مستحکم، خوش حال، جمہوری پاکستان

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 29 نومبر 2016

قیادت کرنے والا قوم کا لیڈر ہو، فوج کا کمانڈر یا  کسی بھی شعبے میں رہنمائی کرنے والا ہو اس کا اصل امیج تو دراصل وہ ہے جو تاریخ اس کے لیے بناتی ہے۔ تاریخ میں مثبت اور اعلیٰ مقام بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ایک کُل کی تشکیل و تکمیل چھوٹے بڑے کئی اجزا کے ساتھ ہوتی ہے۔ وقت کے ہر لمحے اور انسان کے ہر قدم، ہر فیصلے کی اہمیت ہے۔ تاریخ کی ایک چھوٹی سے تصویر بھی کسی دور کے کئی وقفوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

پاکستان کے پندرھویں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بعد پاک فوج کی سپہ سالاری کا اعزاز جنرل قمر جاوید باجوہ کو مل رہا ہے۔

جنرل راحیل شریف کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ماضیٔ قریب اور زمانہ حال کے کئی واقعات اور حالات کی کئی جہتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اپنی قیادت کے تین سالہ  دور میں جنرل راحیل شریف پاک افواج کے افسروں اور سپاہیوں کے لیے وطن سے بے انتہا محبت، جرات و بہادری اور بہترین پروفیشنل ازم کی علامت بن گئے۔ ان کی وجہ سے فوجیوں کے عزم و مورال اور عوام کے اعتماد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ جنرل راحیل شریف کو خراج ِ تحسین دراصل پاکستان آرمی کو خراجِ تحسین ہے۔

شہیدوں کے خاندان کے وارث راحیل شریف کی شخصیت یقین، عزم، حوصلے، بہتر منصوبہ بندی، ایثار و قربانی، وطن سے محبت، اللہ پر پختہ ایمان و بھروسے کا پیکر ہے۔ انھوں نے پاکستان کو درپیش کئی انتہائی مشکل چیلنجز کا نہایت جرات و بہادری کے ساتھ سامنا کیا۔ قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی نتیجہ خیز کوششوں کی وجہ سے جنرل راحیل شریف نا صرف پاکستان آرمی بلکہ پاکستانی قوم کا فخر بن گئے۔

جنرل راحیل شریف کی تین سالہ سپہ سالاری کے  پہلے سال میں ہی واضح ہوگیا تھا کہ تاریخ میں ان کا ذکر سنہرے اور روشن الفاظ میں ہوگا۔ تاریخ جہاں ان کی سپہ سالاری میں پاکستان کی مسلح افواج کے کارناموں کو بیان کرے گی۔ وہیں ان کے لیے اس محبت کا ذکر بھی نمایاں ہوگا جو پاکستانی فوج کے افسروں اور سپاہیوں اور پاکستانی عوام کے دلوں میں رچ بس چکی ہے۔

نومبر 2013ء سے نومبر 2016ء کے درمیان کیسے کیسے ناقابلِ یقین واقعات کا مشاہدہ ہوا۔ اندرونِ ملک دہشت گردی کے خلاف دنیا کو حیران کردینے والی کامیابیاں ملیں۔ بیرونِ ملک پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے نئی راہیں تلاش کی گئیں۔

اس حوالے سے15جون 2015ء بھی ایک بڑا دن تھا۔ اس دن روس کے دارالحکومت ماسکو میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو  روسی فوج کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا جارہا تھا۔ کہاں 1979ء کے بعد وہ دن جب افغانستان پر سوویت یونین کی فوجی یلغار کے بعد سوویت افواج کا اگلا ہدف پاکستان کو قرار دیا جارہا تھا۔ کہاں یہ دن کہ خود روسی افواج  ماسکو میں مہمان داری کرتے ہوئے پاکستان کے سپہ سالار کو سلامی پیش کررہی تھیں۔

جس دن جنرل راحیل شریف کا ماسکو میں پرتپاک استقبال ہوا وہ دن پاکستانی قوم کے لیے بہت خوشی اور اظہارِ تشکر کا دن تھا۔ مزید خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ روسی حکومت کی جانب سے سی پیک میں شمولیت اور گوادر پورٹ سے استفادے کی خواہش پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور نا صرف چین و پاکستان کی معیشت کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہوگا بلکہ سمندر سے دور ایشیا کے کئی ممالک کے لیے سود مند ہوگا۔ اس لحاظ سے سی پیک کو بجا طور پر گیم چینجر کہا گیا ہے۔ سی پیک کی پاکستانی علاقوں میں تعمیر میں حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ حصہ پاکستان کی فوج کا ہے۔ سی پیک کے لیے سڑکوں کی تیز رفتار تعمیر میں جنرل راحیل شریف کی دلچسپی  نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کے لیے وہ بھی ایک بڑا دن تھا جب 13نومبر کو پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف  پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف، پاکستان میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ اور دیگر سول و فوجی شخصیات کے ساتھ مل کر بحری جہازوں کو گوادر پورٹ سے الوداع کہہ رہے تھے۔

جنرل راحیل شریف کی کامیابیاں ایک فرد کی کامیابیاں نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کی حکومت، مسلح افواج اور پوری پاکستانی قوم کی کامیابیاں ہیں۔ جنرل صاحب کو ملنے والی شاندار کامیابیاں ممکن بھی اسی لیے ہو سکیں کہ ان کی زیرِ کمان پاک فوج، پیشہ ورانہ بہترین مہارت، وطن کی محبت اور ملک و قوم کے لیے پر طرح کی قربانی کے جذبوں سے سرشار ہے۔  پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج سے بہت محبت کرتی ہے، یہ قوم اپنی فوج پر بھروسہ کرتی ہے۔

پاکستان کو معیشت کے میدان میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے درمیان کافی فرق ہے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں  کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ملک میں ٹیکس بیس میں بہت زیادہ توسیع کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہمارا ملک بہت پیچھے ہے۔ سماجی بہتری کے دیگر کئی شعبوں  میں پاکستان کا شمار کم نمبروں والے ممالک میں ہوتا ہے۔

ان سب مسائل کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی، بدامنی اور جرائم کے خلاف کئی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہچانے کے  لیے  بھارت کی کھلی اور چھپی مداخلت، افغانستان میں بعض عناصر کے پاکستان مخالف رویوں، بعض دیگر ممالک کی پاکستان میں پراکسی وار کے باوجود، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں امن دشمنوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ یہ کامیابیاں عوام، حکومت اور فوج کے واضح عزم کا اظہار ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پاکستان کو مستحکم، خوشحال ملک بنانے اور پاکستان میں جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے حکومت اور ریاست کے سب اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور بھرپور تعاون رہے گا۔

جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ وہ قوم کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر رہیں گے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ سول سروس یا مسلح افواج سے ریٹائرڈ ہونے والے افسران نے حکومتی سطح پر ذمے داریاں سنبھالیں۔ میڈلین البرائٹ کے بعد امریکا کے وزیر خارجہ مقرر ہونے والے کولن پاول یونائٹڈ اسٹیٹس آرمی کے فور اسٹار جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ پاکستان میں کئی بیوروکریٹس اور جنرل ریٹائر منٹ کے بعد حکومت کا حصہ بنے۔

توقع ہے کہ قوم کے ایک عظیم فرزند راحیل شریف  کی صلاحیتوں سے زیادہ استفادہ کے لیے ان کے شایان شان راہیں ڈھونڈی جائیں گی۔

ساتھ ہی ہم یہ بھی کہیں گے کہ ملکی امور میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے انھیں اپنی کوئی  سیاسی جماعت نہیں بنانی چاہیے۔

پاکستان کو مستحکم اور خوشحال ملک بنانے، پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کے لیے ا نتہائی مثبت انداز میں کردار ادا کرنے پر شکریہ راحیل شریف!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔