صحافت ایک مشن

عابد محمود عزام  اتوار 27 نومبر 2016

قوموں کی تعمیر و تخریب میں صحافت جو کردار ادا کرتی ہے، وہ کسی سمجھدار انسان سے مخفی نہیں۔ قوموں کی سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور اقتصادی زندگی پر ہمیشہ سے صحافت کے منفی ومثبت اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ صحافت ہر دور میں طاقتور، بااثر اور متاثر کن حقیقت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیر ادب نے ہمیشہ اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔  حقیقی جمہوری ارباب حکومت ہمیشہ اہل صحافت کی مثبت تنقید اور تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

صحافت کو معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ کسی بھی جمہوری حکومت میں تمام اہم اداروں کی بقاء اور سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ناگزیر ہے۔ صحافت ایک سماجی خدمت ہے۔ سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنا، صحت مند ذہن اور نیک رجحانات کو پروان چڑھانا، صالح معاشرے کی تشکیل کرنا، حریت اور آزادی کے جذبے کو فروغ دینا، جذبہ ہمدردی، رواداری، الفت و محبت کو فروغ دینا اور عوامی مشکلات و مسائل کی آئینہ داری کرنا ارباب صحافت کا بنیادی فریضہ ہے۔

عوام کے مسائل اور جذبات کو اجاگر کرنا اور ان کی جانب ارباب حکومت کی توجہ مبذول کروانا بھی آزاد صحافت کا طرہ امتیاز ہے۔ صداقت اور راست بازی صحافت کی وہ بنیادی خصوصیات ہیں، جو معاشرے میں اس کی اہمیت کے غماز ہیں۔

عوام میں غوروفکر کی صلاحیت پیدا کرنا، تعلیم کی عزت و عظمت قائم کرنا اور ان کے خیالات و احساسات کی ترجمانی کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں قوم کا ساتھ دینا صحافت کے فرائض میں شامل ہیں۔ صحافت کے فرائض کے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام خورشید رائے دیتے ہیں: ’’صحافت ایک عظیم مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے۔ عصرحاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے، تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔ عوام کی خدمت اس کا مقدس فرض ہے۔ اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

مولانا ظفر علی خان نے صحافت کو ملت و قوم کی خدمت کے لیے منتخب کیا۔ ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ نے منصہ شہود پر جلوہ گرہوکر اہل برصغیر کی توجہات کو اپنی جانب مبذول کیا۔ ’’زمیندار‘‘ کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ سرحد پر لوگ ایک آنہ دے کر خریدتے تھے اور ایک آنہ دے کر پڑھواتے تھے۔   جب کہ مولانا محمد علی جوہر نے بھی کافی غوروخوض کے بعد صحافت کو ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریہ کی یوں وضاحت کرتے ہیں: ’’صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔

اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت کو ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ان کے اخبار ’’الہلال‘‘ نے برصغیر میں بیداری کی روح پھونکی، آزادی کی چنگاری سلگائی، گوروں کے کشتوں کے پشتے لگائے اور انھیں دیس نکالا دے کر چھوڑا۔ صحافت سے متعلق ان کا نقطہ نظر ملاحظہ ہو: ’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں، بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے لیے نہیں، بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔

عیش کے پھول نہیں، بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈھتے ہیں۔ ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سواء کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہے، وہ اخبار نہیں، بلکہ اس فن کے لیے ایک دھبہ ہے اور سر تا سر عار ہے۔ ہم اخبار نویسوں کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی سونے کا سایہ بھی اس کے لیے سم قاتل ہے۔‘‘

صحافت محض ایک پیشہ یا ایک ذریعہ معاش نہیں، بلکہ ارباب صحافت پربہت سی قومی و مذہبی ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں خیر اور بھلائی کو فروغ دینا اور شر اور برائی کا سدباب کرنا پریس کی ذمے داری ہے۔ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں سب سے اہم ذمے داری غلطی سے پاک اور ایمان داری سے خبر دینا ہوتا ہے۔ صحافتی ذمے داریوں کے دوران کئی ایسے موقع بھی آتے ہیں، جہاں سچ لکھنا یا بولنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور صحیح صحافی وہی ہے جو ہر حال میں حق اور سچ کا ساتھ دے۔

آزادیٔ صحافت کے پرچم کوسر بلند رکھنے کے لیے ان گنت نامور ارباب صحافت نے اپنی عمر عزیز کے بیش قیمت ترین ایام پس دیوار زنداں گزارے۔ ایسا صحافی جو اپنے قلم سے سچائیوں کی تصویر کشی کرتا ہے اور معاشرتی بگاڑ اور فساد کے خلاف اپنے قلم کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ قوم کا عظیم سرمایہ ہے اور ایسا صحافی جو مفادات کی خاطر کام کرے اور معاشرے میں بدی کی قوتوں کا آلہ کار بنے، وہ صحافت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ مفادات سے پاک ایک توانا اور آزاد صحافت ہی ایک صحت مند اور ترقی پذیر معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔ صحافی بے غرض ہو تو اس کے قلم سے لکھا گیا ہر ہر لفظ اثر رکھتا ہے، لیکن جب وہ مفادات کی خاطر اپنے قلم اور ضمیر کو بااثر طبقات کے ہاں رہن رکھ دے تو اس کی چیختی چنگھاڑتی سچائیاں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔

صحافت کے شعبے میں دیانتدار ، ایماندار اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے والے صحافیوں کی ہر گز کمی نہیں، لیکن صحافت میں کچھ لوگ ایسے بھی شامل ہوگئے ہیں، جو صحافت کے اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں۔ صحافی مجموعی طور پر غیرجانبدار ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ میڈیا پر غیرجانبداری کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مختلف جماعتوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں، جن کے مفادات مختلف جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ حق بات کرنے کے بجائے مخالف جماعت پر بے جا الزامات لگانا اور اپنی جماعت کے تمام عیوب کو چھپانا ان ’’صحافیوں‘‘ کا وطیرہ ہوتا ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیرجانبداری کی دھجیاں اڑا کر بھی یہ لوگ خود کو صحافی کہتے ہیںاور کچھ ایسے لوگ بھی صحافت میں شامل ہوگئے ہیں، جن کا صحافت سے وابستہ ہونے کا مقصد صرف اور صرف مفادات حاصل کرنا ہے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا اور ان کا حل کیا ہے۔

اہل صحافت ایک کا گروہ وہ بھی ہے جس کا مطمح نظر عوامی مقبولیت اور عوام کی تحسین وآفرین کا حصول ہے، یہ گروہ عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے اور ہر ایسی بات کہنے سے پرہیز کرتا ہے جس سے عام لوگوں کی تعریف وتوصیف حاصل نہ ہوسکے۔ حالانکہ صحافی کی حیثیت ایک قائد کی طرح ہوتی ہے، جو صرف وہی بات کرے جو قوم کے مفاد میں ہو، جس سے معاشرے میں بہتری آنے کی امید ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔