سندھ اسمبلی کی تاریخی قانون سازی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 30 نومبر 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تاریخی قانون متفقہ طور پر منظورکرلیا۔ اب صوبہ سندھ میں 18 سال سے کم عمرافرادکے مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دیا گیا۔ اب کم عمر افراد کے زبردستی مذہب کی تبدیلی پر عمرقید یا کم سے کم 5سال سزا اور جرمانہ ہوگا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی نندکمارگولانی نے دو سال قبل یہ بل اسمبلی میں پیش کیا تھا۔گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی نے پرائیوٹ اراکین کے دن کے موقعے پر قواعد وضوابط کو معطل کرکے بل کو متفقہ طور پر منظورکیا گیا۔ جس کی وجہ سے صوبہ سندھ میں ہندو برادری کو پہلی دفعہ قانونی تحفظ حاصل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا ہونا شروع ہوا۔

اقلیتی برادری کی لڑکیوں کے اغواء، زبردستی مذہبی کی تبدیلی اور شادی کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ہندو برادری کے سرکردہ افراد یہ الزام لگانے لگے کہ ان کی لڑکیوں کو زبردستی اغواء کر کے مذہب تبدیل کر کے شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ ان مقدمات کی بازگشت سپریم کورٹ تک گئی۔ سپریم کورٹ نے بعض مقدمات میں لڑکیوں کے بیانات قلم بندکیے اور انھیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے جب رینکل کماری کا مقدمہ پیش ہوا تو انھوں نے سپریم کورٹ کے رجسٹرارکے کمرے میں اس لڑکی کا بیان قلم بند کرانے کا حکم دیا، یوں کھلی عدالت میں بیان قلم بند نہ کرنے کے معاملے کو غیر ملکی ذرایع ابلاغ نے خوب اچھالا اور انسانی حقوق سے متعلق مختلف عالمی تنظیموں کی رپورٹوں میں اس کا خوب ذکر ہوا مگر ایک اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے مقدمے کی یکسوئی کے ساتھ سماعت کی اور اپنے جامع فیصلے میں لکھا کہ پاکستان کے آئین کے تحت تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں،اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور انتظامی اقدامات ضروری ہیں۔ اس فیصلے کے بعد وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص کرنے کے احکامات پر عملدرآمد ہوا۔

سندھ کے شہروں اوردیہاتوں میں ہندو برادری کب سے آباد ہے تاریخ اس بات پر خاموش ہے مگر تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سندھ کے قدیم باشندے ہیں۔ ہندو برادری کی اکثریت تجارت کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل سندھ میں بڑے ہندو جاگیردار موجود تھے جو آزادی کے بعد بھارت چلے گئے۔ اسی طرح سندھ کے بڑے تاجر گھرانوں کا تعلق بھی ہندو برادری سے تھا۔ ہندو برادری کے ان صاحب ثروت افراد نے اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور پارکوں کے قیام اور دیگر فلاحی کاموں کی انجام دہی میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر بہت سے افراد بھارت، مشرق بعید اور یورپ چلے گئے اور جو لوگ سندھ میں رہ گئے انھوں نے اپنے بزرگوں کی روایات کو برقرار رکھا۔

ہندوؤں نے سب سے پہلے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں سے تعلق تعلق رکھنے والے متوسط طبقے میں نوجوان انجنیئرنگ، میڈیکل اور وکالت کے شعبوں کی طرف مائل ہوئے۔ ان میں لڑکیوں کی بھی خاطرخواہ تعداد رہی۔ سندھ میں ہمیشہ سے مذہبی یکجہتی کی روایت مضبوط تھی۔ صوفیاء، پیروں اور شعراء نے مذہبی ہم آہنگی پر خصوصی طور پر زور دیا تھا۔ پھر مسلمانوں کے علاوہ ہندؤں میں بھی صوفی ازم کے ماننے والے موجود ہیں۔ سندھ کے عظیم شاعر شاہ لطیف نے اپنی شاعری میں انسانیت سے محبت کا درس دیا۔

انھوں نے اپنی عملی زندگی میں ہندوؤں کو قریب رکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف کا عرس ہو یا شہباز قلندر کا مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی بھاری تعداد میں ان میں شرکت کرتے ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے معاشرے میں انتہاپسندی بڑھی اور مذہبی تعصب تشدد میں تبدیل ہوا تو اس کے اثرات سندھ کے معاشرے پر بھی پڑے۔ لاڑکانہ اور جیکب آباد میں مندروں پر حملے ہوئے مگر کیونکہ عام آدمی میں کسی قسم کی نفرت یا تعصب نہیں ہے اس لیے انتہاپسند اپنے مزموم مقاصد حاصل نہ کرسکے۔ مگر امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے اثرات ہندو برادری پر بھی پڑے۔ ہندو برادری کے افراد جو تجارت سے وابستہ ہیں سب سے پہلے ڈاکوؤں کا نشانہ بنے۔ ڈاکٹر، وکلاء اور سرکاری افسران کو تاوان کے لیے اغواء کیا جانے لگا۔

ہندو تاجروں کو بھتے کے خطوط بھی موصول ہونے لگے۔ برسرِاقتدار حکومتوں نے ہندو برادری کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے۔ بہت سے اغواء ہونے والے افراد کے عزیزوں نے تاوان کی رقمیں جمع کرادیں، یوں یہ لوگ ڈاکوؤںکے چنگل سے آزاد ہوئے۔ ڈاکوؤں کا نشانہ مسلمان تاجر، انجنیئر، ڈاکٹر، وکلاء اور سرکاری ملازمین بھی تھے یوں یہ معاملہ مذہبی تعصب کے حوالے سے نہیں دیکھا گیا۔ مگر اس مجموعی صورتحال میں ہندو لڑکیوں کے اغواء، تبدیلی مذہب اور شادی کے قصے مشہور رہے۔

سندھ کے امور کے ماہر اختر حسین بلوچ کہتے ہیں کہ اپر سندھ میں بالغ لڑکیوں کے اغواء اور زبردستی شادی کے واقعات ہوئے، ان میں کئی اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کرگئی تھیں۔ اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ ہندوؤں میں قریبی رشتے داروں میں شادی نہیں ہوتی، پھر جہیز کا ایک بہت  بڑا مسئلہ ہے اس لیے تعلیم یافتہ لڑکیاں مسلمان لڑکوں کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں مگر زیریں سندھ میں کم عمر لڑکیوں کے اغواء، تبدیلی مذہب اور زبردستی شادی کے واقعات بڑھ گئے۔

محقق اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ زیریں سندھ میں ہندوؤں کے نچلے طبقے کے غریب لوگ اپنی لڑکیوں کے اغواء پر واویلا کرتے ہیں تو ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ میر پور خاص کے ڈاکٹر گوردھن داس نے اپنی بیٹی کو مسلمان ہونے اور اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دی تھی۔

بڑی ذات کی ہندو برادری نے انھیں اپنی برادری سے نکال دیا مگر نچلی ذات کے ہندوؤں نے ان کی حمایت کی تھی۔ اگرچہ سندھ میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی ہے اور سندھ اسمبلی کے منظور کردہ قانون کے تحت ایسی شادی پر فوجداری مقدمہ قائم ہوسکتا ہے اور عدالت ملزموں کو سزا دے سکتی ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا جس کے نتیجے میں ہندو برادری دباؤ اور خوف کا شکار ہوئی۔ بہت سے خاندان سندھ چھوڑ کر چلے گئے، ان میں کتنے بھارت جا کر آباد ہوئے اور کتنے خاندانوں نے مشرق بعید کے ممالک، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں سیاسی پناہ لی اس کے بارے میں مستند اعدادوشمار تو دستیاب نہیں مگر بھارت جا کر پناہ لینے اور بھارت کی شہریت لینے والے خاندانوں کی حالت زارکے بارے میں پاکستان اور غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں تفصیلی خبریں شایع ہوئیں۔

یہ صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور امریکی وزارت خارجہ کی سالانہ رپورٹوں میں ان واقعات کا ذکر ہوا اور پاکستان کو عدم برداشت اور مذہبی امتیازکے انڈکس میں صفحہ اول پر درج کیا گیا۔ برسراقتدار حکومتوں نے ان رپورٹوں کو منفی پروپیگنڈا قرار دیا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا مگر اس صورتحال کے تدارک کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے۔ پیپلزپارٹی کی جب 2008 میں وفاق اور سندھ میں حکومتیں قائم ہوئیں تو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے پر اتفاق ہوا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے اپنے رکن قومی اسمبلی کو اس بناء پر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ نہیں دیا کہ ان پر ہندو لڑکیوں کو اغواء اور زبردستی تبدیلی مذہب اور شادی کرانے کا الزام تھا، اس طرح ہندو میرج بل کی تیاری کا کام شروع ہوا۔ نواز شریف حکومت نے اس قانون کے مسودے کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کیا۔ اس طرح اب ہندو میرج بل پارلیمنٹ سے منظور ہو کر قانون بن گیا۔

اس قانون کے تحت ہندو برادری میں ہونے والی شادیوں اور طلاق کے طریقہ کار اور ان کے اندراج کا باقاعدہ طریقہ کار طے ہوا اور پھر 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی شق بھی اس قانون میں شامل ہوئی مگر اب سندھ کے 18 سال سے کم عمر افراد نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور شادی کو تعزیرات پاکستان کے تحت جرم قرار دیدیا۔ اس فیصلے سے ہندو برادری میں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا اور انھیں پہلی دفعہ پاکستان کے آئین سے تحفظ ملے گا۔ سندھ حکومت نے گزشتہ سال ہولی کے موقعے پر صوبے میں عام تعطیل کا اعلان کر کے ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا۔ اب اس قانون کی منظوری سے ثابت ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔

ایسا ہی قانون وفاق میں بھی بننا چاہیے اور اس قانون میں کسی بھی عمر میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کو فوجداری جرم قرار دینا چاہیے۔ یہ قانون پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن 11 اگست 1947ء کو ہونے والی تاریخی تقریر کے مطابق ہے۔ محمد علی جناح نے کہا تھاکہ نئی ریاست میں تمام شہری اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ ریاست کا ان کے عقیدے سے تعلق نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔