ارکان پارلیمنٹ کا کردار

محمد سعید آرائیں  منگل 29 نومبر 2016

اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ جوکردار ادا کررہے ہیں۔ قوم ان سے ان کے پارلیمانی کردارکے بارے میں پوچھ سکتی ہے اور آج کے نوجوان جمہوریت کے استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔خورشید شاہ نے یہ بھی کہاکہ پارلیمنٹ میں نہ آنے والے وزیراعظم بن جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کی بجائے نظر انداز کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا یہ اشارہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف تھا جنھوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں سب سے کم آنے کا نیا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے اور وہ واحد وزیراعظم ہیں جو ایک سال سے زائد عرصے تک ایوان بالا سینیٹ میں نہیں آئے اور سینیٹ میں وزیراعظم کے نہ آنے پر آواز بھی اٹھی۔موجودہ قومی اسمبلی کے مسلم لیگ ن کے ایک رکن بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم سیاست میں عزت کے لیے آتے ہیں یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ سب الٹ ہے۔

سابق وزیراعظم اور رکن قومی اسمبلی جن کا تعلق بھی مسلم لیگ ن سے ہے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب کو آخری قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ایک بھی ایسا رکن موجود نہیں جو آئین کے مطابق باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتا ہو اور اگر باسٹھ تریسٹھ پر عمل ہوجائے تو پارلیمنٹ مکمل خالی ہوجائے گی کیوںکہ ہم میں کوئی امین و صادق نہیں ہے۔ میر ظفر اﷲ جمالی ایک سینئر سیاست دان اور بزرگ مسلم لیگی ہیں اپنے اس خطاب کے بعد پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئے اور کہہ گئے تھے کہ شاید ہی میں اب اس پارلیمنٹ میں نہ آؤں مگر مشترکہ اجلاس میں آئے۔

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ضلع مظفرگڑھ کے آزاد رکن قومی اسمبلی جو گزشتہ پارلیمنٹ میں بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست دے کر دوبار منتخب ہوئے تھے اور 2013 کے الیکشن میں دو حلقوں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اس میں بھی انھوں نے جاگیرداروں کو شکست دی تھی جس کے بعد انھوں نے ایک نشست خالی کرکے اپنے بھائی کو انتخاب لڑایا تو تمام جاگیردار متحد ہوگئے اور الیکشن کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیا اور ان سب نے مل کر جمشید دستی کے بھائی کو شکست دے دی تھی۔

جمشید دستی نے اپنے گوشواروں میں اپنی کوئی جائیداد نہیں بتائی نہ ان کے پاس زمین ہے اور مظفر گڑھ کی ایک گلی میں چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور گاڑی بھی دوسروں سے لے کر اسلام آباد جاتے ہیں جہاں انھوں نے قومی اسمبلی ہاسٹل میں اپنے ساتھیوں کو قریب سے دیکھا تھا اور میڈیا میں ان کی حرکات بے نقاب کردی تھیں جس کی تحقیقات ہوئی اور معاملہ دبا دیا گیا، اگر جمشید دستی کا الزام غلط تھا تو ارکان پارلیمنٹ پر جھوٹا الزام لگانے پر جمشید دستی کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہوئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جمشید دستی درست تھے اور ’’دوستوں‘‘ کو بچا لیا گیا۔

ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، ملکوں اور مذہبی رہنماؤں پر مشتمل ہے جو اپنے علاقوں میں مظالم، دوسروں کی زمینوں پر قبضوں، بے گناہوں کو گرفتار کرانے، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی اور تحفظ دینے سے بھی سنگین معاملات میں بھی مشہور ہیں مگر ان کے خلاف ان کا کوئی ووٹر بات نہیں کرسکتا ۔ ماڈل اداکارہ قندیل بلوچ کے بعد راقم کو توقع تھی کہ کوئی اور ارکان پارلیمنٹ کے چھپے ہوئے کردار کو بھی بے نقاب کرے گا مگر اس کی نوبت نہیں آئی اور قندیل بلوچ کے قتل سے پیغام دے دیا گیا کہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے۔

میڈیا کے طاقت ور ہونے کے بعد میڈیا میں ارکان اسمبلی اور زمینداروں کے مظالم منظر عام پر آئے اور بہت کم کے خلاف کارروائی ہوئی کیوںکہ ہر ایسی کارروائی میں سیاسی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کی موجودگی میں بالاکوٹ میں ان کے گارڈ کے تشدد کی خبر میڈیا پر آئی تو پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت کو سیاسی موقع مل گیا اور مقدمہ درج ہوگیا مگر اسلام آباد دھرنے میں جانے والے صوبائی وزیر گنڈا پور کے خلاف درج مقدمات کو حکومت نے سیاسی مصلحت کے باعث دبا دیا۔

آئے دن میڈیا میں ارکان اسمبلی، سابق ارکان اسمبلی کے خلاف قانون ہاتھ میں لینے کی خبریں آتی ہیں اور اگر سیاسی حکومتوں کا سیاسی مفاد ہو تو مقدمات درج ہوجاتے ہیں جنھیں مخالف ہمیشہ اپنے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے دیتے ہیں، عدالتوں سے رجوع کرکے ثبوت رکوا دیے جاتے ہیں اور معاملہ ختم کرادیا جاتا ہے۔ وزیراعظم بھٹوکے دور میں رکن قومی اسمبلی چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بہت مشہور ہواتھا اور اپنے مخالف ارکان پارلیمنٹ کے خلاف مقدمات درج اور گرفتاریوں کا بھی ریکارڈ بنایا تھا اور پھر اسی وزیراعظم بھٹو کو معزولی کے بعد قتل کے الزام کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پھانسی چڑھ گئے جسے عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے یہ تو کہہ دیا کہ قوم ارکان پارلیمنٹ کے کردار کا پوچھ سکتی ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ قوم ایسا کیسے کہہ سکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عوام کو اپنے منتخب نمایندے کو اس کی خراب کارکردگی کے باعث مسترد کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے یہ بات کہنے کی حد تک تو درست ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے کیوںکہ عوام اپنے جن نمایندوں کو منتخب کرتے ہیں وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے اپنی پارٹی تبدیل کرلیتے ہیں ہر انتخابی حلقے خصوصاً ملک کے اکثریت دیہی علاقوں میں اگر 1985سے ہی دیکھاجائے تو پارلیمنٹ میں چہرے وہی نظر آئیںگے مگر ان کے پارٹی پلیٹ فارم تبدیل ہوںگے یا اس بارکسی وجہ سے ہار جانے والا دوسرے انتخاب میں جیت کر پھر پارلیمنٹ میں آجائے گا جس کی پارٹی دوسری ہوگی۔

اس نے الیکشن پر سرمایہ پہلے سے زیادہ لگایا ہوگا۔سیاسی اور انتخابی خاندان چہرے بدل کر یا پارٹیاں بدل کر منتخب ہوتے آرہے ہیں اور عوام بھی انھیں ہی ووٹ دینے پر مجبور ہیں کیوںکہ ہر الیکشن میں وہی پرانے خاندان اور مختلف چہرے حصہ لیتے ہیں جن کی برادری ہے یا مخصوص حلقہ ہے اور الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرسکتے ہوں۔ وہی لوگ یہاں منتخب ہوکر ہمیشہ سے آتے رہے ہیں اور آیندہ بھی آئیںگے، کیوںکہ متوسط طبقے کے لوگ پارلیمنٹ میں آنہیں سکتے نہ انھیں کوئی آنے دے گا۔

1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو اور بعد میں متحدہ کے ٹکٹ پر جو متوسط طبقے کے لوگ پارلیمنٹ میں آگئے تھے وہ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے بعد متوسط علاقوں کو چھوڑ کر مہنگے علاقوں میں رہتے ہیں اور امیروں میں شمار ہوتے ہیں اور کوئی ان سے ان کے پارلیمانی کردار اور مالی ترقی کا پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

خورشید شاہ ہی بتادیں کہ کیا معمولی ملازم سیاست کے ذریعے پارلیمنٹ میں آسکتا ہے اور کروڑوں پتی بن سکتاہے۔لوگ اچھے برے کو دیکھے بغیر اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہیں اور بیلٹ پیپر پر ایسا کوئی خانہ نہیں ہے کہ وہ ووٹ کسی کو بھی نہ دینے کے خانے پر مہر لگا سکیں اور پارلیمنٹ میں جانے کے خواہش مندوں پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرسکیں کیوںکہ اسمبلیوں میں عوام کی ترجمانی نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔