خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا!!

حکومت، اپوزیشن و سول سوسائٹی کی ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : ایکسپریس

حکومت، اپوزیشن و سول سوسائٹی کی ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

خواتین پر تشدد ایک بدترین فعل ہے جس کی اجازت کسی بھی معاشرے یا مذہب میں نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین تشدد کا شکار ہیں ۔ پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجودیہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ ہر سال خواتین پر تشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ غیرت کے نام پر قتل و دیگر مظالم کی صورتحال بھی افسوسناک ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس صنف نازک کی حالت قابل رحم ہے اور یہاںخواتین کے خلاف جرائم میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’خواتین پر تشدد کے عالمی دن ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اپوزیشن و سول سوسائٹی کی خواتین نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

فوزیہ وقار
( چیئرپرسن پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین)
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے دنیا بھر میں عالمی دن منانے کا مقصد خواتین کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھانا اور ان پر ہونے والے تشدد کا خاتمہ ہے۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہورہا ہے، یہاں پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن، ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور خاتون محتسب سمیت دیگر ادارے قائم کیے جاچکے ہیں جو خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔ اس وقت ہم اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کا نیا قانون بنایا گیا ہے، اس حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران، ججوں اوروکلاء سے مشاورت کی جارہی ہے تاکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جاسکے اور لوگوں میں آگاہی پیدا کی جاسکے۔

ہم کوشش کررہے ہیں کہ ہیومن رائٹس کمیشن اور سول سوسائٹی کو بھی اس حوالے سے آن بورڈ لیا جائے تاکہ معاملات بہتر طریقے سے چلائے جاسکیں۔ یہ بات باعث افسوس ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین نظر نہیں آتی بلکہ وہاں جانے سے ڈرتی ہیں اور خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 34کے تحت یہ خواتین کا حق ہے، انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا اب ہم یہ مہم بھی چلا رہے ہیں کہ خواتین کو عوامی مقامات پر لانے کے لیے گھروں سے نکالا جائے۔خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز بنائے جارہے ہیں جس کے پہلے سینٹر کا سنگ بنیاد گزشتہ سال ملتان میں رکھا گیا تھا۔ آئندہ ماہ دسمبر میں یہ سینٹر اپنا کام شروع کردے گا۔

ہم دارالامان پر فوکس کررہے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع میں دارالامان موجود ہیں جبکہ بلوچستان میں 1، سندھ میں 4اور خیبر پختونخوا میں 3سینٹرز ہیں۔ رواں سال ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے لوگوں میں آگاہی مہم چلا رہا ہے جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔

2012ء کے ویمن ایمپاورمنٹ پیکیج پر 70فیصد سے زائد کام شروع ہوچکا ہے، باقی کام بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا، اس حوالے سے مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔اس فورم کے ذریعے خواتین کو میرا یہ پیغام ہے کہ آپ کے لیے بہت زیادہ قوانین بنائے جاچکے ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے حقوق کے حاصل کرنے کے لیے حکومت سے عملی اقدامات کا مطالبہ کریں۔حکومت پنجاب نے خواتین کی رہنمائی کے لیے خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جس پر کال کرکے وہ اپنے حقوق کے بارے میںمعلومات لے سکتی ہیں۔ اس ہیلپ لائن کا نمبر 1043ہے۔

فائزہ ملک
(رکن صوبائی اسمبلی و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
خواتین پر تشدد پوری دنیا میں ہوتا ہے اور اس حوالے سے تمام مہذب قومیں اپنے اپنے ملک میں قانون سازی کرتی ہیں تاکہ مظلوم طبقہ خاص طور پر خواتین پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا تسلسل نہیں ر ہا ، اس غیر متزلزل صورتحال کی وجہ سے خواتین پر تشدد کے خلاف مضبوط قانون سازی نہیں کی جاسکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت کے پانچ سال پورے کیے اور ان پانچ سالوں میں خواتین کی مضبوطی ، تحفظ اور ترقی کے حوالے بے شمار کام ہوا، سندھ میں اس حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی۔ میرے نزدیک جب تک ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوگا، خواتین پر تشدد کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔

افسوس ہے کہ خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں پنجاب سب سے پیچھے ہے۔ یہاں مسلم لیگ (ن) گزشتہ 8سال سے برسر اقتدار ہے لیکن صورتحال افسوسناک ہے۔ حکومت نے اعلانات تو بہت کیے ہیں لیکن عملی طور پر صورتحال مختلف ہے۔ ابھی تک 2012ء کے ویمن ایمپاورمنٹ پیکیج پر عملدرآمد نہیں ہوسکا اور صرف اس کے بعد ایک بل پاس کیا گیا جو ناکافی ہے۔ اس دوران خواتین پر تشدد کے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات نہیں گئے۔ صورتحال تو یہ ہے کہ ایک بل جو اس حوالے سے پاس ہوچکا ہے اس کے رولز آف بزنس ابھی تک نہیں بنائے جاسکے کہ اس پر کس نے عمل کرانا ہے، کیسے عملدرآمد ہوگا، کہاں یہ لاگو ہوگا اور کس جگہ ریلیف ملے گا۔ وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز پر بات کریں تو ابھی ملتان میں ایک سینٹر بننا شروع ہوا ہے جسے سال سے زائد وقت ہوگیا ہے لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ 36اضلاع میں یہ سینٹرز کب اور کیسے بنیں گے اورا س میں کتنا وقت لگے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جو بل پاس ہوچکا اس کے رولز آف بزنس بنائے جائیں اور جب تک یہ وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز نہیں بنتے ان کے لیے متبادل راستہ نکالا جائے۔اس کے لیے دارالامان موجود ہیں جنہیں بے نظیر کرائسس سینٹرز کا نام دیا گیا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد یہ سینٹرز صوبائی حکومت کو منتقل ہوچکے ہیں، ان میں بہت ساری سہولیات موجود ہیں، ان کو مزید بہتر کرکے ، چیزوں کا اضافہ کرکے ’’ون ونڈو ‘‘ یا ’’ون روف‘‘ آپریشن کے قابل بنایا جائے تاکہ یہاں خواتین کو ریلیف دیا جاسکے۔ اگر ہم وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز کی تکمیل کا انتظار کرتے رہے تو مزید خواتین محرومیوں کا شکار ہوسکتی ہیں۔

اسمبلیوں کی حالت تو یہ ہے کہ یہاں عجلت میں ہی بل پاس کروا لیے جاتے ہیں جبکہ لوگوں کو خود بل کے حوالے سے علم نہیں ہوتا۔ بل پاس ہونے کے بعد پھر اس میں تاخیر ہوجاتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی خواتین کو ایمپاور کرنا چاہتی ہے؟ میرے نزدیک سخت قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد اور لوگوں کو آگاہی دینا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جب انہیں پکڑے جانے اور سزا ملنے کا ڈر ہوگا تو جرائم میں کمی آئے گی۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس کی مجبوریوں کی وجہ سے حکومت نے ویمن پروٹیکشن بل بنایا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ افسوس ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے قانون سازی کررہے ہیں جبکہ حکمران صحیح معنوں میں عوام کے لیے کچھ نہیں کررہے۔

ممتاز مغل
(نمائندہ عورت فاؤنڈیشن )
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے دنیا بھر میں 25نومبر سے 10دسمبر تک 16دن منائے جاتے ہیں جن کا آغاز 1990ء میں کیا گیا اور اس کا سلوگن ’’گھر میں امن، دنیا میں امن‘‘ ہے۔ رواں سال 25سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں سلور جوبلی منائی جارہی ہے اور اس کا سلوگن ’’محفوظ تعلیم سب کے لیے‘‘ خصوصاََ لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری قومی تعلیمی پالیسی اور صوبائی تعلیمی پالیسیاں بہتر نہیں ہیں۔

اس سال پاکستان میں 6سے 11سال کی عمر تک کی 16ملین بچیاں پرائمری سکول کی تعلیم سے محروم رہیں گی۔ گزشتہ دس سالوں میں 550سکولوں کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ خواتین پر ہونے والے تشدد پر نظر ڈالیں تو تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔ رواں سال خواتین پر تشدد کے 9ہزار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اب تشدد صرف تشدد نہیں بلکہ شدید تشدد کی شکل اختیار کرگیا ہے، رواں سال ہونے والے تشدد میں خواتین کے مختلف اعضاء کاٹ دیے گئے، پنچائیتوں کے فیصلوں میں ونی، عورت کو بدلے میں دے دینا، ریپ و دیگر قسم کے تشدد شامل ہیں۔

اس سال غیرت کے نام پر 178قتل ہوئے جو افسوسناک ہے۔ اس وقت UNDPکے سسٹین ایبل گول نمبر4جو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہے اس پر کام ہورہا ہے تاکہ تعلیم کے ذریعے صنفی مساوات، امن کی ثقافت اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دیا جاسکے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے، گزشتہ سال مفت اور لازمی تعلیم کے حوالے سے قانون سازی ہوئی اور پھر اس کے تحت ایجوکیشن پالیسی مرتب کرنا تھی لیکن ابھی تک ایسی پالیسی نہیں بنائی جاسکی لہٰذا محکمہ تعلیم کو اس حوالے سے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق راجن پور، بھکر، مظفر گڑھ سمیت پورے جنوبی پنجاب میں شرح خواندگی کم ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کم عمری کی شادی کے حوالے سے بات کریں تو شادی کی عمر 16سال رکھی گئی ہے جبکہ تعلیم کا آخری سال بھی 16ہے لہٰذا شادی کی عمر بڑھا کر 18سال کردی جائے تاکہ لڑکیاں کم از کم16سال کی مکمل تعلیم حاصل کرسکیں۔ ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے، سٹریٹ کرائم، سکولوں اور پارکوں میں خود کش دھماکے، کالجوں یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ میں لڑائی و دیگر سیکورٹی مسائل کی وجہ سے والدین پریشان ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم کے حصول کے لیے بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آج بچوں کو تعلیم کے حصول کے بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے۔معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے، حکومت نے تعلیم کے لیے 4فیصد بجٹ مختص کیا ہے جو کم ہے لیکن اس بجٹ سے جس حد تک ممکن ہے معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ قومی اور صوبائی ایجوکیشن پالیسی مرتب کی جائے، اس میں اساتذہ، والدین سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور انہیںا س میں شامل کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے ویمن ایمپاورمنٹ پیکیج 2012ء، 14ء اور 16ء کاغذوں کی حد تک بہت اچھے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ ان میں دیے جانے والے منصوبوں کے لیے بجٹ نہیں دیا گیا اور نہ ہی مانیٹرنگ سسٹم بنایا گیا ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں عملدرآمد کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے تشدد کے حوالے سے بل پاس کیا، یہ بہترین ہے لیکن اس پر کام کرنے کے لیے بجٹ نہیں دیا گیا۔

آئمہ محمود
(نمائندہ سول سوسائٹی)
خواتین پر تشددایک عالمی مسئلہ ہے اوردنیا بھر میں ہر طبقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت اپنی عمر کے مختلف حصوں میں کسی نہ کسی جبر اور ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔

پاکستان میں خواتین پر تشدد کی صورتحال افسوسناک ہے اور اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر سماجی تنظیمیں نہ صرف آواز اٹھاتی ہیں بلکہ انہوں نے حکومت پر اس حوالے سے قانون سازی ، خواتین کی تعلیم، صحت، ترقی اور خود مختاری پر زور دیا ہے۔ حکومت نے قانون سازی بھی کی ہے، ورک فورس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا ہے، تعلیم کے میدان میں لڑکیوں کی کارکردگی لڑکوں سے بہتر ہے مگر اس سب کے باجود خواتین کو تشدد کا سامنا ہے۔ جبری شادی، جسمانی تشدد، 21ویں صدی میں بھی جہیز کے مسائل، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ غرض کے گھر سے معاشرے تک خواتین کو استحصال کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے کیا اقدامات کیے جائیں جس سے تشدد کا خاتمہ ہوسکے۔

کیا تشدد صرف قانون سازی یا خواتین کی خود مختاری سے ممکن ہے؟ اب ہمیں اپنی حکمت عملی کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ان اقدامات کے باجود تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ میرے نزدیک قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ آگاہی کے عمل کا موثر ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پنجاب میں جب خواتین پر تشدد کے حوالے سے قانون سازی کی گئی تو ایک خاص طبقے نے مذہب کے نام پراس کی مخالفت کی۔ ہماری اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ہمارا مذہب ظلم و تشدد کے خلاف ہے۔

میرا تمام مذہبی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک واضح حکمت عملی بنائیں اور تمام جماعتوں کی جانب سے ایک موقف آنا چاہیے تاکہ اس سے تشدد کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ خواتین پر ظلم کی حقیقت یہ ہے کہ تشدد کو ہمیشہ سے عورت کی حیثیت کو کم کرنے اور اسے مرد کے ماتحت کرنے کے لیے استعمال کیا گیااور پھر اسی لیے ہی اسے تعلیم، صحت ،روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم کیا گیا۔ خواتین پر تشدد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں اور انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لہٰذا خواتین کے بارے میں یہ سوچ اپنائی گئی ہے کہ وہ مردوں کی مرہون منت ہیں اور مرد یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو مرضی سلوک روا رکھیں ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ مرد ہر وقت خواتین پر تشدد کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں تو جہیز کم لانے پر بھی خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ تعلیم کا حق مانگنے پر انہیں تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اپنی پسند کی شادی کرنے پر انہیںغیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔

ان سب مظالم کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ہمیں کئی پہلوؤں اور مختلف سطحوں پر کام کرنا ہوگا۔جس میں خواتین پر تشدد کے خلاف سخت قانون سازی، اس پر عملدرآمد ، خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانا، فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ، شادی میں مرضی کا حق، جہیز جیسی لعنت کا خاتمہ و دیگر چیزیں شامل ہوں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں بھی حکومت سے بات کرنے اور قانون سازی پرتوجہ دے رہی ہیں لیکن معاشرتی رویوں اور نوجوانوں کی تربیت پر ان کی توجہ کم ہے لہٰذا مسائل کے حل کے لیے سب کو اپنے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔

اس کے علاوہ اگر حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے اپنی ترجیحات میں خواتین کے مسائل شامل کرنے چاہیے کیونکہ اگرہمارے ملک کی آدھی آبادی پر تشدد ہوگا تو پھرہم معاشرے میں امن قائم نہیں کرسکتے۔ میرے نزدیک خواتین پر تشدد میں خاتمے کے لیے خواتین کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا چاہیے کیونکہ جب تک گنہگار کو سزا نہیں ملے گی تب تک نظام درست نہیں ہوسکتا۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے میڈیا کا کردار بھی اہم ہے لہٰذا میڈیا کے موثر اور مثبت کردار کو فروغ دے کرخواتین پر تشدد میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔

خواتین کو تشدد سے بچانے کا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں ظلم اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوگا اور یہاں پیار اور محبت کی بنیاد رکھی جائے گی اور ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا ۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے اور انہیں ایمپاور کرنے کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ پنجاب حکومت نے ابھی تک 2012ء کے ویمن ایماورمنٹ پیکیج پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اس کے علاوہ ایک سال پہلے ملتان میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر کی بنیاد رکھی گئی تھی جو ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔

افسوس ہے کہ حکومت عالمی کنونشنز کے پریشر کی وجہ سے نمائشی اقدامات اور اعلانات کررہی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ ویمن ایمپاورمنٹ کے منصوبوں پر بھی اسی جذبے کے ساتھ کام کریں تاکہ منصوبوں کو وقت سے پہلے مکمل کرکے خواتین کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔افسوس ہے کہ ہم صنفی برابری کے حوالے سے دنیا کے 144ممالک میں سے 143ویں نمبر پر ہیں جبکہ ہمارے بعد صرف یمن ہے۔ شام جیسے ملک کی صورتحال ہمارے سے بہتر جو ہماری حکومت، قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے لیے افسوس کا مقام ہے۔

خواتین کے تمام مسائل کا حل حکومتی سطح پر ممکن نہیں ہے۔یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ خواتین کو معاشی خود مختاری، تعلیم ، صحت اور بنیادی حقوق فراہم کرکے انہیں تشدد سے بچائیں ۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی میں خواتین کے کردار کو بڑھایا جائے، انصاف اور قانون فراہم کرنے والے اداروں میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے اور سیاسی عمل میں انہیں شامل کیا جائے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے اور انہیں خودمختار بنانے کا سفر طویل ہے لیکن اگر اس پر سنجیدگی کے ساتھ کام کیا جائے خواتین کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔