دنیا کی نایاب ترین بلی فروخت کے لیے پیش

ویب ڈیسک  بدھ 30 نومبر 2016
دنیا کی سب سے نایاب اور مہنگی ترین بلی کی قیمت 23 لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ فوٹو؛ فائل

دنیا کی سب سے نایاب اور مہنگی ترین بلی کی قیمت 23 لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ فوٹو؛ فائل

ماسکو: دنیا کی سب سے نایاب اور مہنگی ترین بلی ’’کاراکیٹ‘‘ روس میں فروخت کے لیے پیش کردی گئی جس کی قیمت 15 لاکھ روسی روبل (23 لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔

دنیا بھر میں اس وقت ان بلیوں کی تعداد صرف 30 ہے جس کی نسل عام پالتو گھریلو بلی (ایبی سینیئن کیٹ) اور جنگلی بلی (وائلڈ کاراکیل) میں ملاپ سے تیار کی گئی ہے۔

’’وائلڈ کاراکیل‘‘ (Wild Caracal) کہلانے والی دیوقامت جنگلی بلی زمانہ قدیم ہی سے بادشاہت اور شان و شوکت کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ اس کی لمبائی 20 انچ تک جب کہ وزن 33 پونڈ (20 کلوگرام) تک ہوتا ہے۔ فرعونوں کے مجسموں میں بھی اسی جنگلی بلی کی جھلک موجود ہے، اسے فرعونوں کے ساتھ ممی بناکر مقبروں میں دفن بھی کیا جاتا تھا۔

قدیم چین میں اس جنگلی بلی کو ’’شاہی تحفے‘‘ کا درجہ حاصل تھا جب کہ آج بھی اسے مہنگی پالتو بلی کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے لیکن وائلڈ کاراکیل بعض مرتبہ خونخوار ہوجاتی ہے اور اپنے مالک ہی کو زخمی بھی کر ڈالتی ہے۔

اسی  بناء پر 2007 میں وائلڈ کاراکیل اور ایک عام پالتو بلی (ایبی سینیئن کیٹ) کے ملاپ سے ’’کاراکیٹ‘‘ تیار کی گئی جو اپنے لمبے نوکیلے ناخنوں، شیر جیسی غراہٹ اور بڑی جسامت سمیت اصلی کاراکیل سے مشابہت رکھتی ہے لیکن خاصی پُرامن بھی ہوتی ہے۔

جانوروں کی مخلوط نسلیں (کراس بریڈز) تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کاراکیٹ کی تیاری خاصا مشکل کام ہے جس پر اخلاقی اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک ایسی صرف 30 بلیاں پیدا کی جاسکی ہیں۔

اگرچہ کراس بریڈ ہونے کی وجہ کاراکیٹ میں صحت کے مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن کیونکہ اس کے خریدار بھی مالدار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ ان تمام مسائل سے بخوبی نمٹ لیتے ہیں۔

بہت سے خریدار ایسے بھی ہیں جو کاراکیٹ کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا آرڈر کردیتے ہیں اور نوزائیدہ بچے کی پرورش کرتے ہیں تاکہ وہ ان سے زیادہ مانوس رہے۔

کراس بریڈنگ کے بعد نر اور مادہ کاراکیٹ کے ملاپ سے اس کی دوسری نسل بھی تیار کی جارہی ہے لیکن فی الحال اس کی تعداد بہت کم ہے جس میں بڑی احتیاط سے اضافہ کیا جارہا ہے تاکہ اس میں صحت مندی اور بقاء کی صلاحیت پہلی نسل سے بہتر ہو۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔