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کا اختیار نہیں، خط کے حوالے سے عدالت کا حکم نا قابل عمل ہے اور انھیں اس پر شدید تحفظات ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ پر بھی اعتراض کیا اور ان پر جانبداری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ فاضل جج کو اس کیس میں ذاتی دلچسپی تھی اس لیے اس کیس کے حوالے سے ان سے معلو مات حاصل کیں اور ان معلومات کی بنیاد پر اپنے فیصلے میں خلیل جبران کا حوالہ دیا۔

انھوں نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بینچ سے الگ ہونے کے لیے کہا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو یہ حق ہے کہ وہ تحقیقات کرے اور جاننے کی کوشش کرے۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ یہ کسی کی ذات یا انا کا معاملہ نہیں اور نہ ہی ان کا ذاتی مفاد اس کیس سے وابستہ ہے بلکہ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کا مسئلہ ہے، عدالت نے ایک قانونی اسٹینڈ لیا ہوا ہے اور اس پر عمل کیلیے سنجیدہ کوششیں ہونی چا ہئیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس دفعہ وہ کسی اور کا حوالہ دیں گے، معلومات کے لیے تو وہ انٹر نیٹ بھی استعمال کرتے ہیں، اس طرح کی باتیں خود اٹارنی جنرل کے پیشہ ورانہ مستقبل کیلیے درست نہیں۔ جسٹس آصف سعید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس ملاقات کا ذکر آپ نے کیا اس میں تو آپ نے یہ بھی کہا کہ آصف علی زرداری کو منی لانڈرنگ کے کیسوں میں 6 ماہ کی سزا ہو چکی ہے اور اس سے زیادہ سزا بھی مل سکتی ہے, ان باتوں سے جانبداری کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا چاہتے ہیں جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ بات پہلے ہی بتا دیتے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خدشہ تھا کہ وقت نہیں ملے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ نیب عدالت کو جوابدہ نہیں، این آر او کیس کے عدالتی فیصلے میں بڑی خامیاں ہیں قانون پر عمل کیا جائے اور نیب کے مقدمات کی عدالت مانیٹرنگ نہ کرے۔

اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم نے اس کو آگے لے کر جانا ہے، ہماری کمزوریوں سے ملک کا نقصان ہو تو اس سے زیادہ بد قسمتی اور نہیں ہو سکتی، ہمیں کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں، آپ سوچیں راستے نکل سکتے ہیں، ہم پہلے پاکستانی ہیں، عدالت ایک قانونی پوزیشن لے چکی ہے، ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکتی، ایڈجسٹمنٹ تو سیاست میں کی جاتی ہے۔

انھوں نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ اس مسئلے کا درمیانی حل نکالیں، حل ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں مؤقف کی تسکین ہو، اس مسئلے کا حل موجود ہے لیکن حل بتانا عدالت کا کام نہیں، اگر حل بتا دیا تو اس پر بھی اعتراض کیا جائے گا، عدالت نے وہ خط واپس لینے کا کہا ہے جو ملک قیوم نے سوئس حکام کو لکھا تھا۔

انھوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری ان کے بھی صدر ہیں اور فیصلے میں لکھ دیا جائے گا کہ صدر کو استثنٰی حاصل ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ عدالت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ صدر مملکت کا ٹرائل کیا جائے، انھیں قانون نے جو تحفظ دیا ہوا ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے، اس پرکوئی جھگڑا نہیں۔ گیلانی کیس میں اس پہلو پر بات ہی نہیں کی گئی۔ ٹی وی ٹاک شوز میں جو ماحول بنایا جاتا ہے اس سے پوری قوم خوفزدہ ہو جاتی ہے کہ پتہ نہیں عدالت کیا کرنے والی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھو سہ نے کہا عدالت کبھی سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے احمد ریاض شیخ، عدنان خواجہ اور ملک قیوم کے حوالے سے رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا کہ احمد ریاض شیخ کے معاملے میں تفتیش مکمل ہے جلد تینوں افراد کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا جائے گا جبکہ عدنان اے خواجہ کے بارے میں انکوائر ی رپورٹ ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں پیش کر دی جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے اور عدالت نیب کو ہدایات نہیں دے سکتی، باقی اداروں کی بھی اتنی عزت ہے جتنی عدالت کی ہے۔ عدالت کے سوال پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تین سال سے خط لکھنے کے حکم پر عمل نہیں ہوا اس لیے کہ یہ نا قابل عمل ہے جس پر عدالت نے آخری مہلت دیکر مزید سماعت 8 اگست تک ملتوی کر دی۔

بی بی سی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدرِ آصف علی زرداری ان کے بھی صدر ہیں لیکن قانون سے کوئی بالاتر نہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ ثنا نیوز کے مطابق جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات سدھاریں تا کہ قیاس آرائیاں ختم ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ معاملہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے تحریری حکم لکھواتے ہوئے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے معاملہ کو حل کرنے کی یقین دہانی کرانی ہے۔ ملک کے اداروں میں نام نہاد تنائو ہے امید ہے کہ ملک کے دو اہم اداروں کے درمیان دوری ختم کرنا ناممکن نہیں، توقع ہے کہ آئندہ سماعت تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔