اخراج دنداں کے بعد

عبدالقادر حسن  منگل 29 نومبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں کئی دنوں سے شور مچا رہا تھا اور غیر حاضریاں بھی کر رہا تھا وجہ یہ تھی کہ بیمار دانتوں نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ وہ میرے اندر شور مچاتے تھے اور میں کالم میں غیر حاضریاں کر کے اپنے آپ کو اور قارئین کو بھی تنگ کرتا تھا اور میرا شور و شغب چونکہ کالم چوری پر پھیل جاتا تھا اس لیے میں یا تو کالم چوری کر جاتا تھا یا چھٹی کر لیتا تھا یا پھر دڑوٹ جاتا تھا یعنی چپ ہو جاتا تھا اور اپنے آپ کو ایک تکلیف دہ خاموشی کے حوالے کر دیتا تھا۔ میرے لیے کالم نہ لکھ سکنا ایک سانحہ ہوتا ہے اگرچہ یہ سانحہ زیادہ تر قارئین پر گزرتا ہے جنھیں اسے برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن انھیں اس تحریر سے بچا کر میں گویا ان پر بھی مہربانی کرتا تھا اور قارئین اور میں دونوں خوش ہوتے تھے۔

بہرکیف کالم نویسی میرا پیشہ اور اسے پڑھنا قارئین کی مجبوری کہ وہ کچھ خرچ کر کے اخبار منگواتے ہیں اور اسے نہ پڑھیں تو اس کی قیمت بے کار جاتی ہے۔ جیسا کہ میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں کہ میں ان دنوں درد دنداں کے عذاب میں مبتلا ہوں لیکن اس سے آپ کو کیا۔ میں نے لاہور شہر کے کئی معالج حضرات سے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ دانت نکالنے کے بجائے درد دنداں کی کوئی دوا دے دیں لیکن کسی ڈاکٹر کے پاس تسلی کے حرف تو تھے اور بہت تھے مگر علاج ایک ہی تھا جس سے میں دہشت زدہ تھا۔ دانت نکلوانا میرے لیے ایک دہشت پیدا کرنے والا علاج ہے اور اس کی ایک تاریخ ہے مگر وہ سب ذاتی معاملہ ہے البتہ میں نے جس ڈاکٹر صاحب سے بھی عرض کیا کہ اخراج دنداں کی جگہ کوئی دوا عنایت کر دیں جواب ملا کہ کچھ وقت کے لیے درد دنداں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا حتمی علاج ایک ہی ہے جو تاریخی ماہرین نے تجویز کر رکھا ہے۔

یعنی ’’علاج دنداں اخراج دنداں‘‘ معلوم ہوا کہ ہماری قدیم طب کی طرح جدید طب بھی اخراج دنداں کے علاوہ کوئی علاج نہیں جانتی اور دانت نکالنے کے اوزار رکھتی ہے جن کی مدد سے کسی دانت کو بھی ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے اور وہ بھی ایک آدھ منٹ میں۔ اس آلے نے باغی دانت کو اپنی گرفت میں لیا ایک جھٹکا لگایا اور دانت باہر ایک پلیٹ میں جس کے اندر گرنے پر وہ شور مچاتا ہے یعنی ایک آواز نکالتا ہے اور ڈاکٹر صاحب مطمئن ہو کر اپنا اوزار اور ہاتھ دھوتے ہیں اور پھر مریض کی جیب پر حملہ کر کے اسے خالی کر دیتے ہیں۔ دنیا میں سب سے مہنگا علاج دانتوں کا ہوتا ہے۔ جب کبھی کسی حکومتی وفد میں کسی غیر ملک جانے کا اتفاق ہوتا تو ہمارے متعلقہ سفارت خانے کے حکام یہ ضرور کہتے کہ دانتوں کا خیال رکھیں ہم آپ کا ہر علاج کروا سکتے ہیں مگر دانتوں کا نہیں کہ ہمارے پاس اتنے فنڈ نہیں ہیں اور انسانی جسم کے کسی بھی عضو کا علاج اتنا مہنگا نہیں ہوتا جتنا دانت کا۔

جب کبھی میں اپنے کسی سفارت کار سے یہ بات سنتا تو مجھے اپنے گاؤں کا دانتوں کا ڈاکٹر یاد آتا۔ ہمارے گاؤں میں اخراج دنداں کا ہنر صرف سناروں کو آتا ہے جو ایسے نازک ہتھیار رکھتے ہیں جو سونے چاندی کی طرح دانتوں کو بھی قابو کر لیتے ہیں اور ایک جھٹکے سے باہر نکال کر سونے چاندی کی بھٹی میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ اب یہ ایک بے کار عضو ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک سنار کا بیٹا جو کسی شہر میں پریکٹس کرتا رہا تھا اپنے ساتھ کچھ ادویات بھی لے آیا جو درد دنداں میں کام آتی تھیں چنانچہ زیوروں کی طرح دانتوں سے بھی اس کی آمدنی خوب ہوتی تھی۔ دانت کا اخراج اور کسی زیور کی تیاری دونوں برابر کی نفع بخش تھیں۔

یہ سب عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جدید ڈاکٹروں کے پاس بھی وقتی طور پر دانت کے درد کا علاج موجود ہے لیکن اس کا حتمی علاج وہی پرانا ہے یعنی اخراج دنداں۔ ان دنوں میرے دانتوں میں درد شروع ہوا تو مجھے دانتوں کے ڈاکٹروں کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا۔ یہ ڈاکٹر کے پاس درد کی دوا موجود تھی مگر دانتوں کا حتمی علاج صرف اخراج دنداں ہی بتایا گیا چنانچہ میں نے دانت کے درد سے تنگ بلکہ عاجز آ کر اسے نکلوا دیا اور اب آرام کے ساتھ دن رات بسر کر رہا ہوں اور پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ سب اخراج دنداں کی وجہ سے ہے اس بابرکت علاج نے جو چند منٹ کا تھا اور اس سے قبل مریض دانت کو ڈاکٹر صاحب نے تیار کر لیا تھا مجھے ایک اذیت سے نجات دلا دی۔ پہلے تو دانت کے علاقے کو سن کر دیا گیا پھر اس بے جان بنا دینے والے علاقے میں آپریشن کیا گیا اور بس ایک آدھ منٹ میں دانت باہر اور اس کے ساتھ درد بھی ختم گویا میری زندگی لوٹ آئی اور میں بھلا چنگا ہو کر اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں لگ گیا۔ یہ اچھا برا کالم بھی اسی علاج کی برکت سے لکھ پایا ہوں جو اب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ درد دنداں کے علاج میں میرا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دانت نکلوا دیں اور باقی کے دانتوں پر گزارا کریں۔ علاج دنداں اخراج دنداں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔