اشتراکیت کا نظریہ

زبیر رحمٰن  منگل 29 نومبر 2016
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

فرانس کے سینٹ سائمن کے مطابق پہلے اشتراکیت بعد میں اشتمالیت آئے گی، ان کا کہنا تھا کہ اشتراکیت ریاستی آلات کے ذریعے نافذ ہوگی۔ کارل مارکس نے اسی تھیوری کو اپنایا جب کہ برطانیہ کے را برٹ اووین اورفرانس کے جارج فریرئیر نے آزاد سوشلزم کی بات کی کہ انقلاب کے بعد محنت کشوں، شہریوں اور پیشہ ور شعبوں میں کام کرنے والوں کو اقتدار حوالے کرنا ہے۔

ریاستی جبر میں عوام کی حکمرا نی کے بجائے کارکنان کی حکمرانی عوام پر مسلط ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اشتمالی معا شرے کی جانب پیش قدمی کرنے کے بجائے سرمایہ داری پلٹ آ تی ہے۔ میخائل ایلگز نڈربا کونن نے کہا تھا کہ ریاست جبر کا ادارہ ہے ۔

اشتراکیت کے چند نظریاتی پہلو اور سماجی ارتقا‘‘ کے نام سے رانا یوسف خان نے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں تاریخی مادیت، قدیم اشتمالیت، غلامی نظام ، ریاست، جاگیرداری، سرمایہ داری اور پھر امداد باہمی کا آزاد معاشرے کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم اشتمالی سماج طبقاتی تقسیم کی لعنت سے پاک تھا۔ یعنی کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سب مل کر رہتے تھے، پھلدار درختوں پر بسیرا کرتے تھے، پھلوں، گریوں اور جڑوں وغیرہ پرگذارہ ہو تا تھا، مگرخاص بات یہ تھی کہ سارے وسائل اور پیداوار سارے لوگوںکے تھے۔ بعد ازاں قبائل نے گلہ بانی کو اپنا پیشہ بنا لیا اوراب یہ قبیلے ماضی کے دور سے ایک قدم آ گے نکل گئے۔

ان کے پاس زیادہ گوشت اورکھالیں تھیں بلکہ ان کے علاوہ دودھ،اون کے دھا گے اور اونی کپڑے بھی تھے ۔آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ تاریخی حالات کا ارتقا جس میں اس دور کے آخری حصے میں محنت کی سماجی تقسیم کو جنم دیا، پیداوار کو بڑھا دیا اور پیداوار کے ذرایع کو وسیع کیا، جس کے نتیجے میں غلامی کا ظہور ہوا۔ پیداواری طریقوں کی ترقی نے یہ ممکن بنادیا کہ غلاموں کی قوت محنت سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اب مالک کے لیے غلام منافع بخش ہوگیا تھا۔ محنت کی پہلی سماجی تقسیم ہے جس نے سماج کے اندر پہلا شگاف پیدا کیا۔

مصنف لکھتے ہیں کہ پیداواری حالات کی اس تبدیلی نے جہاں عورت کا سماجی اور سیاسی درجہ گھٹا دیا اور ذاتی ملکیت کو جنم دیا۔ جوڑا، جوڑا شادی نے بھی اس کی بنیاد بنی۔ جوڑا شادی سے اس خواہش کا پیدا ہونا تھا کہ یک زوجگی ہو۔ ذاتی ملکیت نے مرد کی اس خواہش کو اور تیزکردیا کہ میری جائیداد میرے مرنے کے بعد بھی اسی خاندان میں رہے یعنی میرا بیٹا اس کا ما لک بنے۔اس ازدواجی ادارے نے عورت کے تمام مجلسی، سیاسی اور شہری حقوق ختم کردیے۔اس کے باقیات آج بھی ہمارے ملک میں بڑے واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔

جیسا کہ ہوٹلوں،کرکٹ اور فٹ بال کے میدانوں اور چوراہوں پر عورتیں نظر نہیں آتیں ۔ یہ درست ہے کہ مشرقی جرمنی سے رومانیہ، بلغاریہ اور روس سے ایشیاء کوچک، کوہ قاف، بالٹک ریاستیں، وسطی ایشیا، منچوریا اورمنگولیا سے چین، ویتنام ،کمبوڈیا، لاؤس، شمالی کوریا تک یعنی دنیا کی ایک تہائی آبادی اورخطے میں اشتراکیت را ئج ہوچکی تھی۔ پھر ان مما لک کی سرحدوں کو ختم کرنے اوراشتمالی نظام قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ جب اشتمالیت کی پیش قدمی نہیں ہوئی تو طبقات پیدا ہوئے اور رد انقلاب کے تحت یعنی ان ملکوں میں سرمایہ داری پلٹ آئی ۔

اس کے باوجود اشتراکی خطے میں جو سماجی ترقی ہوئی تھی وہ سرمایہ دارانہ نظام سے انتہا درجے سے آ گے تھی۔ مصنف نے پیرس کمیون کے با رے میں غلط لکھا یا کمپوز ہوگیا کہ پیرس کمیون اٹھارہ سو اناسی میں قائم ہوا، جب کہ پیرس کمیون انیس سواکہتر میں قائم ہوا تھا ، مگر پیرس کمیون کی ہیت، مقاصد اورنوعیت کو بہت ہی حقائق پسندانہ اندازمیں پیش کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیرس کمیون ستر روز قا ئم رہنے کے با وجود فرانس کے مزدوروں نے سرمایہ دارانہ طرز کی پارلیمنٹ نہیں بنائی۔

جس قسم کی پارلیمنٹ انھوں نے چنی اسے کمیون کہتے تھے۔ یہ پارلیمنٹ، انتظامیہ بھی تھی، مجلس شوریٰ، مجلس عاملہ اور قانون ساز بھی تھی۔ اس کمیون میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں بھاری اکثریت مزدوروں کی تھی۔ پورے یورپ کے حکمرانوں نے مل کر بے شمار مزدوروں کا قتل عام کرکے اس تجربے کو ناکام کیا۔ ہرچند کہ درجنوں ممالک میں آزاد اشتراکیت کے بجائے مطلق اشتراکیت قائم کی گئی، جس کی وجہ سے اشتمالیت کی جانب پیش قدمی ہونے کے بجائے پلٹ کر سرمایہ داری آگئی، اس کے باوجود اشتراکی ممالک کی ترقی سرمایہ دار دنیا سے ہزارہا گنا بہتر تھی۔

جدید سائیرینٹکس کے بانی ناربرٹ دائین کا خواب تھا کہ چائے کی پتیاں چننے کی بھی ایک مشین ہو، بہت سے ملکوں نے کوششیں کیں لیکن ناکام ہوئے۔ برطانیہ کے بیرلڈ جان نے کہا تھا کہ ہرکام مشین سے کیا جاسکتا ہے لیکن چائے کی پتیاں چننے کا کام ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ جارجیائی سائنسدانوں اور ڈیزائینروں کی ایجاد کی ہوئی مشین جس کو ’’سکارتا ویلو‘‘ کہتے ہیں جگہ جگہ چائے کے باغوں میں چائے کی پتیاں چنتی ہوئی نظر آئی ہیں۔کرغستان میں انقلاب سے پہلے وہاں کے ایک رسالے ’’نقیب تعلیم ‘‘ نے ایک بار دعویٰ کیا تھا کہ کرغیزی میدانوں کی ناخواندگی دورکرنے کے لیے چار ہزار چھ سوسال لگیں گے، لیکن سوویت یونین میں شامل ہونے کے صرف بیالیس سال بعدکرغیزی میدانوں کے عوام تمام کے تمام یعنی سو فیصد تعلیم یافتہ تھے ۔

مولدو یا انقلاب روس سے پہلے ہر چیز باہر سے منگواتا تھا،انیس سواٹھتر تک چوون ملکوں کو پیداوارکی سو سے زاید قسمیں برآمدکرتا تھا۔انیس سواکسٹھ سے اکہتر تک دس سالوں میں مجموعی پیداوارسوویت یو نین میں دگنی ہوئی جب کہ امریکا کو اتنے ہی پیداوار بڑھانے میں بیس سال لگے۔ برقی قوت کی پیداوار میں سوویت یونین یورپ میں پہلے نمبر پر تھا،گیس کے پیداوار میں سوویت یونین دوسرے اور تیل کے پیداوار میں اول۔کوئلے کے پیداوار میں تیسرے نمبر پر، فولادکی پیداوار میں اول نمبر،کیمیائی صنعتی پیداوار میں یورپ میں اول نمبر اوردنیا میں دوسرے نمبر، سیمنٹ کی پیداوار میں اول نمبر، ٹیکسٹائل کی پیداوار میں دنیا میں سب سے آگے تھا۔ سوویت یونین میں تعلیم کا تناسب برطانیہ سے دگنا اور جرمنی سے تگنے سے زیادہ تھی۔

مردہ اجسام میں زندگی کی لہر دوبارہ پیدا کر نے میں سوویت سا ئنس دان نیگو فیسکی کے سر ہے ۔کلینکی موت کے خلاف ایک نئی شاخ طب احیا کہلاتی ہے۔اس شاخ کے تحت موت کے خلاف لڑائی عملا ایک حقیقت بن گئی تھی ۔کلینکی موت کے بعد ہزاروں لوگوں کو باقاعدہ دوبارہ زندہ کیا جاتا رہا۔ دنیا کے ایک تہائی ڈاکٹر صرف سوویت یونین کے تھے۔

یہ ساری بھلائی عالمی سرمایہ داری اور اس کے سرغنے مغربی سامراج کو ایک آ نکھ نہ بھائی، وہ ہمیشہ سوویت یونین کے خلاف سازش کرتے رہے۔ رانا یوسف خان نے یہ کتاب لکھ کر اشتراکیوں اوراشتمالیوں کے علم اورمعلومات میں اضافے کرکے عالمی اشتمالی انقلاب کو تیزکرنے میں مدد کی ہے۔ یہ کتاب برصغیرکے اردو پڑھنے والے نوجوانوں، مزدوروں اورکسانوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔